ایران کی مسلح افواج کے سربراہ سمیت وہ طاقتور شخصیات جو اسرائیلی حملے میں ہلاک ہوئیں

106

اسرائیل کی جانب سے جمعے کو ایران کے خلاف آپریشن ’رائزنگ لائن‘ کے تحت حملے کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس میں اس کے مطابق ایران کے فوجی اور جوہری اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔

ان حملوں میں ہلاک ہونے والی اعلیٰ فوجی قیادت کے نام جب ایرانی سرکاری میڈیا پر نشر ہونا شروع ہوئے تو اسرائیل کے اس آپریشن کی وسعت کے بارے میں اندازہ ہونا شروع ہوا۔

اس حملے میں نہ صرف ایرانی فوج کے سربراہ جنرل باقری ہلاک ہوئے بلکہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر ان چیف حسین سلامی سمیت متعدد اہم جوہری سائنسدان بھی مارے گئے۔

اگرچہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’ان افراد کے جانشین اور ساتھی فوری طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے‘ لیکن ظاہر ہے کہ ان افراد کے ہلاک ہونے سے بلاشبہ ایران کو دھچکا پہنچے گا۔

ان افراد کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ وہ رہبرِ اعلیٰ کے قریبی حلقے میں شامل تھے۔ ہم نے ان افراد کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

مسلح افواج کے چیف آف سٹاف جنرل محمد باقری

جنرل محمد باقری ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف تھے، یعنی ملک میں سب سے اعلیٰ فوجی افسر۔ ملک کی مسلح فوج جسے ارتش کہا جاتا ہے، ان کے ماتحت تھی اور اس طرح وہ ملک کے پورے سکیورٹی نظام کے ذمہ دار تھے۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ‘محمد باقری نے پاسدارانِ انقلاب میں 1980 میں شمولیت اختیار کی، یعنی انقلابِ ایران کے ایک سال بعد اور اسی سال ایران اور عراق کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ یہ کشیدہ تنازع آٹھ برس چلا اور دونوں اطراف ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور ایران کو بھاری نقصان ہوا۔’

امریکی کی کانگریشنل ریسرچ رپورٹ کے مطابق باقری نے ایران عراق جنگ میں بھی حصہ لیا اور انھوں نے اس تحقیق میں پاسدارانِ انقلاب کے آغاز میں بھرتی ہونے والے افسران میں شمار کیا گیا جس نے انقلاب کے بعد کردوں سے اور ایران عراق جنگ لڑی۔

مسٹر باقری آئی آر جی سی کی انٹیلی جنس اور آپریشنز کے پہلے کمانڈر تھے، اور ان کے مطابق، وہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران آئی آر جی سی کے تمام بڑے آپریشنز میں موجود تھے (سوائے آبادان کا محاصرہ توڑنے کے آپریشن کے)۔

ایران عراق جنگ کے دوران محمد باقری نے ابتدائی طور پر آپریشنل فیلڈ میں اپنا کام شروع کیا اور آہستہ آہستہ انٹیلی جنس کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔

‘باقری سنہ 1983 میں پاسدارانِ انقلاب کے خفیہ آپریشنز کے سربراہ تھے۔ جنگ کے بعد انھیں اٹیلیجنس اور آپریشنز کا نائب سربراہ بھی بنایا گیا تھا۔’

ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق انھوں نے سنہ 1997 کے آپریشن میں عراق میں ‘خصوصی کردار’ ادا کیا۔ سنہ 2016 میں وہ پاسدارانِ انقلاب کے چیف سٹاف بنے۔ ان پر گذشتہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ یہ پابندیاں ایران کے رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای کے ‘قریبی حلقے’ پر لگائی گئی تھیں۔

خیال رہے کہ ان پر یورپی یونین پر روس کو ڈرونز سپلائی کرنے پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں اور ان پر کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے سنہ 2022 میں مہسا امینی کے قتل کے بعد ہونے والے مظاہروں پر کریک ڈاؤن کرنے پر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ان کی ہلاکت کے بعد ایران نے سابق وزیرِ دفاع اور داخلہ احمد واحدی کو ان کا عبوری متبادل لگایا ہے۔

حملوں میں ہلاک ہونے والے سب سے سینیئر ایرانی رہنما حسین سلامی

ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر ان چیف حسین سلامی بھی ان اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ وہ ان حملوں میں ہلاک ہونے والے سب سے سینیئر ایرانی رہنما ہیں۔

سلامی نے سنہ 1980 میں ایران عراق جنگ کے آغاز پر پاسدارانِ انقلاب میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جیسے جیسے انھیں فوج میں ترقی ملی ان کے بارے میں یہ مشہور ہونے لگا کہ وہ ایران کے مخالفین خصوصاً امریکہ اور اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف رکھتے ہیں۔

65 سالہ سلامی نے اسرائیل کو گذشتہ ماہ ایک بیان میں خبردار کیا تھا کہ اگر امریکہ یا اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو تہران ‘جہنم کے دروازے’ کھول دے گا۔

21ویں صدی کے آغاز کے بعد سے انھیں ایران کے جوہری اور عسکری پروگرامز سے منسلک ہونے کے باعث اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل اور امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔

وہ اس وقت ایران کی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ تھے جب سنہ 2024 میں ایران نے اسرائیل پر پہلا فوجی حملہ کیا تھا جس میں 300 ڈرونز اور میزائل داغے گئے تھے۔

جب اسرائیل کے ساتھ حالیہ دنوں میں تناؤ میں اضافہ ہوا تو سلامی نے جمعرات کو کہا کہ ایران ‘کسی بھی قسم کی صورتحال، واقعات اور حالات کے لیے پوری طرح تیار ہے۔’

انھوں نے کہا تھا کہ ‘دشمن سمجھتا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اسی طرح لڑ سکتا ہے جس طرح وہ کسی دفاعی صلاحیت سے محروم فلسطینیوں سے لڑ رہا ہے جو اسرائیلی محاصرے میں ہیں۔ ہم نے جنگیں لڑی ہیں اور ہم تجربہ کار ہیں۔’

سلامی کی جانب سے ایران کی فوجی صلاحیتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا گیا تھا ہمارا ملک ‘عالمی طاقت بننے کے دہانے پر ہے۔’

جب اسرائیل نے سنہ 2019 میں شام میں ایرانی اہداف کو نشانہ بنایا تھا تو سلامی نے ‘سیہونی رجیم کا خاتمہ’ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

جب گذشتہ برس اپریل میں شام میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیل کے حملے میں پاسدارانِ انقلاب کے سات اہلکار ہلاک ہوئے تھے جن میں دو جنرل شامل تھے تو سلامی نے خبردار کیا کہ ‘ہمارے بہادر جوان صیہونی ریجیم کو سزا دیں گے۔’

خاتم الانبیا ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر غلام علی راشد

آئی آر جی سی کے اہم کمانڈروں میں سے ایک میجر جنرل غلام علی راشد نے 17 سال تک مسلح افواج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف کے طور پر خدمات انجام دیں۔ سنہ 2016 میں، آیت اللہ خامنہ ای کے حکم سے، وہ خاتم الانبیا بیس کے کمانڈر بن گئے، جسے ایران کا جنگی اڈہ سمجھا جاتا ہے۔

خاتم الانبیا مرکزی ہیڈ کوارٹر دراصل مسلح افواج کی آپریشنل کوآرڈینیشن کا ذمہ دار ہے۔

راشد نے ایران کی دفاعی فلسفے کو تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ غلام علی راشد کی شہرت پاسداران انقلاب اسلامی کے سینیئر کمانڈروں اور فوجی حکمت عملی کے ماہر افسران میں سے ایک کے طور پر تھی۔ وہ سنہ 1953 میں صوبہ خوزستان کے شہر دزفل میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1979 کے انقلاب کی فتح کے بعد وہ آئی آر جی سی میں شامل ہوئے اور تنظیم کی ابتدائی تنظیم میں اہم کردار ادا کیا۔

آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کے دوران، غلام علی راشد نے بڑی فوجی کارروائیوں کی منصوبہ بندی میں پاسداران انقلاب کے ممتاز کمانڈروں کے ساتھ کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وہ مختلف محاذوں پر فوجی فیصلہ سازی کے چیمبرز کا ایک اہم رکن تھا اور آپریشن فتح المبین، بیت المقدس اور والفجر 8 کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر جانے جاتے تھے۔

راشد میڈیا میں شاذ و نادر ہی دکھائی دیتے تھے لیکن فیصلہ سازی اور حکمت عملی کے لحاظ سے ایران کے دفاعی ڈھانچے کو ڈیزائن کرنے میں انھیں ہمیشہ سب سے زیادہ بااثر لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔

حالیہ برسوں میں انھوں نے اپنے بیانات میں مسلح افواج کو غیر ملکی خطرات بالخصوص امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

پاسدران انقلاب کی ایرو سپیس فورس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق پاسدران انقلاب کی ایرو سپیس فورس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ بھی اسرائیلی حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔

سرکاری میڈیا کے مطابق وہ آج صبح اسرائیلی حملوں میں زخمی ہوئے تھے تاہم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ دم توڑ گئے ہیں۔

اسرائیلی میڈیا کا دعوی ہے کہ ایرو سپیس فورس کے کمانڈرز اسرائیل پر حملے کی تیاری کے لیے ایک زیر زمین ہیڈکوارٹر میں جمع ہو رہے تھے، جب اسرائیلی فوج نے اس ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا۔

امیر علی حاجی زادہ سنہ 1962 میں تہران میں پیدا ہوئے اور 1980 میں پاسدران انقلاب میں شامل ہوئے۔ انھیں سنہ 2006 میں ایرو سپیس فورس کا کمانڈر تعینات کیا گیا تھا۔

جنوری 2020 میں تہران کے قریب یوکرین کا ایک جہاز پاسدران انقلاب کے میزائل سے تباہ ہو گیا تھا اور اس میں سوار تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

حاجی زادہ نے اس واقعے کو حادثہ قرار دیا تھا تاہم اس کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ وہ ایرانی حکام کی طرف سے مقرر کردہ کسی بھی سزا کو قبول کریں گے۔

نمایاں ایرانی جوہری سائنسدان جنھیں نشانہ بنایا گیا

ایرانی جوہری سائنسدانوں کو بھی اسرائیل کی جانب سے اپنے حملوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایران میں ان جوہری سائنسدانوں کے حوالے سے عوامی سطح پر بہت کم معلومات موجود ہیں۔

فریدون عباسی

ایران کے اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سابق سربرہ فریدون عباسی جمعے کے روز اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہوئے۔ وہ ایران کی جوہری ڈیولپمنٹ میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران انتہائی اہم کردار سمجھے جاتے تھے۔

ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق وہ سنہ 2010 میں ایک قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے تھے ان پر اقوامِ متحدہ کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں خفیہ تحقیق کرنے کا الزام عائد کر کے پابندیاں لگائی گئی تھیں۔

فریدون ایران کے جوہری پروگرام کا دفاع کرتے تھے اور اسے ملکی سالمیت کے لیے اہم قرار دیتے تھے۔

انھیں صدر محمود احمدی نژاد کے دور میں نائب صدر تعینات کیا گیا تھا اور بعد میں سنہ 2019 میں وہ رکنِ پارلیمان بھی بنے۔

محمد مہدی تہرانچی

محمد مہدی تہرانچی ایک فزسسٹ تھے اور اسلامک آزاد یونیورسٹی کے صدر بھی۔ انھوں نے ایران کی جوہری تحقیق میں کردار ادا کیا تھا اور وہ ملک میں سائنسی تعلیم کو فروغ دینے میں بھی پیش پیش تھے جو ملک کے سٹریٹیجک ٹیکنالوجیکل اہداف کے عین مطابق تھا۔

ڈاکٹر عبدالحمید منوشیہر

ایران کے مشرق نیوز کے مطابق ڈاکٹر عبدالحمید منوشیہر شاہد بہشتی یونیورسٹی میں پروفیسر اور نیوکلیئر انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ تھے۔ ان کے احمد رضا زوالفقاری بھی اسی یونیورسٹی کے نیوکلیئر انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ میں پروفیسر تھے۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ان کے علاوہ امیر حسین فقہی جو شاہد بہشتی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور مطالبی زادے بھی ہلاک ہونے والے جوہری سائنسدانوں میں شامل تھے۔

’اسرائیل نے ایران کی سینیئر قیادت کو بے مثال نقصان پہنچایا‘

تجزیہ کار برائے مشرق وسطیٰ سیبسچیئن اشر کے مطابق اسرائیل کا ایران پر حالیہ حملہ نہ صرف گزشتہ برس کی دو سابقہ ​​فوجی کارروائیوں کے مقابلے میں زیادہ بڑا اور شدید رہا بلکہ اسرائیل نے کچھ ایسی حکمت عملی بھی اختیار کی جو گذشتہ برس نومبر میں لبنان میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی کارروائی میں استعمال کی گئی تھی۔

یہ حکمت عملی صرف ایران کے میزائل اڈوں کو نشانہ بنانے کی نہیں بلکہ ایرانی قیادت کے اہم ارکان کو نشانہ بنانے سے متعلق ہے۔

حزب اللہ کی سینیئر شخصیات کی ہلاکت کے اس گروپ کی جوابی کارروائی کی صلاحیت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔

تہران سے موصول ہونے والی فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مخصوص عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا اور یہ مناظر بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں پر اسرائیلی حملوں سے مماثلت رکھتے ہیں، جن میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کی ہلاکت ہوئی تھی۔

تاہم ایران میں حسن نصر اللہ جیسی کوئی بڑی شخصیت نہیں ماری گئی۔

سپریم لیڈر خامنہ ای کو نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر ان چیف، مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری سمیت ملک کے سینیئر سائنسدانوں کو ایک ایسے آپریشن کے پہلے چند گھنٹوں میں ہی ہلاک کر دیا گیا، جس کے بارے میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا ہے کہ یہ کئی دن تک جاری رہے گا۔

ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی حملے کے جواب میں ایران کی طرف سے اس سے زیادہ سخت ردعمل کی ضرورت ہو گی جتنا ہم نے گذشتہ برس دیکھا تھا، جب ایران نے اسرائیل کی جانب بیلیسٹک میزائل داغے تھے مگر ایسے سخت ردعمل کے جواب میں ایران کو بھی شدید جواب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔