غنی بلوچ! علم و کتاب سے محبت کرنے والا ایک عظیم انسان – ایڈوکیٹ شاہ زیب بلوچ

64

غنی بلوچ!
(علم و کتاب سے محبت کرنے والا ایک عظیم انسان)

تحریر: شاہ زیب بلوچ ایڈوکیٹ
[نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی]

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی تاریخ کے تسلسل پر مختصراً تبصرہ کیا جائے تو ہزاروں نسلوں کے مستقل جدوجہد سے آج دنیا اپنے ماضی کے بہ نسبت سب سے زیادہ ترقی کے اونچائی تک پہنچ چکا ہے حالانکہ ترقی کے افزائش کو روکنے کے لیے سامراجی قوتوں نے اپنے ظلم کے نظام کو نافذ العمل بھی کرتے رہے ہیں لیکن انسانی فطرت میں موجود غلامی سے نفرت کے رویے نے مطلق العنان استعماریت کو مزاحمت کرکے شکست بھی ساتھ ساتھ دیتے جارہے ہیں۔

سقراط، افلاطون یا ارسطو کا قدیم یونانی دور ہو، عباسی خلافت کا چار سو سالہ سنہرا وقت ہو یا پھر قرون وسطٰی دور میں بالخصوص یورپ کا نشاط ثانیہ کے عظیم مفکرین و دانشور ہوں، ان میں کچھ باتیں مشترکہ تھے وہ یہ کہ انہیں علم سے جنون کے حد تک محبت تھا اور علمی بحث و مباحثہ کرکے تحقیقی مراحل کو افزائش دیتے جاتے اور یہی وجہ ہے کہ ان عظیم فلسفیوں کے بدولت سماج میں موجود منفی عوامل اور رویوں کو مسترد کیا جانے لگا اور انسان ترقی کرتے کرتے آج نہ صرف سماجی سائنس بلکہ مادیت کے سائنس کو بھی عروج تک پہنچا دیا ہے۔

بلوچ ایک قوم ہے جس کی اپنی ہزار سالہ تاریخ اپنے سرزمین پر موجود ہے۔ بلوچ تاریخی اعتبار سے وقتاً فوقتاً سامراجی حملوں کے زد پر آتا رہا ہے لیکن ان شدید حملوں کے باوجود غلامی کے غلاف کو خود پر زیادہ وقت تک ٹہرنے نہیں دیا اور نہ ہی کبھی اپنی آزادی پر سمجھوتہ کیا ہے۔ اکسویں صدی کے بلوچ نے اپنے ماضی کی بہ نسبت علم کے زیور سے خود کو لیس کردیا ہے اس لیے بلوچ کو زیر کرنا اب مزید ناممکنات میں شامل ہے۔ آج کا بلوچ بحیثیت فرد و قوم کتاب سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور اپنے آپ کو بہتر سے بہترین کی جانب گامزن کرنے کے لئے تحقیقی مراحل سے خود کو گزار رہا ہے۔ نوآبادیاتی پالیسیوں کے سبب بلوچ کسمپرسی، غربت اور بنیادی حقوق کے عدم فراہمی کے باوجود بھی آج تک اپنے علم اور کتابوں سے محبت کے جنون پر سے کوئی سمجھوتہ نہیں کررہا اور نہ ہی جبر و استحصال سے خوفزدہ ہیں۔

غنی بلوچ ایک سیاسی کارکن، ایک طالب علم اور کتابوں سے محبت کرنے والا انسان دوست شخصیت ہیں، جو اپنے علمی صلاحیت کے باوجود اگر چاہتا تو سنڈیمن کے کلرکی/ افسر شاہی نظام کا حصہ بن کر اپنے ذات تک محدود ہو کر نوآبادیاتی ڈھانچے میں شامل ہوتے ہوئے بے رحم حکمرانوں کی پیروی کر سکتا تھا، لیکن بلوچ سرزمین سے سچی محبت رکھنے کے باعث اس نوجوان نے علم و کتاب سے تعلق کو جوڑ کر بلوچ و دیگر محکوم اقوام میں شعور کے کرنوں کو بکھیرنے لگا۔ غنی بلوچ جیسے کردار معاشرے کے آنکھ ہوتے ہیں جو جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے سے بچانے کے لئے محکوم و مظلوم کو راستہ بتا کر رہنمائی کرتے ہیں لیکن استعماریت پر مبنی نوآبادیاتی نظام کو استعمال کرکے مطلق العنان بالادست حکمران بلوچ وسائل کی لوٹ مار کی غرض سے جبر و تشدد کے پالیسیوں کے ذریعے علم دوست رویوں کو سبوتاژ کرنے کی لگاتار کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

غنی بلوچ کو بھی پچیس مئی 2025 کی شب کتاب سے محبت رکھنے کے سبب کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے مین آر، سی، ڈی شاہراہ پر خضدار قادری ہوٹل کے قریب ایک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے گاڑی سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے مسلح اہلکاروں نے اتار کر نامعلوم جگہ منتقل کردیا۔ اب سوالات اٹھتے ہیں کہ جبری طور پر لاپتہ کرنا ناصرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شامل ہیں بلکہ اس طرح کے ماورائے آئینی اقدام اداروں کے نہ صرف غیر مہذب ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ اس بات کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ علم و شعور کا راستہ روک کر بلوچ کے سیاسی آواز کو مکمل دبا نے کا مقصد بلوچ سائل وسائل کا بدترین استحصال کرنا ہے، جس کیلئے اظہار رائے حق کو ختم کرکے بلوچ سماج کو علم و کتاب سے دور رکھ کر نوآبادیاتی تسلط کے اندھیروں میں دھکیلنے کی بھر پور کوششیں ہورہی ہیں۔

اس تحریر کے آغاز میں انسانی افزائش کے تسلسل کو تباہ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے جس میں رومی شہنشاہیت نے ظلم کرتے ہوئے قدیم یونانی فلسفیوں سے پریشان ہوکر ظلم کا نظام نافذ کیا اور ڈریکونین قوانین کے ذریعے یونانی سماج کو بانجھ کرنے کی کوشش کی گئی، اس کے علاوہ منگول نے بھی عباسی خلافت کو روندھ کر ظلم کی الگ داستان رقم کردی تھی اور قرون وسطٰی کے آغاز میں یورپی ریاستوں پر بھی رومی سلطنت کے باقی ماندہ بچے کچے ناسور مذہب و جہالت کے آمیزش سے یورپی سماج کو کھوکھلا کررہے تھے، لیکن ظلم کا ایک مختصر دور تھا جو وہاں ختم ہوگیا۔ بلوچ و دیگر محکوم اقوام و طبقات پر ظلم کے بادل نہ صرف منڈلا رہے ہیں بلکہ پوری شدت کے ساتھ آگ و خون کے لپیٹوں میں بھی ہیں۔ آج بلوچ قوم کو ماضی کے بہ نسبت زیادہ ٹھوس استعماریت، نوآبادیاتی ڈریکونین قوانین، مذہب و جہالت کے آمیزش سے دقیانوسی مفروضات اور جبر و تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان چیلنجز کو صرف اور صرف ایک واضح ہدف اور منظم مستقل مزاج جدوجہد کرکے شکست دیا جاسکتا ہے۔

انسانی فطرت اور ماضی کے تسلسل سے بھی واضح ہے کہ بلوچ سرزمین بھی ایک دن غنی بلوچ جیسے عظیم سیاسی کرداروں کے بے شمار قربانیوں، علم و کتاب سے محبت اور بر وقت صحیح سیاسی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ہر طرح کے استعماریت، استحصال، جبر و تشدد اور نوآبادیاتی نظام کے تسلط سے آزاد ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔