ایف سی کے ہاتھوں بیٹے کا قتل، ریاست سے امید نہیں بلوچ تنظیمیں انصاف فراہم کریں۔ والدہ احسان شاہ

107

مستونگ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رواں مہینے کوئٹہ کے قریب ایف سی کے فائرنگ سے قتل ہونے والے نوجوان احسان شاہ کی والدہ نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں شہید احسان شاہ کی بدنصیب ماں ہوں جس کو اس وقت شہید کیا گیا جب سب لوگ اپنی عید کی تیاریوں اور خوشیوں میں مصروف تھے میرا بیٹا اپنی خوشیوں میں عید کی چیزیں لینے کوئٹہ گیا تھا جس کے ساتھ اس کا ایک دوست شعیب بھی تھا۔

انہوں نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ رواں مہینے 3 جون کو کوئٹہ غنجہ ڈوری کے مقام پر ایف سی نے ان کو روکا اور کھڑا کرنے کے بعد ان پر فائرنگ شروع کردی میرے بیٹے کے گردن میں دو گولیاں ماری گئیں اور اس کے دوست کی آنکھ پر گولی لگی۔

احسان شاہ کے والدہ کے مطابق جب انکا بیٹا گر گیا تو ایف سی والے نے گاڑی سے نکل کر اس کو لات مار کر سیدھا کیا ایک ایف سی اہلکار نے اس کے سینے پر بندوق کی نال سے زور سے مارا اور تلاشی کے بعد گاڑی میں بیٹے اپنے افسر سے کہا کہ ان کے پاس کچھ نہیں۔

والدہ نے بتایا کہ بعد ازاں ایف سی اہلکاروں نے ایمرجنسی والوں کو بلا کر زخمی شعیب کو کوئٹہ منتقل کیا اور اسے دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے کوئی بیان دیا تو اس کا علاج نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں شروع میں بتایا گیا کہ میرے بیٹے کو نامعلوم افراد نے مارا ہے جب میرے شوہر مقدمہ درج کرنے مستونگ تھانہ گئے تو انہیں دھمکایا گیا کہ اگر ایف آئی آر کی تو تمہیں مزید نقصان دیا جائے گا اور نوکری سے بھی فارغ کر دیا جائے گا، میرے شوہر ایف آئی آر پر بضد رہے تو انہیں کہا گیا کہ ڈی سی سے اجازت نامہ لے آئیں، جب وہ ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے تو ڈی سی کا رویہ بھی ویسا ہی تھا انہیں کہا گیا کہ اگر کوئی ایکشن لیا تو انھیں نوکری سے نکال دیا جائے گا۔

قتل ہونے والے نوجوان کے والدہ کے مطابق ہم نے پھر بھی مقدمہ درج کرنا چاہا لیکن ڈی سی اور پولیس انتظامیہ نے انکار کر دیا جس کے بعد احسان کے والد نے پریس کانفرنس کی اور میں نے بھی بیان ریکارڈ کرایا لیکن نہ کوئی ہمارے پاس آیا نہ ہی ہماری شنوائی ہوئی مجبور ہو کر ایک بار پھر یہاں پریس کانفرنس کے لیے آئی ہوں تاکہ میرے بیٹے کو انصاف دیا جائے۔

احسان شاہ کی والدہ نے کہا میں خود تھانہ گئی تھی ایف آئی آر درج کرانے اور کئی دنوں سے عدالتوں کے چکر لگا رہی ہوں لیکن بارہا بہانوں اور دیگر طریقوں سے مجھے ٹال دیا جاتا ہے میں خوشی سے نہیں نکلی میرے معصوم بے گناہ بیٹے کو انصاف دیا جائے اور ہمیں مزید اذیت دینا بند کیا جائے۔

انہوں نے کہا میرے بیٹے کے قاتلوں کو کٹہرے میں لایا جائے اگر اس نے کچھ کیا بھی ہے تو آ کر ہمیں ثبوت دیں سب کو بتائیں ایف سی نے مارا ہے میرا بیٹا معصوم سولہ سالہ بچہ نویں کلاس کا اسٹوڈنٹ تھا اسے کیوں مارا گیا؟ اس کا گناہ کیا تھا؟ قصور کیا تھا؟ مجھے بتایا جائے میں انصاف کی طلبگار مجبور ماں ہوں مجھے انصاف دیا جائے۔

والدہ نے کہا میرے بیٹے کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک بلوچ طالب علم تھا ہمارے محافظین کے نام پر جو قاتل راستوں میں کھڑے ہیں انہوں نے ایسا کیا دیکھا میرے بیٹے میں؟ آ کر مجھے بتائیں، مجھے پتہ ہے حکومت میں بیٹھے افراد بھی انہی اداروں کی کٹھ پتلی ہیں جو بلوچ نسل کشی میں ملوث ہیں اور یہ اب مجھ مجبور ماں پر بھی الزامات لگانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

انہوں نے کہا انشاءاللہ اس دنیا کی عدالت سے بڑی ایک اور عدالت اللہ کی ہے اور وہ خود شہید کا حساب لے گا میری طرح بہت سی بلوچ ماؤں کی گودیں ان ایف سی والوں نے اجاڑی ہیں آج میں یہاں بیٹھی فریاد کر رہی ہوں کل کو ان کی مائیں بھی ایسے ہی فریاد کریں گی۔

انہوں نے مزید کہا مستونگ میں درجنوں مائیں ہیں جن کی گودیں ایف سی نے اجاڑ دی ہیں میں ان سے اپیل کرتی ہوں کہ خوف کے سائے سے نکل کر انصاف کے لیے کھڑی ہوں مجھے بھی دھمکایا گیا کہ آپ کے دیگر بچوں کو نقصان پہنچایا جائے گا لیکن میں آگئی اگر وہ انہیں مارتے ہیں تو شوق سے آ کر ماریں میں ویسے بھی احسان شاہ کے ساتھ مر گئی ہوں، جب ان فرعونوں کو میرے معصوم بیٹے پر ترس نہیں آیا تو ہم پر کیا ترس کریں گے؟

احسان شاہ کے والدہ نے کہا اگر ہمارے خاندان میں مزید کسی کو کچھ ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری ریاستی اداروں پر عائد ہوگی اور ہمیں ڈرانے دھمکانے والے ڈی سی کو جو کرنا ہے کرے شوہر کو نکالنا ہے نوکری سے تو نکالے میں اپنے بیٹے کے لیے انصاف کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔

قتل ہونے والے نوجوان کے والدہ نے پریس کانفرنس میں کہا مجھے اس ریاست سے کوئی امید نہیں مجھے اپنے بلوچ بھائیوں، بہنوں اور جتنی بھی بلوچ تنظیمیں ہیں ان سے امید ہے وہ میری آواز بنیں ہمارا ساتھ دیں میری آواز اوپر پہنچائی جائے ہم ٹوٹ چکے ہیں ہم مر چکے ہیں مجھے انصاف دیا جائے میرے بچے کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گرفتار کیا جائے مجھے عدالتوں سے انصاف کی امید نہیں۔

انہوں نے آخر میں کہا آج میں یہاں بیٹھی ہوں کل مستونگ کے گھر گھر سے مائیں آ کر یہاں بیٹھیں گی یہاں صرف ایک بلوچ بچہ قتل نہیں ہوا بہت سی ایسی مائیں ہیں جو اب تک اپنے گھروں سے نہیں نکلیں میں انہیں بھی بتانا چاہتی ہوں آ جائیں، ہماری آواز بنیں انہوں نے ماہ رنگ کو گرفتار کیا اب میں ماہ رنگ بنی ہوں کل میری یہ بچی ماہ رنگ بنے گی۔

انکا آخر میں کہنا تھا ریاست سے مجھے کوئی امید نہیں، مجھے انصاف دیا جائے میں اپنے تمام بلوچ سیاسی اداروں سے اپیل کرتی ہوں کہ مجھے انصاف دیا جائے میرے بیٹے کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔