بہادری صبر اور استقامت کا چیده وسیم
تحریر: کیگد کندیل
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا کی باتوں میں سانس لیتی ہوئی تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں پر سامراج نے اپنے خونی پنجے گاڑ دیے ہیں، وہاں سامراج کا سر کچلنے کے لیے سرزمین نے ایسے بہادر سپوتوں کو جنم دیا ہے جن کا مقصد و منشا سرمایہ داری اور سامراج کا تسلط کا طوق گلے سے اتارنے کے لیے تھا۔
آزادی کا خواب لیکر جنم لینے والے، جس کی قیمت اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کر کے ادا کرتے ہیں، سرزمین اور قوم کی پاسداری کے لیے خود کو قربان کر دیتے ہیں مگر اپنی سرزمین اور قوم پر ایک آنچ آنے نہیں دیتے۔
اگر دنیا کے کسی بھی مظلوم قوموں کی تاریخ کو دیکھا یا پڑھا جائے تو وہاں غلامی کے بدترین دور میں ایسے انقلابی شخصیات نے جنم لیا ہے جنہوں نے ہر دور میں دشمن کو نیست و نابود کردیا ہے۔
جب جب دنیا کی تاریخ لکھی جائے گی، اسے تبدیل کرنے والے انقلابیوں کا ذکر ہوگا تو اینگلز، لینن، چی گویرا، ماؤزے تنگ، فیڈرل کاسترو، کارل مارکس اور بگھت سنگ کے ساتھ ساتھ تاریخ کے افق پر جھلکتا رہے گا جنہوں نے اپنے اور قوم کے لیے جان کی بازی لگا دی۔
صرف اپنی قوم کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے محنت کشوں اور سامراجیت کے پاوں تلے کچلے ہوئے قوموں کو یہ سبق سکھایا کہ سامراجی دہشتگردوں کے خلاف ہمیشہ نبرد آزما ہونا چاہیے۔
اگر قربانی کے فلسفے کو دیکھا جائے تو یہ سچائی کو کوئی کبھی رد نہیں کرسکتا۔ ہم خود ایک ایسی سرزمین کے وارث ہیں جہاں آئے روز اس سرزمین کی گود میں پلنے والے نوجوان اس بنجر زمین کی پیاس کو اپنے خون سے بجھاتے ہیں اور تاریخ کے صفحات میں اپنا نام خون سے لکھتے ہیں۔ اپنے آنے والی نسلوں کو آزادی کی راہ پر چلنے کا درس دیتے ہیں اور قبضہ گیر کو یہی پیغام دیتے ہیں کہ ہم اپنی زمین اور قوم کے لیے اپنی ذات کو قربان کردیتے ہیں مگر غلامی کو کبھی تسلیم نہیں کرتے۔
جدوجہد کی اس راہ میں ہزاروں شہیدوں نے اپنے آپ کو قربان کیا ہے جن میں ‘وسیم’ کا نام بھی ان میں تہِ ابد زندہ ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وقت اور حالات انسان کو بناتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وسیم وہ انسان تھا جس نے خود کو خود تراشا تھا، جس نے اپنے لیے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جو موت کے بعد بھی اسے زندہ رکھتا ہے۔
پنجگور کے علاقے بونستان کے بڑے سے قبرستان میں ہزار قبروں میں سے ایک ایسی قبر بھی تھی جس پر آزاد بلوچستان کا بیرک (جھنڈا) غلامی کے ہوا میں لہرا رہا تھا۔ لوگ دور سے اس قبر کو دیکھ کر جان جاتے تھے کہ یہ قبر ایک ایسی عظیم شخصیت کی ہے جو مرا نہیں، زندہ ہے اور اسی ہوا میں سانس لے رہا ہے کیونکہ جو شخص اگر ایک عظیم مقصد کے لیے خود کو قربان کرتا ہے وہ کبھی مرتا نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ موت بھی اس کی بہادری کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے اور ہار جاتا ہے۔
وسیم جاری جدوجہد کا دوسرا نام ہے۔ ایک ایسا نام جو آزادی کے اس سفر میں ہمیشہ زندہ ہے۔ وہ نہ کبھی ٹوٹا، نہ کبھی سرجھکایا اور نہ منزل سے پہلے کبھی تھک کر ہار مانا۔ وہ چلتا رہا اسی راہ پر جس کی آبیاری پہلے سے شہیدوں نے اپنے خون سے کی تھی۔
وسیم کی زندگی میں کئی ایسے راز تھے جو اس نے اپنے سینے میں دفن کیے تھے جو آج تک کوئی نہیں جان سکا کیونکہ وہ خود ایک ایسے ذات کا مالک تھا جس نے کبھی کوئی بات ایسی نہیں کی، کبھی گلہ شکایت نہیں کیا۔ وہ سب کچھ برداشت کرتا رہا، اُس وقت تک جب اس کی یہی خاموشی نے ایک طوفان کی طرح خواب خرگوش میں سوئے ہوئے دشمن کو بیدار کیا۔ جس نے اپنے خون اور جسم کے ٹکڑوں سے ایک ایسی کہانی کو جنم دیا جو آنے والی نسلیں پڑھ کر قربانیوں کو یاد کرلیں۔
وہ قربانی کا جیتا جاگتا استعارہ تھا۔ وسیم جو دن کی روشنی میں سرکاری وردی پہن کر بازار میں لوگوں کی نظروں کے سامنے اٹھتا بیٹھتا تھا لیکن رات کے اندھیرے میں وہ صرف اپنی سرحدوں کا سپاہی تھا۔ بظاہر ہر کسی کو وہ عام سا چہرہ دکھائی دیتا تھا لیکن اندر ہی اندر انقلاب کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آگ کو کوئی نہ دیکھ سکا۔ آنکھوں میں آزادی کا خواب لے کر گلیوں بازاروں میں گھومتا تھا۔ ہاتھ میں بندوق تو نہیں تھی مگر وہ زمین زادوں کی کمان سے نکلی ہوئی وہ تیر تھی جو دشمن کی عقل کو چیرتی ہوئی نکلی۔
دن میں دوستوں کی مجلس میں بیٹھ کر چائے پیتا، ہنسی مذاق کرتا اور اندھیری راتوں میں کہانیاں لکھتا، ایک آزاد وطن کی کہانی۔ وطن سے لازوال محبت کی وہ کہانی جو اس کے دل و دماغ پر نقش تھی، وہ کہانی جو آنے والی نسلوں تک زندہ رہے گی۔
وہ محض ایک خون اور گوشت کا ڈھانچہ نہیں تھا، وہ ایک کردار تھا جو تا ابد زندہ ہے۔ وہ اس نسل کا سپہ سالار تھا جو کبھی ہار کر نہیں ٹوٹا۔
وسیم نے اپنی ذات کو ٹکڑوں میں بدل کر ایک ایسے زندہ کردار کا وارث بنا جو ہر مظلوم کے اندر سانس لیتی ہے۔ سرزمین کے ساتھ مہر محبت کا وہ رشتہ جس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنی ذات کو مٹانا پڑا۔
زمین اپنی محافظوں کو اور قوم اپنی فرزندوں کو کبھی نہیں بھولتی۔
شہید کبھی مرتے نہیں، وہ امر ہوتے ہیں۔ ان کا نام تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ان کی قربانیوں کو آنے والی نسلیں یاد رکھتی ہیں۔
وسیم نے اپنی قربانی سے دشمن کو یہی پیغام دیا کہ اگر ہماری سرزمین کو غلام بنانے کا سوچا بھی تو اس سے پہلے تمہیں ایسے ہزار طوفانوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو تمہیں ہر بار شکست ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔