بولان کا ایک جلتا ہوا گواڑخ گلاب پھل یار وڈو – غنی بلوچ

56

بولان کا ایک جلتا ہوا گواڑخ گلاب پھل یار وڈو

تحریر: غنی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آزادی کی اس جنگ میں بہت سے جہدکاروں کے لازوال قصے ہیں کیونکہ بلوچ آزادی کے جہدکاروں نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا، بہت سے دکھ اور تکلیفیں جھیلیں۔ اس طرح ان جہدکاروں کے قطار میں شہید سنگت زاہد علی عرف وشدل تھے۔ میں جانتا ہوں کہ میں جتنی بھی کوشش کروں آپ کے کردار کو بیان کرنا چاہوں، لیکن بیان نہیں کر سکتا کیونکہ آپ نے اس دھرتی کے لیے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ تو سنگت آپ خود ایک کردار بن گئے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے داستان بن گئے۔

آپ ایک بہادر اور خوش مزاج ساتھی تھے۔ میں نے سنگت کے ساتھ بہت سا وقت گزارا، ان لمحوں میں کئی یادیں قید ہیں۔ آج میں ان میں سے کچھ مہر کے قصے سناؤں گا۔

ایک دفعہ ہم ایک گشت پر جا رہے تھے۔ سفر بہت لمبا تھا اور میرے ساتھ کچھ سامان تھا، تو راستے میں ہم بہت تھک گئے۔ تھکنے کے باوجود شہید وڈو نے کہا کہ سنگت یہ سامان مجھے دو، میں اٹھاؤں گا۔ میرے ہزار بار منع کرنے کے باوجود اس نے اٹھایا تو میں نے سوچا کہ کاش مجھ میں بھی یہی فکر اور احساس ہوتا۔ آپ ایک ہمت، حوصلہ اور احساس رکھنے والے ساتھی تھے۔

آپ بلوچ آزادی کی تحریک میں اس وقت شامل ہوئے تھے جس دور کے بعد دشمن کی یلغار اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ پاکستان نے جب دو ہزار سولہ میں توپ، ٹینک، بمب اور بڑے بڑے ہتھیاروں سے بولان میں ایک آپریشن کا آغاز کیا، جس میں سینکڑوں بلوچ مہاجر ہونے پر مجبور ہوگئے۔ اُس وقت شہید وڈو کا بھی گھر تک جلادیا گیا اور علاقے سے بے دخل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اتنے درد و غم سہنے کے باوجود آپ نے اس آزادی کے سفر کا دامن نہ چھوڑا۔

بولان کی ان بلند وادیوں میں جب ہم کچھ دوست سفر کر رہے تھے، اس وقت ہمارے ساتھ سنگت زاہد جان موجود تھے۔ جولائی کے گرم دنوں میں ہم جب کسی گشت پر نکلے تھے اور سفر بھی دور تھا، گرمیوں کے موسم میں پانی کی طلب زیادہ ہوتی ہے۔ اس سفر کے دوران ہم اپنے مشکیزے کے پانی پیتے رہے۔ آدھا سفر کرنے کے بعد پانی ختم ہوگیا، ابھی باقی سفر بھی کرنا تھا۔

کچھ گھنٹے سفر کرنے کے بعد ہمارے آنکھوں کے سامنے ہلکی سی دھندلی طاری ہوئی اور پاوں میں کمزوری اور لرزہ محسوس ہونے لگا۔ پھر بھی چلتے چلتے آخر راستے کے ایک جگہ پر سایہ دیکھ کر بیٹھ گئے۔ کچھ منٹ کے بعد ایک ساتھی نے کہا، “یار سنگت، منی جان ہچ کارا نہ دے گئے ءِ” (یار میرا جسم کچھ بھی کام نہیں دے رہا)۔

اس دوران سنگت زاہد نے میٹھی آواز اور مسکراہٹ کے انداز میں دوست کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، “سنگت اِدا چے کمو دیما یک ہند ءِ ہست ہمودا آ اور ءِ آپ بی” (سنگت یہاں سے دور ایک جگہ ہے جہاں بارش کا پانی جمع ہوتا ہے)۔ میں جا کر وہاں سے پانی کا بندوبست کرتا ہوں، تب تک آپ دوست یہاں تھوڑا آرام کریں۔

یہ بات سنتے ہی ہم اس بات کے لیے منت کرتے رہے کہ ہم میں سے ایک آپ کے ساتھ ضرور آئے گا، لیکن وہ نہ مانے اور آخر کار وہ ہمارے مشکیزے بھی اٹھا کر روانہ ہوگیا۔ گھنٹہ گزرنے کے بعد اچانک میری نظر اس راستے پر پڑی جہاں سے سنگت زاہد پانی کے لیے گیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ سنگت زاہد آہستہ آہستہ اپنے قدم رکھتے ہوئے ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔ اس تپتی ہوئی دھوپ میں اپنی لاغر بدن پسینے سے شرابور اور ہمارے طرف آتے ہوئے لگ رہا تھا کہ بلکل ایک ہم فکر ساتھی یعنی جہدکار دوسری ساتھی کے لیے کیا کیا تکلیفیں خوشی خوشی برداشت کرتے ہیں۔

سنگت، آپ کی اس مادری مہر اور ہمت کو دیکھتے ہوئے بولان کے اس خاموش فضا میں میری دھندلی آنکھیں آپ کے اس مہر کے عکس کو دیکھتی ہیں۔ گھنگھناتے ہوئے پرندے، جھاڑی کے خاک آپ کے اس کردار سے رقص میں ہیں۔ زرغون کے گواڑغ، صنوبر کے درخت اور مہردار کی اس مہر والی ہواؤں میں ہمیشہ آپ کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ آپ کی مسکراہٹ میں وہ کہے ہوئے الفاظ سنائی دیتے ہیں جو دوستوں کو فکری حوالہ تیار کر رہے ہیں۔ بزرگ کے حسین زیبائی آپ کے یہی الفاظ سننے کے لیے بے قرار ہے۔

شہید زاہد اکثر مذاق کرتا تھا۔ جب کسی دوست کو کسی کام کے لیے بولتا تو دوست منہ موڑتا، تو شہید زاہد بولتا، “آپ فکری حوالہ سے تیار نہیں ہوں”۔ میں سنگت زاہد کے ساتھ بہت گشتوں پر گیا ہوں۔ سنگت زاہد کے مہرِ محبت میں ایک شفیق باپ کا مہر محبت دیکھا تھا۔ شہید زاہد کے ساتھ کبھی ماں، بھائی، بہن کی کمی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ سنگت زاہد دوستوں کو ایسے مہر دیتے تھے۔

ندر ءُ من تائی واستہ منی جان زاہد علی
تئو میں چمّانی نور تو میں جانان زاہد علی


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔