انصاف میں تاخیر ایک ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا – ڈاکٹر صبیحہ کا والد کے جبری گمشدگی پر بیان

80

انصاف میں تاخیر ایک ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا  اور خاموشی ایک جرم ہے۔ ڈاکٹر صبیحہ کا والد کے جبری گمشدگی کو 2 ماہ مکمل ہونے پر بیان

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء اور معروف سیاسی کارکن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے اپنے والد میر بشیر احمد کی جبری گمشدگی کے دو ماہ مکمل ہونے پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا میرے والد کو پاکستانی فورسز نے دو ماہ قبل لاپتہ کیا اور تاحال ان کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا میرے والد ایک معزز، نرم دل اور مظلوموں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہنے والے انسان ہیں، اگرچہ بطور والد وہ میرے انسانی حقوق کے کام سے فطری طور پر فکر مند رہتے تھے، لیکن خود وہ ہمیشہ انصاف اور حق کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑے رہے۔

انہوں نے کہا میں خود اپنی محنت سے آگے بڑھی تعلیم اور ذاتی مشکلات کے ساتھ ساتھ میں نے ہمیشہ ان کے لیے آواز بلند کی جنہیں خاموش کر دیا گیا ہے تعلیم زندگی اور عزت کے حق کے لیے، میں نے ہمیشہ پرامن طریقے اختیار کیے اور قانون و اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر کام کیا۔ 

انکا کہنا تھا بطور ڈاکٹر میں جانتی ہوں کہ جسمانی زخم دوا سے بھر سکتے ہیں لیکن روح کے زخم صرف انصاف، سچ اور قبولیت سے ہی بھر سکتے ہیں۔”

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے ریاست کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا آج ریاست اور اسکے فورسز ادارے شہریوں کو تحفظ دینے کے بجائے انہیں خاموش کر رہے ہیں میرے والد کی جبری گمشدگی نہ صرف ہمارے خاندان کے لیے ایک سانحہ ہے بلکہ یہ میرے اور مجھ جیسے ہزاروں افراد کے لیے ایک پیغام ہے کہ ہمیں ڈرایا جائے لیکن کیا یہی سلامتی ہے؟ کیا یہی قانون ہے؟ کون سا قانون بلیک میلنگ، اغواء اور ذہنی اذیت کی اجازت دیتا ہے؟

انہوں نے بتایا کہ ان کے والد 65 برس کے ہیں اور بلند فشار خون اور دل کی بیماری میں مبتلا ہیں اگر خدانخواستہ حراست کے دوران انہیں کچھ ہوا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟

عیدالاضحیٰ کے موقع پر انہوں نے کہا دو دن بعد عید ہے لیکن ہمارے لیے یہ دن خوشی کا نہیں بلکہ اذیت، انتظار اور خاموشی کا ہوگا کل رات ہی 25 مزید بلوچ افراد کو اغواء کیا گیا ہر جبری گمشدگی ایک فرد کی نہیں، بلکہ ایک پورے خاندان کی اذیت ہے اجتماعی دکھ، نہ ختم ہونے والا زخم۔

انہوں نے مزید کہا اگر مقصد یہ ہے کہ ہمیں توڑا جائے ہمیں دوسروں کے دکھ سے بے حس کیا جائے تو ریاست ناکام ہو چکی ہے کیونکہ میرا درد میرے عزم کو مزید مضبوط کرتا ہے۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے جبری گمشدگی کو غیرقانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی عمل قرار دیتے ہوئے کہا کوئی قانون، کوئی روایت، کوئی جواز اس ظلم کو درست ثابت نہیں کر سکتا اور جب اسے بطور ہتھیار استعمال کیا جائے تو یہ ان لوگوں کی اخلاقی پستی کو بے نقاب کرتا ہے جو اسے انجام دیتے ہیں۔

اپنے بیان کے اختتام پر انہوں نے دعا کی میں ان لوگوں کے لیے دعا کرتی ہوں جنہوں نے ہمارا سکون چھینا جو ناانصافی کو جواز دیتے ہیں جو دوسروں کی تکلیف میں سکون ڈھونڈتے ہیں اللہ کرے انہیں کبھی سکون نہ ملے ان کی دعائیں رد ہوں مظلوموں کی بددعا ان کا پیچھا کرے۔ آمین۔

آخر میں انہوں نے عوام سے اپیل کی آواز بلند کریں جبری گمشدگیوں کے خلاف بولیں ہمارے ساتھ یکجہتی میں کھڑے ہوں میرے والد میرے خاندان اور ہم جیسے ہزاروں خاندانوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

صبیحہ بلوچ نے کہا انصاف میں تاخیر ایک ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا  اور خاموشی ایک جرم ہے۔