بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ دو جون بروز سوموار کو بولان کے علاقے مچھ میں قابض پاکستانی فوج اور بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں کا اس وقت سامنا ہوا جب سرمچار تنظیمی کام کے سلسلے میں سفر کررہے تھے۔ گونی پرا کے مقام پر بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں اور قابض فوج کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوا۔ اس دوران قابض فوج نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کمانڈوز اتارے۔ گھنٹوں تک جاری رہنے والی جھڑپوں میں دشمن کے کم از کم آٹھ اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ بلوچ لبریشن آرمی کے پانچ سرمچار، سنگت وشدل عرف مش مار، سنگت سمیع اللہ عرف سگار، سنگت شیریار عرف چیئرمین، سنگت سجاول عرف چیدہ، اور سنگت نادر عرف چراغ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ شہید سنگت وشدل عرف مش مار ولد لال خان سمالانی کا تعلق بولان کے علاقے سنجاول سے تھا۔ بیس سالہ وشدل 2024 میں بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک ہوئے اور کم عمری میں ہی دشمن کے خلاف ہتھیار اٹھا کر اپنی قومی ذمہ داری نبھانے کا عزم کیا۔ آپ نے بولان کے محاذ پر بے شمار مواقع پر اہم کردار ادا کیا اور بالآخر دشمن کو کاری ضرب لگا کر شہادت کا جام نوش کیا۔
ترجمان نے کہا کہ شہید سنگت سمیع اللہ عرف سمیر ولد محمد اکرم، شہید سنگت شیریار عرف چیئرمین ولد محراب خان شاہوانی، اور شہید سنگت سجاول عرف چیدہ ولد بھاول خان شاہوانی، تینوں مستونگ کے علاقے پڑنگ آباد سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تینوں ساتھی ایک سال قبل بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک ہوئے اور بطور شہری گوریلا کئی کامیاب کاروائیوں میں حصہ لیا۔ دشمن پر کاری ضرب لگانے اور تنظیمی ذمہ داریاں نبھانے میں ہمہ وقت متحرک رہنے والے یہ ساتھی ہر مورچے پر موجود ہوتے، قومی آزادی کیلئے وقف ان کی زندگیاں بلوچ نوجوانوں کیلئے مشعل راہ بن چکی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہید سنگت نادر عرف چراغ ولد مزار خان لہڑی، بنیادی طور پر قلات کے علاقے نرمک سے تعلق رکھتے تھے لیکن کوئٹہ میں رہائش پذیر تھے۔ آپ نے گوریلا کردار میں نہایت منظم، باخبر اور دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر جدوجہد کی۔ تنظیمی کاموں میں ہمہ وقت سرگرداں یہ ساتھی آخری سانس تک اپنی ذمہ داری پر ثابت قدم رہے۔
ترجمان نے کہا کہ چھ جون، جمعہ کی شب مستونگ کے علاقے اسپلنجی، مرو، پھل کے مقام پر قابض پاکستانی فوج نے پیش قدمی کی، جس کے نتیجے میں بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں اور قابض فوج کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں۔ صبح تک جاری رہنے والی ان جھڑپوں میں دشمن کے کم از کم سات اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے، جبکہ ہمارے دو سرمچار، سنگت زعفران عرف خلیل اور سنگت ثناء عرف اینگل نے شہادت پائی۔
انہوں نے کہا کہ شہید سنگت زعفران عرف خلیل ولد اسماعیل سمالانی کا تعلق بولان کے علاقے پیراسماعیل مارواڑ سے تھا۔ آپ 2014 سے قومی آزادی کی جہد سے منسلک ہوئے اور بلوچ لبریشن آرمی کا حصہ بن کر دشمن کے خلاف عملی محاذ پر برسرپیکار رہے۔ ناگاہو کے محاذ پر آپ نے بے شمار معرکوں میں شرکت کی، دشمن کو شکست دی، اور آخرکار وہیں کمانڈر کی حیثیت سے جام شہادت نوش کیا۔ شہید زعفران مسلسل جہد، استقامت، انقلابی نظم و ضبط، اور اخلاص کی علامت تھے جنہوں نے گیارہ سال تک ہر موسم، ہر حال میں دشمن کے خلاف صف آرا رہ کر ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دیئے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ شہید سنگت ثناء عرف اینگل ولد عنایت اللہ ساتکزئی کا تعلق اسپلنجی کے علاقے پھل مرو سے تھا۔ آپ نے ایک سال قبل بلوچ لبریشن آرمی جوائن کی اور کم مدت میں اپنی تندہی، انقلابی نظم، اور جذبے سے ثابت کیا کہ قربانی کا حوصلہ عمر کا محتاج نہیں ہوتا۔ آپ نے ناگاہو کے محاذ پر اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا کیں اور شہادت کے بلند مقام پر فائز ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ آٹھ جون کی شب پنجگور کے علاقے بونستان میں دشمن کے راستے پر نصب کردہ آئی ای ڈی کی ذمہ داری کے دوران ہونے والے دھماکے میں بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچار سنگت وسیم کاشانی عرف چراغ شہید ہوگئے۔ شہید سنگت وسیم ولد حاجی محمد اکبر کاشانی کا تعلق بونستان پنجگور سے تھا۔ آپ نے سوشل ورکس میں ماسٹر کی سند حاصل کی اور ریاستی فورس لیویز میں موجودگی کے باوجود 2021 میں قومی بغاوت کا راستہ چُنا، بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک ہوئے اور پانچ سالوں تک شہری گوریلا کے طور پر سرگرم عمل رہے۔ دشمن کے خلاف خفیہ کردار میں متعدد کاروائیوں میں حصہ لیا اور اپنی شناخت و سرگرمیوں کو راز داری سے نبھاتے رہے۔ آخرکار تنظیمی ذمہ داری کی تکمیل کے دوران جام شہادت نوش کیا۔
انہوں نے کہا کہ اکتیس مئی کو بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچار سنگت دلاور عرف جاسم، قابض پاکستانی فوج کے مقامی ایجنٹوں کے مسلح حملے میں زخمی ہو کر شہید ہوگئے۔ شہید سنگت دلاور ولد حمزہ بلوچ کا تعلق پنجگور کے علاقے لیگورک بازار سے تھا۔ آپ 2011 سے مسلح جہد سے وابستہ تھے اور پندرہ برسوں تک سائیجی، پروم، زامران اور پنجگور کے محاذوں پر ناقابلِ تسخیر حوصلے کے ساتھ دشمن کے خلاف برسرِ پیکار رہے۔ شہید دلاور کا ہر لمحہ قومی آزادی یا مرگِ شہادت کے فلسفے سے جڑا رہا، اور وہ آخری سانس تک اپنے مؤقف پر ثابت قدم رہے۔
ترجمان نے کہا کہ یہ تمام ساتھی خاص ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران دشمن سے نبرد آزما ہوکر شہید ہوئے، مگر انہوں نے دشمن کو کاری ضرب لگا کر، مشن کو مکمل کر کے، شہادت کا مقام حاصل کیا۔ ان کی شہادتیں نہ صرف بلوچ قومی تحریک کے تسلسل کی ضامن ہیں بلکہ قابض دشمن کیلئے ایک واضح پیغام بھی ہیں کہ بی ایل اے کے سرمچار اپنی جان قربان کرسکتے ہیں لیکن شکست خوردہ نہیں ہوسکتے۔ ہماری جدوجہد ان شہیدوں کے نقشِ قدم پر جاری رہے گی۔