زندان میں قید بلوچ “ننگ و ناموس”
تحریر: عرفان
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ بلوچ حقوق کے لیے متحرک بلوچ ایکٹیوسٹوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کا پہلا جبری طور پر لاپتہ شخص اسد اللہ مینگل تھا جو سردار عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اور اختر مینگل کے بھائی تھے جن کا آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا۔
بلوچستان میں جیسے ہی دو ہزار کی دہائی میں بلوچ قومی تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا تو بلوچ سیاسی کارکنوں کو خاموش کرانے کے لیے جبری گمشدگیوں کا غیر قانونی اور غیر انسانی سلسلہ شروع کیا گیا جس کی زد سے ایک بلوچ گھرانہ بھی نہ بچ سکا۔
دو ہزار نو کو بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی چیئرمین واجہ غلام محمد بلوچ سمیت لالہ منیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ کی مسخ شدہ لاشیں ضلع کیچ کے پہاڑی سلسلے مُرگاپ سے برآمد ہوئی تھیں جن کو شدید تشدد کے بعد شہید کر کے پھینک دیا گیا تھا۔ غلام محمد اور ان کے دوستوں کی شہادت کے بعد مسخ شدہ لاش پھینکنے کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا۔ ہر ایک یا دو دن کے بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملتی رہیں، اس ریاستی جبر سے کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا بلوچ محفوظ نہ رہ سکا، ڈاکٹر، استاد، وکیل، اسٹوڈنٹ، سیاستدان سب کو چن چن کر جبری طور پر اغواء کیا گیا اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں بلوچوں کو موصول ہوئی۔
اس ریاستی پالیسی کا سیدھا سادہ مقصد یہ تھا کہ بلوچ کو قومی تحریک سے دور رکھا جا سکے، جو ریاستی لوٹ کھسوٹ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہیں ان کو بغیر مزاحمت کے جاری رکھا جا سکے۔ بلوچستان کی دولت سے پنجاب کے صنعتوں کو ایندھن فراہم کیا جا سکے۔ اور یہ سلسلہ آج تک ہنوز جاری ہے بلوچستان کے کونے کونے میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا گیا ہے، بلوچستان کا قدرتی گیس پنجاب کے فیکٹریوں کے لیے ایندھن کا کام دے رہی ہے، کوئلہ بلوچستان سے لوٹا جا رہا ہے، سیندک اور ریکوڈک بلوچستان سے لوٹے جا رہے ہیں مگر بلوچستان کو جواب میں خونی آپریشنز اور اپنے پیاروں کی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔
پہلے بلوچ مردوں کو جبری طور پر اغواء کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا مگر اب اس سلسلے کو طول دے کر بلوچ خواتین کو بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی تازہ ترین مثال لائبریری سائنس کی اسٹوڈنٹ ماہ جبین بلوچ کی جبری گمشدگی ہے جسے 29 مئی کی رات دو بجے ریاستی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے کوئٹہ سول ہسپتال کے گلز ہاسٹل سے گھسیٹ کر جبری گمشدگی کا نشانہ بنا کر لاپتہ کر دیا تھا جو آج کے دن تک لاپتہ ہیں ان کے خاندان کو پتہ نہیں کہ ان کی بچی کہاں اور کس حال میں ہے۔
ماہ جبین بلوچ کا تعلق بلوچستان کے دور افتادہ علاقے بسیمہ سے ہے جہاں بنیادی تعلیم کے بعد بچے اور بچیاں مزید تعلیم کے حصول کے لیے کوئٹہ کا رخ کرتے ہیں کیونکہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں تعلیم کی بنیادی سہولت لوگوں کو میسر نہیں ہے۔ ماہ جبین بھی باقی بلوچ بچیوں کی طرح ہزاروں خواب آنکھوں میں سجاکر کوئٹہ آئی تھی کہ پڑھ لکھ کر اپنے بوڑھے والدین کا سہارا بنوں، مظلوم بلوچ قوم کے لیے کچھ کر سکوں مگر ماہ جبین سمیت ان کے خوابوں کو بھی زندان کی نذر کر دیا گیا۔
مجھے اس امر پر بالکل بھی تعجب نہیں ہے کہ ریاست بلوچ خواتین کو جبری گمشدگی کا شکار بنا رہی ہے کیونکہ آج یا کل یہ تو ہونا تھا کیونکہ بلوچ خواتین نے بلوچ حقوق کی جنگ میں وہ کلیدی کردار ادا کیا ہے جو ریاستی اداروں کے لیے ہضم کرنا ممکن نہیں ہے اسی لیے بلوچ خواتین کو خاموش کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں اور بلوچ خواتین کو جبری گمشدہ کرنا اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اور بلوچ قوم تیار رہے آگے جا کر یہ سلسلہ اور زیادہ شدت اختیار کرے گی۔
مگر مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ ہم بحیثیت قوم کتنے کمزور یاداشت کے مالک ہیں، آج سترہ دن ہو گئے ہیں کہ بلوچ بچی ماہ جبین جسے ہم “ننگ اور ناموس” کہتے نہیں تکتے ہیں ریاستی زندان میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہے مگر ہم خاموش تماشائی بن کر بیٹھے ہوئے ہیں جس اذیت و کرب سے ماہ جبین کی فیملی گزر رہی ہے اس کا اندازہ ہم سب کر سکتے ہیں کیونکہ ہم میں سے اکثریت اس کرب سے گزر چکے ہیں اور ہمیں اس بات کا اندازہ بھی ہے کہ اگر ہر طرف خاموشی ہو تو زندان میں قید لوگوں کے فیملی پر کیا گزرتی ہے۔ جب واقعہ نیا ہوتا ہے تو ہم ایک یا دو ٹویٹ لکھ لیتے ہیں تاکہ اپنا فرض پورا کر سکیں مگر اس کے بعد جبری طور پر اغواء بلوچ کے فیملی کو اکیلے suffer کرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ میں نے ماہ جبین کی فیملی والوں کے جتنے بھی ٹویٹ دیکھے ہیں وہ بلوچ قوم سے اپیل کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ ماہ جبین کے لیے آواز بلند کرنے میں ان کا ساتھ دیں۔ اس سے بڑی شرمندگی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک متاثرہ فیملی بار بار مجبور ہو کر ہمیں یاد دہانی کراتی ہے کہ ہمارا ساتھ دیں۔ بحیثیت قوم یہ ہماری بے حسی کا ثبوت ہے۔
جس فیملی نے بلوچ تحریک کی نشونما کے لیے اپنے جانوں کے نذرانے پیش کیے، جس فیملی نے کندہ پیشانی سے اپنے پیاروں کی لاشیں وصول کیں تاکہ بلوچ تحریک کی آبیاری ہو سکے آج وہی فیملی ہاتھ باندھ کر التجا کر رہی ہے کہ ان کے بچوں کی بازیابی کے لیے ان کا ساتھ دیں مگر ہم بے حس ہو کر خاموش ہیں۔
جبری گمشدگی کا مسئلہ کسی بھی فیملی کا اکیلا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے جس سے پورا بلوچستان متاثر ہے اور اس مسئلے کا حل بھی اجتماعی جدوجہد میں پوشیدہ ہے، اس آگ سے کوئی بھی بلوچ محفوظ نہیں ہو سکتا۔ اگر ان ریاستی مظالم کا مقابلہ کرنا ہے تو ان جبری گمشدہ لوگوں کے فیملیز کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں جو بلوچ مزاحمت کی کامیابی کے لیے اپنے بچوں کو زندان کی نذر کر چکے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔