زیشان ظہیر کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ان کی یاد میں تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔بی وائی سی

58

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جاری بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ روز، 29 جون کو، پنجگور میں 10 برس سے جبری گمشدگی کا شکار ظہیر احمد کے صاحبزادے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی پنجگور زون کے آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر زیشان ظہیر کو پاکستانی فوج کے پرائیویٹ ملیشیا، بدنامِ زمانہ ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکاروں نے فٹبال چوک سے اغوا کیا۔

انہوں نے کہاکہ زیشان کی جبری گمشدگی کے فوراً بعد اہل خانہ اور عوام کی جانب سے پنجگور میں دھرنا دیا گیا، جو رات گئے تک جاری رہا۔ آج 30 جون کی صبح نو بجے، ان کے خاندان کو زیشان کی مسخ شدہ لاش وصول ہوئی۔

21 سالہ زیشان ظہیر ایک سرگرم سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکن تھے، جو اپنے والد ظہیر احمد سمیت بلوچستان بھر میں جبری گمشدگیوں اور بلوچ نسل کشی کے خلاف مسلسل آواز بلند کر رہے تھے۔ وہ ریاستی جبر، تشدد اور ماورائے عدالت کارروائیوں کے خلاف ایک باشعور سیاسی موقف رکھتے تھے۔

ترجمان نے کہاکہ زیشان ظہیر کا ماورائے عدالت قتل پاکستانی فوج اور اس کی پرائیویٹ ملیشیا کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی اور بلوچستان میں گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ریاستی مظالم کا تسلسل ہے۔ بلوچستان میں اس وقت جنگل کا قانون نافذ ہے، جہاں روزانہ کی بنیاد پر بلوچ شہریوں کو جبری لاپتہ کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا رہی ہیں۔ ریاستی درندگی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، اور قانون کی کوئی عملداری نظر نہیں آتی۔

مزید کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی، شہید زیشان ظہیر کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں اور ان کی یاد میں تقاریب کے انعقاد کا اعلان کرتی ہے۔ تمام زونز کو تاکید کی جاتی ہے کہ فوری طور پر احتجاجی پروگرام اور یادگاری تقریبات کی تیاریوں کا آغاز کریں۔ کل سوشل میڈیا پر آگاہی مہم بھی چلائی جائے گی۔