بلوچستان میں جس امن کو لانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے پچھلے 80 سالوں میں جتنے فوجی آپریشنز کیے جا چکے ہیں اور جاری ہیں، اس امن کی تشریح اور مطلب بلوچ کے نزدیک بس اتنی ہے کہ اس امن کا (الف) بلوچستان میں انسانی جانوں، زمینی ساحل و وسائل کا استحصال، اس امن کا (م) ہزاروں بلوچ نوجوانوں کے مسخ شدہ لاشوں کی چیخ، اور (ن) بلوچ نسل کشی کی عکاسی کرتا ہے، جو بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ ایک ہی ماہ یعنی مئی میں 25 سے زائد ماورائے آئین قتل اور 130 تک جبری گمشدگی کے کیسز سامنے آئے ہیں۔
یہ ریاستی عسکری قوت سمیت تمام اداروں کی روایت ہے کہ وہ عوامی مزاحمت میں شکست کھانے کے بعد عام عوام کو نشانہ بناتے ہیں۔ اور حسب روایت اپنی روایت دہراتے ہوئے اس بار بھی فوجی آپریشنز اور بھرپور عوامی تحریک سے مات کھانے کے بعد ریاستی فورسز نے بلوچ خواتین اور بچوں کو اپنی وحشیت کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے دشمن کو اپنی تاریخ نہ ہونے کے باعث وہ ہماری تاریخ سے بھی ناواقف ہے۔ اور اسی لیے وہ ہر بار شکست کے بعد اپنا غصہ بلوچ خواتین اور بچوں پر نکالتا ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم اپنے جاہل دشمن کو اپنے بہادر خواتین کی تاریخ سے متعلق ان تمام تر شیرزالوں کے کردار سے واقف کرائیں جنہوں نے سیاسی تاریخ کے ساتھ ساتھ جنگی محازوں اور میدانوں میں دلیری کی مثالیں قائم کی ہیں۔
میر نصیر خان نوری اور خداداد خان کی والدہ گنج جان بی بی انتہائی بہادر، مثالی کردار تھیں۔ وہ گھریلو زمینداروں کے ساتھ ساتھ خانیت کے فیصلہ سازی جیسے قابل خاتون تھیں۔
میر چاکر خان کی بہن بی بی بانڑی جنہوں نے 1556ء میں سوریوں کے خلاف پانی پت کی جنگ میں بلوچ فوجیوں کی کمان کی تھی۔ انہوں نے بلوچ لشکر کو بہادری سے میدان جنگ میں لڑنے کا حکم دیا۔ 1660ء سے 1696ء تک میر احمد اول کی بہن ماہی بیبو باروڑیئوں کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے جان گنواہی۔ بی بی حانی سیمگ جیسی سینکڑوں بلوچ خواتین ہیں جنہوں نے تاریخ میں نام کمایا ہے۔
مزید برآں، 1977 کی جنگ میں جب فوج کو میدان جنگ میں بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو روایت دہراتے ہوئے انہوں نے بلوچ خواتین کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے زبردستی پنجاب لے گئے، مگر جنگ بھر بھی کمزور نہ ہوئی اور بے شک بلوچ خواتین جبر کے سامنے خود کو کمزور بننے نہ دیں۔ 2006 میں جب فوج نے بلوچستان میں فوجی آپریشن میں بستیوں کو جلا کر راکھ کیا، مال مویشی اور انسانوں سمیت، تو بلوچ ماؤں نے خود اپنے بیٹوں کو دعا دیتے ہوئے رخصت کیا کہ وہ دشمن کبھی پیٹھ پر گولی کھا کر گھر نہ لوٹے۔ تب بھی فوج نے بلوچ خواتین کو اپنے جبر کا نشانہ بنایا اور کئی کو لاپتہ کیا جن میں ایک سکول ٹیچر زرینہ مری جو اب تک لاپتہ ہے۔
بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی کے کیسز کوئی نئی بات نہیں۔ ماہ جبین جو ایک طالبہ ہے، پچھلے کئی دنوں سے پاکستانی خفیہ ایجنسیز کے حراست میں ہے۔ بلوچ شناخت ہونے کے باعث وہ آج اس فہرست کا حصہ بنی ہے، جس کا حصہ پہلے رشیدہ، ماہل، گنج خاتون اور کئی بلوچ خواتین رہ چکی ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچستان میں جاری ریاستی جنگ کی سب سے بڑی وکٹم بلوچ عورت رہی ہے۔ اس نے ماں کی صورت میں جوان بیٹے کی جبری گمشدگی کا درد اور مسخ شدہ لاش کا بوجھ اٹھایا ہے۔ اس نے بیوی کی صورت میں نیم بیوگی اور ادھورے ارمان اور خوابوں کو دفنانے کا صدمہ سہہ ہے۔ بہن اور بیٹی کے کردار میں اپنے محافظ اور ساہبان کی تلاش میں میلوں تنہا سفر کیا ہے۔ معاشرے کی چبھنے والی نظریں اور رویہ سہے ہے۔ مگر وہ خاموش نہیں رہی یہاں تک کہ انہوں نے مہربان باپ، ساتھی، جیسے بھائی اور ازدواجی زندگی کی خوشیوں کی مسخ شدہ لاش کے ٹکڑے بھی کندھوں پر اٹھائے ہیں اور اس لاش کے سرہانے اس کی بہادری اور شہادت کے لیے گیت بھی گائے ہیں۔
جس عورت نے گمشدگی جیسے کلیجہ چیر دینے والا درد اور مسخ شدہ لاشوں کو محبت سے بھرپور دل کے کونے میں دفنایا ہو، وہ بندوق یا ٹارچر سیل سے کیسے خوفزدہ ہو سکتی ہے؟
آج ریاست نے پھر سے بلوچستان میں اپنے قتل و غارت کا ننگا ناچ شروع کیا ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ چند دہشتگردی کے جھوٹے مقدمات میں وہ مجھے، ڈاکٹر ماہ رنگ، بیبرگ، شاہ جی اور بیبو یا دیگر سیاسی کارکنان کو قید رکھے گی اور اس کے مظالم کے خلاف یہ تحریک رکے گی؟ ہرگز نہیں۔ ہمیں قید رکھنے کے باوجود اس کے ہاتھ میں بندوق اور تمام تر اختیارات ہونے کے باوجود وہ خوفزدہ ہے۔ اور یہی خوف اس کی شکست کی علامت ہے۔ 12 مارچ جب بندوق کی نوک میرے بھائی کے سر پر رکھ کر خفیہ ایجنسیز کے لوگ مجھے دھمکاتے لے گئے اور لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھانے اور BYC سے دستبردار ہونے کی دھمکی دی۔ پھر 7 اپریل مجھے دوبارہ جبری گرفتار کیا گیا۔ 23 اپریل کو بیبو کو حدہ جیل سے تشدد کرکے کینٹ لے جایا گیا۔ تو یہ تمام تر واقعات ریاستی حواس باختگی کا ثبوت ہیں کہ وہ بلوچ سے کس قدر خوفزدہ ہے۔
آج 20 روز گزر جانے کے بعد بھی مجھے یقین ہے کہ ماہ جبین ثابت قدم ہوگی۔ یقینا وہ اس عنہاسانی جبر کو قریب سے دیکھے گی اور مزید باہمت ہوئی ہوگی اور اپنی قوم سے یہ توقع کرے گی کہ وہ اس کے لیے آواز بلند کریں گے۔ ریاست نے یونس کی کمزوری سمجھ کر ماہ جبین کو جبری گمشدہ اور بلیک میلنگ کا ذریعہ بنانا چاہا مگر تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ عورت نے کبھی جبر کے آگے سر نہیں جھکایا ہے۔
یہاں ہماری ذمہ داری اور فرض ہے کہ ہم ماہ جبین اور دیگر بلوچ خواتین کی قربانیوں کو سرہائیں، ان کی جدوجہد پر ننگ و ناموس کا ٹھپہ نہ لگائیں بلکہ ان کے انقلابی کردار کی قدر کریں۔ جب تک عوامی تحریک سے تفریق ختم نہیں ہوگی، وہ تحریک اور وہ سماج کبھی ترقی نہیں کر پائے گا۔ جہاں عورت کو محض گھر کے کام کاج کے قابل ہی سمجھا اور برتا جائے۔
آئیے اپنی تحریک سے اس تفریق کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں اور (مرد و زن) بلا تفریق ریاستی مظالم کے خلاف یکجا، یک صف ہوجائیں۔ عورت کو اپنے انقلابی راہ اور جدوجہد میں رکاوٹ اور کمزوری سمجھنے کی بجائے اسے اپنے نظریہ اور فلسفہ کی وارث سمجھیں کیونکہ ایک انقلابی مرد کو ایک انقلابی ماں ہی جنم دے سکتی ہے۔ آئیے اپنے جنگی اور مزاحمتی صفوں میں خواتین کی شمولیت کو دل سے تسلیم کریں اور ان کی رہنمائی اور ہمرائی پر فخر کریں۔ اور اس ریاستی جھوٹے بیانیہ کو شکست دیں جو بلوچ عورت کو گھر کی عزت اور ننگ و ناموس کا نام دیتی ہے۔ آئیے یہ ثابت کریں کہ بلوچ عورت گھر کی عزت ہونے کے ساتھ میدان جنگ کی بہادر سپاہی بھی ہے۔ مذہبی، روایتی اور قبائلی تمام تر زنجیروں سے عورت کو آزاد کر کے اسے اپنے جذبات اور صلاحیتوں کے مظاہرے کا موقع دیں۔
آج اگر جو لوگ ماہ جبین کے واقعے کو ننگ و ناموس کا نام دیتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ بلوچ خواتین کی تاریخ پڑھیں۔ ایک ماں جب اپنے بیٹے اور بیٹی کو بہادری کا درس صبح کے گیت سے لیکر رات کی لوری تک سناتی ہے تو وہ ماں کے لیے قربانی کا عمل اور جذبے سے پیچھے رہ سکتی ہے۔ بلوچ عورت قربانی کے فلسفے کو بھی جانتی اور سمجھتی ہے اور خود اپنے دفاع، بقا اور قومی شناخت پر قربان ہونا بھی۔ بلوچ عورت نے کبھی جنگ کی حمایت نہیں کی مگر یہ تاثر بھی سراسر غلط ہے کہ وہ جنگی حالت یا دژمن کے نیزے کے آگے سر جھکائے پر مجبور ہوگی۔
آج بلوچ قومی تحریک کی قیادت بلوچ خواتین کے ہاتھوں میں ہے جنہوں نے مسخ شدہ لاشوں کے بکھرے ٹکڑے سمیٹے ہیں۔ جنہوں نے جبر سہہ کر بھی حق کے نعرے بلند کیے ہیں۔
بحیثیت بلوچ عورت یہ ہمارا ایمان ہے کہ ہم ریاستی جبر کے آگے کبھی کمزور نہیں ہوں گے اور اس قومی تحریک کو اپنے خون کے آخری قطرے اور آخری سانس تک آگے لے جائیں گے۔ یہ تحریک راکھ سے اٹھ کر بھی دشمن سے حساب لے گی اور ہر اس کردار کا پردہ چاک کرے گی جس نے رہبر اور رہزن بن کر بلوچ کے خون سے ہولی کھیلی ہے۔
یہ تحریک بلوچ خواتین کی ہے اور انہیں ریاست اب اپنی بندوق اور بموں سے کمزور نہیں کر پائے گی۔ یہ ٹارچر سیل میں بند رہ کر بھی بندوق بردار کو مات دیں گے۔