بلوچستان میں آزادی اظہار پر پابندیاں: ایک جائزہ
تحریر: جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان، جو قدرتی وسائل سے مالا مال ایک حساس اور تاریخی خطہ ہے اس وقت مکمل طور پر ایک غیر اعلانیہ فوجی قبضے کی زد میں ہے۔ پاکستان کی مرکزی حکومت اور اس کی طاقتور فوج نے نہ صرف یہاں کی جغرافیائی اور سیاسی خود مختاری کو محدود کر دیا ہے بلکہ اظہار رائے کی آزادی پر بھی شدید قدغنیں عائد کر دی ہیں۔ بظاہر جمہوری ڈھانچے کے پیچھے چھپی اس عسکری حاکمیت نے بلوچستان کے ہر ادارے پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے زیر سایہ خفیہ ادارے صوبائی حکومت، بیوروکریسی، عدلیہ، اور ذرائع ابلاغ سمیت ہر شعبے میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ عملی کنٹرول بھی انہی کے پاس ہے۔ انتخابات محض نمائشی عمل بن چکے ہیں جن کا مقصد حقیقی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کے وفادار افراد کو مسلط کرنا ہے۔ مخالف آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے طاقت، خوف، مالی دباؤ اور میڈیا سنسرشپ جیسے حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔
ریاستی بیانیہ اور میڈیا کا کردار
بلوچستان میں روایتی اور جدید ذرائع ابلاغ کا کردار افسوسناک طور پر ریاستی بیانیے کے فروغ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی اکثریت سرکاری اشتہارات اور مراعات کے عوض بلوچستان کی زمینی حقائق کو پس پشت ڈال کر محض ایک پروپیگنڈا مشین بن چکی ہے۔ آزادی صحافت کے دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں صحافت کا کام صرف اتنا رہ گیا ہے کہ وہ فوجی کارروائیوں، بلوچ سیاسی جماعتوں کے خلاف ریاستی الزامات اور حکومتی پالیسیوں کو بلا تنقید عوام کے سامنے پیش کرے۔
ماضی میں بلوچ طلبا تنظیم “بی ایس او آزاد” نے ایسے میڈیا ہاؤسز کے خلاف ایک میڈیا بلیک آؤٹ مہم شروع کی تھی جس کے نتیجے میں کچھ عرصے کے لیے ان کی نشریات پر اثر پڑا۔ تاہم ریاستی دباؤ اور مالی مفادات کے باعث یہ مزاحمت دیرپا نہ ہو سکی۔
پرنٹ میڈیا کی صورتحال
بلوچستان میں شائع ہونے والے چند مقامی اخبارات جیسے “روزنامہ آزادی کوئٹہ” اور “روزنامہ انتخاب حب” کبھی کبھار سیاسی مسائل پر متوازن رپورٹنگ کرتے تھے لیکن گزشتہ ایک سال میں ان کی رہی سہی آزادی بھی سلب کر لی گئی ہے۔ حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کے زیر نگرانی ان اخبارات کو اشتہارات کی بندش کے ذریعے مجبور کیا گیا کہ وہ نہ صرف بلوچ قوم پرست جماعتوں جیسے بی این پی (مینگل)، بی وائی سی، اور ڈاکٹر ماہ رنگ کی خبروں سے اجتناب برتیں بلکہ مکمل طور پر ان کا بلیک آؤٹ کریں۔
کوئٹہ کے ایک سینئر صحافی نے انکشاف کیا کہ روزنامہ انتخاب اور روزنامہ آزادی کو سال 2024 میں بالترتیب 90 لاکھ اور 85 لاکھ روپے کے سرکاری اشتہارات دیے گئے اور ان رقوم کو ایک “ٹول” کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ ادارتی پالیسی کو کنٹرول کیا جا سکے۔ یہ دونوں اخبارات اب بی وائی سی، ڈاکٹر ماہ رنگ حتی کہ بی این پی مینگل اور سردار اختر مینگل کو کوریج نہیں دیتے ہیں اور ان کے بیانات تک نہیں چھاپتے ہیں اس کی تصدیق دونوں اخبارات سے منسلک دو مختلف مقامی صحافیوں نے کی۔ ان اخبارات سے وابستہ ان دونوں مقامی رپورٹرز کا کہنا تھا کہ تقریباً چار مہینوں سے بی وائی سی اور بی این پی مینگل کے بیانات، ان کے پریس ریلیز اور سیاسی سرگرمیوں کے رپورٹنگ کی کوریج روک دی گئی ہے، ان کے بقول ان دونوں اخبارات کے مالکان یا ایڈیٹرز کی طرف سے انہیں اعلانیہ ان جماعتوں کے سرگرمیوں کی رپورٹنگ سے منع تو نہیں کیا گیا ہے لیکن جب ہم ان کے بیانات یا سیاسی سرگرمیوں کی رپورٹ بھیجتے ہیں تو خصوصاً بی وائی سی کو کوئی کوریج نہیں دی جاتی۔
سوشل میڈیا اور ویب چینلز کا کردار
روایتی میڈیا ریاست کے تابع ہو چکا ہے سوشل میڈیا اور ویب چینلز نے ایک نئے میدان کے طور پر جنم لیا ہے۔ لیکن یہاں بھی ریاستی اثرات سے آزادی محض ایک دعویٰ ہے۔ اسلام آباد اور کوئٹہ سے کئی ایسے ویب چینلز لانچ کیے گئے ہیں جو براہ راست فوجی فنڈنگ سے چل رہے ہیں۔ “بُراق” ویب چینل ایک نمایاں مثال ہے جس کا بنیادی ہدف بی وائی سی اور بلوچ سیاسی قیادت کے خلاف منفی پروپیگنڈا پھیلانا ہے۔ وائس آف بلوچستان کے تحت ریاستی پروپیگنڈہ ڈھکی چھپی نہیں رہی اس پلیٹ فارم سے جہاں بہت سارے عوام مثلاً سوشل میڈیا پر بلوچ تحریک کے خلاف منفی پروپیگنڈہ، فیک اکاؤنٹ بناکر ان کی فنڈنگ وہاں ریاست کے امیج بلڈنگ کی خاطر زہ سازی کے لیے نیشنل سیکورٹی ورکشاپ جیسا فوجی پروگرام بھی کیا جاتا ہے، نیشنل سیکورٹی ورکشاپ زیادہ تر کوئٹہ میں بیس دنوں سے ایک مہینہ تک چلتے ہیں ان میں فوجی افسران، سیاسی لیڈران، میڈیا پرسنز آکر شرکا کو لیکچر دیتے ہیں جو الف سے ی تک ریاست کی مثبت امیج بلڈنگ تک محدود ہوتی ہیں۔ نیشنل ورکشاپ کا سب سے بڑا ہدف تعلیم یافتہ نوجوان اور خاص طور پر خواتین ہوتی ہیں۔
براق سمیت ریاستی فنڈ سے چلنے والے میڈیا ہاؤسز اور ان ویب چینلز کے رپورٹرز کو ماہانہ 30 سے 50 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے اور ان کے دفاتر کا کرایہ، بجلی، انٹرنیٹ اور دیگر اخراجات تک ایف سی یا خفیہ ادارے ادا کرتے ہیں۔ یہ نام نہاد صحافی اکثر رپورٹنگ کے بہانے خفیہ ایجنسیوں کے لیے جاسوسی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کئی افراد بطور سادہ کپڑوں میں ایجنٹ سرگرم ہوتے ہیں۔
غیر جانبداری کا فریب
بعض ویب چینلز اور سوشل میڈیا پیجز جو علاقائی سطح پر خاصے سرگرم کیے گئے ہیں خود کو “غیر جانبدار” اور “آزاد” ظاہر کرتے ہیں حقیقت میں ریاستی منصوبے کا حصہ ہیں۔ مقامی صحافیوں کے مطابق ان ویب چینلز کو مالی امداد کے ساتھ ساتھ جدید آلات، کیمرہ اور دیگر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں جو صحافی حقیقی اور غیر جانبدار رپورٹنگ کرنا چاہتے ہیں انہیں سخت دباؤ، دھمکیوں اور بعض اوقات گرفتاریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے علاوہ ہر پریس کلب پر فوجی اور خفیہ اداروں کے ایجنٹ بطور صحافی شامل کیے گئے ہیں ان صحافیوں اور ان کے ویب چینلز و نیوز فیجر کو مالی سپورٹ ہی نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے فالورز بڑھانے کے لیے بھی جتن کیے جاتے ہیں ان فیجز و ویب چینلز سے منسلک ہر صحافی کے پاس ایک ہی پروگرام کی کوریج کے لیے ہمیشہ دو سے تین اور چار کیمرہ یا موبائل فون ہوتے ہیں اور وہ بیک وقت اپنے تمام کیمرہ و موبائل چلاتے ہیں جن میں صرف ایک ان کے اپنے کام کا ہوتا ہے باقی کے مواد وہ ایف سی اور خفیہ اداروں کو دیتے ہیں۔
اظہار رائے کا بحران
بلوچستان اس وقت آزادی اظہار رائے کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔ صحافت کے مقدس پیشے کو ایک جنگی ہتھیار بنا دیا گیا ہے جس کے ذریعے فوجی کارروائیوں کو چھپایا جاتا ہے اور ریاستی پروپیگنڈا کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ایسے وفادار ویب چینلز اور صحافیوں کو بلوچ سیاسی جماعتوں کی خبریں تک شائع کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ میڈیا متوازن ہے جبکہ اصل میں یہ سب کچھ ایک منظم اور منصوبہ بند اسٹریٹجی کا حصہ ہے۔
نتیجہ
بلوچستان میں میڈیا ایک آزاد ادارہ نہیں رہا۔ نہ صرف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بلکہ سوشل میڈیا بھی ریاستی گرفت میں ہے۔ جہاں صحافیوں کو سرکاری مراعات کے ذریعے خریدا جا رہا ہے وہیں غیر جانبدار آوازوں کو مسلسل دبایا جا رہا ہے۔ ایسے میں بلوچستان میں ایک آزاد، شفاف اور ذمہ دار صحافت کا تصور محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔
بلوچ عوام کی آواز، ان کے دکھ، ان کی سیاسی جدوجہد اور ان پر ہونے والے مظالم کو دبانا نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ یہ اس خطے میں مزید بے چینی اور نفرت کو جنم دے گا۔ ایک باشعور، ذمہ دار اور غیر جانبدار میڈیا ہی اس بحران کا واحد حل ہو سکتا ہے بشرطیکہ اسے ریاستی گرفت سے آزاد ہونے دیا جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔