ایران بمقابلہ اسرائیل – مذہبی جنگ ہے یا اربوں ڈالر کا میدانِ جنگ؟
تحریر: مزار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میڈیا ہمیں صرف راکٹوں کی گھن گرج دکھاتا ہے، ٹی وی اسکرین پر بارود کی آگ اور دھوئیں کے بادل نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت تو کہیں اور چھپی ہوئی ہے۔ وہ تیل کے کنوؤں میں، بینکوں کے خفیہ خزانوں میں، اور طاقتوروں کے بند کمروں میں ہونے والے سودوں میں دفن ہے۔ یہ جنگیں، یہ شور، یہ سب مذہب کے نام پر نہیں، یہ سب طاقت کی ہوس، منافع کی تقسیم، اور دنیا پر قبضے کی کہانی ہے۔ ہمیں جو دکھایا جاتا ہے، وہ محض ایک اسکرپٹ ہے ایک ایسا کھیل جس کے اصل کردار پس پردہ ہیں، جن کے ہاتھ میں میڈیا کی ڈور ہے، اور جن کی نگاہیں صرف اپنے مفاد پر جمی ہوئی ہیں۔
یہ کھیل صرف میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ عالمی سیاست کے ایوانوں میں، کارپوریٹ بورڈ رومز میں، اور مالیاتی اداروں کے پیچیدہ نظام میں کھیلا جاتا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا۔ کون اصل کھلاڑی ہے؟ کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے؟ اور کس کی قیمت پر یہ سب ہو رہا ہے؟
دنیا کی نظریں ہمیشہ ایران پر کیوں جمی رہتی ہیں؟
یہ سوال محض ایک سیاسی بحث نہیں، بلکہ عالمی طاقتوں کے مفادات کی ایک گہری داستان ہے۔ ایران وہ ملک ہے جس کے پاس دنیا کے چوتھے سب سے بڑے تیل کے ذخائر ہیں، جن کی مقدار 208 ارب بیرل سے بھی زیادہ ہے۔ حال ہی میں ایران میں ایسے نئے تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں جن سے اس کی معاشی طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یہ تیل نہ صرف ایران کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، بلکہ عالمی منڈی میں اس کی اہمیت کو بھی دوچند کر دیتا ہے۔ ایران کی فوجی طاقت بھی کم نہیں، خطے میں اس کی فوج ایک مضبوط اور تجربہ کار فورس سمجھی جاتی ہے، جس نے کئی مواقع پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اس کی فوجی حکمت عملی اور میزائل پروگرام مغربی طاقتوں کے لیے ہمیشہ تشویش کا باعث رہے ہیں، لیکن اصل خوف ایران کی عسکری طاقت نہیں، بلکہ اس کی خود مختاری اور آزادی ہے۔ ایران نے عالمی بینکاری نظام سے خود کو بڑی حد تک آزاد رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ مغرب کو اس کی خود مختار مالیاتی پالیسی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ایران عالمی طاقتوں کے دباؤ کے باوجود اپنے فیصلے خود کرتا ہے، اپنی معیشت اور سیاست کے لیے وہ راستہ چنتا ہے جو اس کے قومی مفاد میں ہو، نہ کہ مغربی بینکوں یا اداروں کی ہدایات پر۔ ایران کے چین، روس اور دیگر ممالک کے ساتھ اسٹریٹیجک اتحاد اسے عالمی سیاست میں ایک منفرد مقام دیتے ہیں۔ یہ اتحاد نہ صرف ایران کی طاقت کو بڑھاتے ہیں، بلکہ مغربی بلاک کے لیے ایک چیلنج بھی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران کے خلاف پابندیاں، اس کے تیل کی برآمدات پر قدغن، اور اس کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ سب اسی خوف کا اظہار ہیں کہ کہیں ایک خود مختار، طاقتور اور آزاد ملک عالمی طاقتوں کے بنائے گئے نظام کو چیلنج نہ کر دے۔
یہاں اصل خطرہ میزائل نہیں، بلکہ خود مختاری ہے. ایک ایسی خود مختاری جو مغرب کے لیے سب سے بڑی خطرے کی گھنٹی ہے۔ دنیا ایران کو اس لیے دیکھ رہی ہے کہ وہ اپنی آزادی، وسائل اور فیصلوں پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ یہی ایران کی اصل طاقت اور اس پر عالمی نظر بندی کی اصل وجہ ہے۔
اسرائیل: مشرق میں امریکہ کی نگہبانی
اسرائیل محض ایک ملک نہیں، بلکہ مغربی مفادات کا مضبوط قلعہ ہے۔ یہ ریاست امریکی ڈالرز کی طاقت سے پروان چڑھی، جدید ترین امریکی ہتھیاروں سے لیس ہے، اور اقوام متحدہ کی خاموشی اس کی ڈھال بنی ہوئی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات محض سفارتی نہیں، بلکہ فوجی، معاشی اور اسٹریٹیجک سطح پر انتہائی مضبوط ہیں۔ ہر سال امریکہ اسرائیل کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے، جدید اسلحہ، مشترکہ فوجی مشقیں، اور دفاعی ٹیکنالوجی کی ترقی میں بھی دونوں ممالک کا اشتراک ہے۔
اسرائیل کو غیر نیٹو اہم اتحادی کا درجہ حاصل ہے، جس سے اسے امریکی دفاعی نظام تک خصوصی رسائی ملتی ہے۔ امریکی فوجی اڈے اسرائیلی سرزمین پر موجود ہیں، اور دونوں ممالک کی مشترکہ پالیسیاں خطے میں مغربی اثرورسوخ کو مضبوط کرتی ہیں۔ اسرائیل اکثر خود کو مظلوم ظاہر کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثر اوقات پہل بھی وہی کرتا ہے، اور مغربی حمایت کے بل بوتے پر اپنے مخالفین پر دباؤ بڑھاتا ہے۔ یہ تعلق صرف ہتھیاروں یا پیسے تک محدود نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے تحفظ اور خطے میں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اسرائیل کی موجودگی اور طاقت امریکہ کے لیے ایک واچ ڈاگ کی مانند ہے جو نہ صرف مغربی مفادات کی نگرانی کرتا ہے، بلکہ ضرورت پڑنے پر پہلا وار بھی کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو ہمیشہ ایک خاص مقام حاصل رہا ہے، اور اس کی ہر حرکت کو امریکی حمایت اور عالمی خاموشی کا تحفظ حاصل ہے۔
ایران کا جرم کیا ہے؟
صرف اتنا کہ اس نے عالمی نظام کو “نہیں” کہا۔ ایران نے وہ راستہ چنا جس پر چلنا طاقتوروں کو گوارا نہیں۔ اس نے روایتی مغربی بینکاری نظام، خاص طور پر روٹشائلڈ خاندان کے زیر اثر عالمی مالیاتی اداروں کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ آج بھی ایران ان چند ممالک میں شامل ہے جن کا مرکزی بینک آزادانہ طور پر اپنے ملک کے مفاد میں کام کرتا ہے، اور مغربی قرضوں یا سودی نظام کے جال سے باہر ہے۔ ایران نے نہ صرف مغربی طاقتوں کے حمایت یافتہ کٹھ پتلی حکمرانوں کو رد کیا، بلکہ فلسطین، شام اور دیگر آزادی پسند تحریکوں کی کھل کر حمایت کی۔ یہی حمایت مغرب کے لیے ناقابلِ برداشت ہے، کیونکہ ایران خطے میں اُن قوتوں کا ساتھ دیتا ہے جو عالمی طاقتوں کے مفادات کو چیلنج کرتی ہیں۔ ایران نے اپنے دفاع کے لیے جوہری صلاحیت کو انشورنس کے طور پر پروان چڑھایا، نہ کہ جارحیت کے لیے۔ اس کا مقصد صرف اپنی خودمختاری کا تحفظ ہے، تاکہ کوئی طاقت اسے دباؤ میں لا کر اس کی آزادی سلب نہ کر سکے۔ اصل میں، ایران جنگ نہیں چاہتا وہ آزادی چاہتا ہے۔ اور یہی آزادی، یہ خود مختاری، عالمی طاقتوں کے بنائے گئے نظام میں ناقابلِ معافی جرم ہے۔ اس لیے ایران پر پابندیاں، اس کے خلاف پروپیگنڈا، اور اس کی آزادی کو دبانے کی کوششیں صرف اسی جرم کی سزا ہیں کہ اس نے عالمی نظام کے آگے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔
پراکسی جنگ یعنی منافع
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی صرف جنگ نہیں، بلکہ منافع کا کھیل ہے۔ ہر میزائل حملہ، ہر نئی جھڑپ، اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کے سودے کو جنم دیتا ہے. تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور رسد میں رکاوٹیں، عالمی منڈیوں میں ہلچل مچاتی ہیں، جس سے کچھ ممالک اور کارپوریشنز کو زبردست مالی فائدہ ہوتا ہے. نگرانی اور سیکیورٹی ٹیکنالوجی کی مانگ بڑھتی ہے، جس سے اس شعبے کی کمپنیاں مزید منافع کماتی ہیں. عالمی سطح پر خوف اور غیر یقینی کی فضا، حکومتوں اور عوام کو نئے دفاعی معاہدوں، پابندیوں اور نگرانی کے نظام قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے. ہر میزائل، لاکھوں ڈالر کی لاگت کے ساتھ ساتھ، کسی نہ کسی کمپنی یا ملک کے لیے منافع کا سبب بنتا ہے. ہر تنازع، ایک اور معاہدے، ایک اور سودے، اور ایک اور فائدہ اٹھانے والے کے لیے موقع بن جاتا ہے. اصل کھیل طاقت اور منافع کا ہے اور پراکسی وارز اس کھیل کا سب سے بڑا ہتھیار۔
اصل ایٹمی خوف
یہ ڈر نہیں کہ ایران ایٹم بم استعمال کرے گا، بلکہ اصل خوف یہ ہے کہ ایران کو وہ طاقت اور اثر و رسوخ مل جائے گا جس سے وہ عالمی طاقتوں کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے سے انکار کر سکے۔ ایران کا ایٹمی پروگرام دراصل ایک پاور انشورنس ہے یعنی اپنی سلامتی اور خودمختاری کی ضمانت۔ یہ قیامت کی تیاری نہیں، بلکہ اپنی بقا کے لیے ایک مضبوط ڈھال ہے۔ اگر ایران ایٹمی طاقت بن جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ: اب اسے عراق کی طرح آسانی سے نشانہ نہیں بنایا جا سکتا، نہ ہی لیبیا کی طرح اسے دھونس اور دھمکیوں سے زیر کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی دیگر کمزور ممالک کی طرح اسے عالمی طاقتوں کے اشاروں پر چلنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام سے مغرب کو اصل خوف یہ ہے کہ ایران خطے میں اپنی خودمختاری اور اثر و رسوخ کو مزید مضبوط کر لے گا۔
ایٹمی طاقت بننے کے بعد ایران نہ صرف اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا لے گا بلکہ اس کی سفارتی اور سیاسی حیثیت بھی بلند ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک اور ان کے اتحادی ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ پابندیاں، مذاکرات، دباؤ، اور حتیٰ کہ فوجی دھمکیاں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک ایٹمی ایران کو نہ تو آسانی سے کمزور کیا جا سکتا ہے، نہ ہی اس پر اپنی مرضی مسلط کی جا سکتی ہے۔ ایران کے لیے ایٹمی صلاحیت ایک حفاظتی حصار ہے، ایک ایسا پیغام کہ اب وہ عراق یا لیبیا نہیں بنے گا، اب اس کی آزادی اور خودمختاری کسی سودے بازی یا دباؤ کی نذر نہیں ہوگی۔ یہی اصل ایٹمی خوف ہے کہ کہیں ایک آزاد، خودمختار اور طاقتور ایران عالمی طاقتوں کے بنائے گئے نظام کو چیلنج نہ کر دے۔ یہ ایٹمی ہتھیار قیامت کا ایندھن نہیں، بلکہ طاقت کا توازن برقرار رکھنے کا ذریعہ ہیں تاکہ ایران اپنی سرزمین، اپنی قوم اور اپنے مستقبل کا خود محافظ بن سکے۔
اسرائیل کا اصل خوف: اجارہ داری کا خاتمہ
اگر ایران ابھرتا ہے، تو اسرائیل کو کئی سطحوں پر اپنی برتری کھونے کا خطرہ لاحق ہے:
علاقائی غلبہ:
اسرائیل برسوں سے مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی اور سیاسی برتری برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایران کی طاقت میں اضافہ اس توازن کو چیلنج کرتا ہے، اور اسرائیل کے لیے یہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔
امریکی امداد کا جواز:
اسرائیل ہر سال اپنی نام نہاد سلامتی کے نام پر امریکہ سے اربوں ڈالر کی امداد حاصل کرتا ہے۔ یہ امداد صرف اسرائیل کو طاقتور بنانے کے لیے نہیں دی جاتی بلکہ اس کا اصل مقصد خطے میں ایران اور دیگر ممالک کو ایٹمی قوت بننے سے روکنا ہے۔ اگر ایران کسی مرحلے پر عسکری یا ایٹمی لحاظ سے طاقتور ہو گیا تو اسرائیل کے لیے اس مسلسل امداد کا جواز کمزور پڑ جائے گا، کیونکہ جس ‘خطرے’ کا شور مچا کر امداد لی جاتی ہے، وہ حقیقت میں بے اثر ثابت ہونے لگے گا۔ ایسی صورت میں امریکہ کے لیے بھی یہ امداد جاری رکھنا مشکل ہو سکتا ہے، اور وہ اسے پالیسی کی ناکامی قرار دے کر بند کرنے یا کم کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔
مغربی بیانیے پر کنٹرول:
اسرائیل نے مغربی میڈیا اور سفارت کاری میں طویل عرصے سے اپنی گرفت مضبوط رکھی ہے، جہاں وہ خود کو ایک مظلوم، جمہوری اتحادی کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ مگر ایران کی ابھرتی ہوئی طاقت اس بیانیے کو چیلنج کر رہی ہے۔ ایران کی مزاحمتی پالیسی اور خودمختاری مغرب میں وہ سوالات پیدا کر رہی ہے جو اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کا دروازہ کھول سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور متبادل ذرائع کی بدولت اب یکطرفہ اسرائیلی بیانیے کو دبانا ممکن نہیں رہا۔ یہ صرف طاقت کا مقابلہ نہیں، بلکہ بیانیے اور سچ کی جنگ بھی ہے۔
اسی لیے خطے میں امن کو کبھی دیرپا رہنے نہیں دیا جاتا۔ جیسے ہی طاقت کا توازن بدلنے لگتا ہے، کشیدگی کو ہوا دی جاتی ہے، تاکہ اسرائیل کی اجارہ داری اور مغربی مفادات محفوظ رہیں۔ یہی اصل وجہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے اتحادی ہمیشہ ایران کو کمزور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ طاقت کا توازن بدلنا، اسرائیل کے لیے سب سے بڑا خوف ہے۔
میڈیا کا کردار: رائے سازی اور حقیقت کا پردہ
اخبارات اور ٹی وی چینلز کی سرخیاں چیخ چیخ کر کہتی ہیں: ایران خطرہ ہے اور اسرائیل محافظ ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس جنگ سے اصل فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے؟ دونوں جانب فنڈنگ کون کر رہا ہے؟ اور یہ اسکرپٹ لکھتا کون ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ عالمی میڈیا اکثر انہی طاقتور ہاتھوں میں ہے جو جنگوں سے منافع کماتے ہیں، جو ہتھیار بیچتے ہیں، جو تیل کی قیمتوں سے کھیلتے ہیں، اور جو سیاست دانوں کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔
یہ وہی اشرافیہ ہیں جن کے مفاد میں جنگیں جاری رہتی ہیں، جن کی فیکٹریوں میں اسلحہ بنتا ہے، جن کے بینکوں میں جنگی فنڈز آتے ہیں، اور جن کے میڈیا ہاؤسز عوام کی رائے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ میڈیا کا اصل کردار صرف خبر دینا نہیں، بلکہ ایک خاص بیانیہ بنانا ہے۔ ایسا بیانیہ جو عوام کو ایران کو ہمیشہ خطرہ اور اسرائیل کو ہمیشہ محافظ سمجھنے پر مجبور کرے۔ اصل اسکرپٹ وہی لکھتے ہیں جن کے ہاتھ میں طاقت، دولت اور میڈیا کی ڈور ہے۔ یہی لوگ جنگ کی آگ کو بھڑکاتے ہیں، اور پھر اسی آگ سے اپنا مفاد سمیٹتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ صرف ایک رخ دکھایا جاتا ہے، اور اصل حقیقت پردوں کے پیچھے چھپا دی جاتی ہے۔ میڈیا کی یہ جادوگری عوام کو حقیقت سے دور، اور طاقتوروں کو قریب رکھتی ہے۔
یہ صرف ایران اور اسرائیل کا کھیل نہیں، بلکہ عالمی شطرنج کی وہ بازی ہے جس میں:
برکس بمقابلہ نیٹو
برکس (روس، چین، بھارت، ایران، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا، مصر) ایک نئے عالمی نظام کی بنیاد رکھ رہا ہے: سونے پر مبنی کرنسی، امریکی ڈالر سے آزادی، اور مشترکہ فوجی اتحاد۔ نیٹو اس نئے اٹھان کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے، کیونکہ یہ اس کی صدیوں کی اجارہ داری کو چیلنج کرتا ہے۔
خودمختاری بمقابلہ اطاعت
ایران جیسے ممالک اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں: اپنے تیل پر کنٹرول، اپنی خارجہ پالیسی، اپنے جوہری پروگرام کا حق۔ مغربی طاقتیں انہیں باغی قرار دے کر اپنے نظامِ اطاعت میں واپس لانا چاہتی ہیں۔
مشرقی بینکاری بمقابلہ مغربی مالیاتی سلطنت
ایران، روس، چین نے SWIFT کے متبادل نظام بنائے، روٹشائلڈ بینکوں کے جال سے نکلنے کی کوشش کی۔ یہ اقدام مغربی مالیاتی سلطنت کے لیے موت کے برابر ہے، کیونکہ یہ ان کی سب سے بڑی طاقت ڈالر کی بالادستی کو کمزور کرتا ہے۔
حقیقت بمقابلہ پراپیگنڈا
مغربی میڈیا ایران دہشت گرد کا بیانیہ دہراتا ہے، مگر یہ نہیں بتاتا کہ ایران نے عراق میں داعش کے خلاف لڑائی میں امریکہ کا ساتھ دیا، ایران خطے میں واحد ملک ہے جس نے اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز اٹھائی۔
پراپیگنڈے کا مقصد:
عوام کی توجہ تیل، بینکاری اور ہتھیاروں کے سودے سے ہٹانا۔ اصل کھیل کا میدان مشرق کا محاذ تیل کی آزادی، خود کفالتی اور جوہری ٹیکنالوجی اور مغرب کا دفاع ڈالر کی بالادستی، پابندیاں اور سائبر وار۔
ایران اس شطرنج میں وہ مہرہ ہے جو اپنی آزادی کا دفاع کر رہا ہے، جبکہ اسرائیل وہ شہہ ہے جو غلامی کے نظام کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ کھیل امن کا نہیں، بلکہ طاقت کے توازن کا ہے اور جب تک ایک طرف آزادی کی چاہت ہے، اور دوسری طرف غلامی کا نظام، تب تک یہ جنگ چلتی رہے گی۔
آخری سچ
تو پھر اصل وِلن کون ہے؟
دنیا چاہتی ہے کہ آپ کسی ایک طرف کھڑے ہو جائیں ایران یا اسرائیل کی حمایت کریں، مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور گہری ہے۔ اصل میں: دونوں ممالک اس عالمی شطرنج کے پیادے ہیں، جنگ کا اسکرپٹ پہلے سے لکھا جا چکا ہے، اور منافع پہلے سے طے شدہ ہاتھوں میں جانا ہے۔ یہ کھیل نہ مذہب کا ہے، نہ عقیدے کا بلکہ طاقتوروں کے مالی مفادات، خوف کی سیاست، اور مستقبل کے عالمی نظام پر قبضے کا ہے۔ آپ کو جو دکھایا جاتا ہے، وہ اصل حقیقت نہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ جنگیں صرف پیادوں کے لیے ہیں، جبکہ اصل وِلن وہ ہیں جو ان جنگوں سے دولت اور طاقت سمیٹتے ہیں۔
سمجھ لیجیے:
یہ سب کچھ ایمان یا دشمنی کا کھیل نہیں، بلکہ بینکوں، اسلحہ سازوں، اور عالمی طاقتوں کی اگلی نسل کے کنٹرول کا منصوبہ ہے۔ اصل ولن وہ نظام ہے جو انسانیت کو تقسیم اور خوف میں مبتلا کر کے اپنی اجارہ داری ہمیشہ کے لیے قائم رکھنا چاہتا ہے۔
مغرب مخالف ممالک قطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے کیوں ایران کو ایٹمی طاقت نہیں بناتے؟
روس، چین اور شمالی کوریا جیسے مغرب مخالف ممالک ایران کو ایٹمی ہتھیار براہِ راست فراہم کیوں نہیں کرتے؟ اس کی کئی اہم وجوہات ہیں:
عالمی قوانین اور سفارتی خطرات:
روس اور چین اقوام متحدہ کے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کے پابند ہیں۔ اگر یہ ممالک ایران کو ایٹمی ہتھیار دیتے ہیں تو نہ صرف ان پر عالمی پابندیاں لگ سکتی ہیں بلکہ ان کی عالمی ساکھ اور سفارتی مفادات کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔
تعاون کی نوعیت:
چین اور روس ایران کے ایٹمی پروگرام میں تکنیکی اور سفارتی مدد تو فراہم کرتے ہیں، لیکن یہ مدد زیادہ تر پرامن جوہری توانائی اور سفارتی حمایت تک محدود ہے۔ وہ کھلے عام ایران کو ایٹمی ہتھیار دینے سے گریز کرتے ہیں تاکہ براہِ راست تصادم یا عالمی ردعمل سے بچا جا سکے۔
خطے میں استحکام:
روس اور چین خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ایران ایٹمی طاقت بن جاتا ہے تو مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی دوڑ اور عدم استحکام بڑھ سکتا ہے، جو ان کے طویل مدتی مفادات کے خلاف ہے۔
بالواسطہ تعاون:
شمالی کوریا اور ایران کے درمیان میزائل اور یورینیم افزودگی میں غیر سرکاری سطح پر کچھ تعاون کی اطلاعات ہیں، لیکن براہ راست ایٹمی ہتھیاروں کی منتقلی کے شواہد واضح نہیں۔ یہ تعاون بھی خفیہ اور محدود نوعیت کا ہے۔
اپنے مفادات کا تحفظ:
روس، چین اور شمالی کوریا اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہیں۔ وہ ایران کی مدد ضرور کرتے ہیں، لیکن اتنی حد تک کہ وہ خود براہ راست عالمی محاذ آرائی کا شکار نہ بنیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔