ریاستی جبر اور بلوچ خواتین کا محاذ – ٹی بی پی اداریہ

58

ریاستی جبر اور بلوچ خواتین کا محاذ

ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان میں جبری گمشدگیاں دو دہائیوں سے جاری ہیں، تاہم گزشتہ برسوں میں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انتیس مئی کو بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں سول ہسپتال کے نرسنگ ہاسٹل سے ماہ جبین بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، جبکہ ان کے بھائی محمد یونس کو ضلع واشک کے علاقے بسیمہ میں ان کے گھر سے اکیس مئی کو اغوا کیا گیا۔ ماہ جبین بلوچ کا خاندان کئی سالوں سے ریاستی جبر کا سامنا کر رہا ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد سے وابستگی کے باعث ان کے خاندان کے متعدد افراد جبری طور پر لاپتہ کیے جا چکے ہیں یا ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بنے ہیں۔

دو ہزار پچیس کے پہلے پانچ مہینوں میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ تاہم، بلوچستان کی متنازعہ حکومت اس سنگین انسانی حقوق کے مسئلے کو سنجیدہ لینے کے بجائے، اقتدار میں رہنے کے لیے مقتدر قوتوں کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر اس انسانی المیے کو نظرانداز کر رہی ہیں، حالانکہ بلوچ مسئلہ کو ریاستی جبر کے ذریعے دبانے اور سیاسی قائدین کو پابند سلاسل کرنے پر عالمی انسانی حقوق کے ادارے مسلسل تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

پانچ معتبر عالمی انسانی حقوق کے ادارے، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ایشین فورم برائے انسانی حقوق و ترقی، فرنٹ لائن ڈیفنڈرز، بین الاقوامی فیڈریشن برائے انسانی حقوق، اور ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے قانون ریاستی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ ان اداروں نے 3MPO کے تحت گرفتار سیاسی قائدین کی رہائی اور ریاستی جبر کے خاتمے کے لیے پاکستان کے وزیرِاعظم کو خط بھی لکھا، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو اب جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

دو دہائیاں گزرنے کے باوجود پاکستان کی مقتدر قوتیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں کہ بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں اور سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں سے بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست کی موجودہ پالیسیاں اور غیر سنجیدہ اقدامات نہ صرف سیاسی مزاحمت کو ختم کرنے میں ناکام رہیں گے بلکہ یہ قومی مزاحمت کو مزید ابھاریں گے۔