الوداع قاضی۔ ایک بنیاد، ایک عہد – حماد بلوچ

52

الوداع قاضی۔ ایک بنیاد، ایک عہد

تحریر: حماد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زندگی میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن سے خون کے رشتے سے نظریاتی رشتہ مضبوط ہوتا ہے جو تمہارے لئے ایک مکتب، ایک نظریہ کا نشان ہوتے ہیں اور میرے لئے قاضی بھی کچھ ایسا ہی تھا بڑے بھائی، رہنما، اور خاموشی میں گہرائی رکھنے والا وہ شخص جس نے زندگی جینے کا ہنر سکھایا اور جدوجہد کا راستہ دکھایا۔

قومی آزادی کی سیاست میں سب سے پہلا سبق یہی دیا جاتا ہے کہ اپنے نظریے میں پختہ رہو عمل کا خود ذمہ دار بنو اور راستے کی سختیوں سے گھبرائے بغیر ڈٹے رہو قاضی نے یہ سب نہ صرف سیکھا بلکہ اپنی زندگی سے سکھایا وہ خود شاید کسی سیاسی پلیٹ فارم پر سرگرم نہ رہا ہو لیکن تحریک، نظریہ، اور تاریخ پر اس کی گرفت ایسی تھی کہ وہ جہاں بیٹھتا وہ جگہ خود بخود سنجیدگی کا مرکز بن جاتا۔

قاضی نے ہمیں بتایا کہ شعور کتابوں سے نہیں عمل سے آتا ہے اس نے سیاست کو پڑھا دنیا کو جانا اور پھر اپنے ارد گرد ایسے سبق دیے جو آج ہمارے سیاسی اور فکری سفر میں مشعل راہ بنے ہوئے ہیں۔

قاضی ایک خاموش طبع انسان تھا لیکن اس کی خاموشی محض سکوت نہیں تھی وہ وقار کی علامت تھی وہ جہاں ہوتا اس کی موجودگی احساس دلاتی کہ اب کوئی ایسا شخص موجود ہے جو سن رہا ہے سوچ رہا ہے اور وقت آنے پر بولے گا تو بات دل اور دماغ میں اتر جائے گی۔

قاضی پر کیا کچھ نہ گزرا والد اور بھائیوں کی شہادت خاندان کی خضدار سے جبری بے دخلی گھر پر ریاستی حملے دھمکیاں خاندان کی جلاوطنی لیکن اس کے چہرے پر کبھی شکن نہیں دیکھی وہ نرم لہجے میں بات کرنے والا وہ شخص تھا جس کے اعصاب شاموز کے پتھریلے پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط تھے جس نے درد کو اندر جذب کیا اور اپنے عمل کو مزید پختہ کیا۔

قاضی کوئی ولی یا پیغمبر نہ تھا مگر جو بات وہ کہتا، دل فوراً مان لیتا اس لیے نہیں کہ ہم اندھے مقلد تھے بلکہ اس لیے کہ اس نے خود وہ راستے پہلے ناپے تھے وہ راستے جن پر وہ چلا ان پر چلنا آسان نہ تھا مگر اس نے اپنے قدموں سے کانٹے ہٹائے تاکہ اسکے پیچھے آنے والوں کے لیے آسانی ہو جو بھی اس کا ہاتھ تھامتا کبھی راستہ نہ بھولتا کبھی نہیں بکھرتا۔

جب والد اور بھائی کو شہید کیا گیا تو قاضی نے انتقام میں شور نہیں مچایا بلکہ تنظیم کو مضبوط کیا ادارے بنائے نظم دیا اور وہ سب کچھ کیا جو دشمن چاہتا تھا کہ وہ نہ کرے وہ ٹوٹا نہیں کیونکہ وہ صرف ایک فرد نہیں، ایک بنیاد تھا اور بنیادیں کبھی ٹوٹا نہیں کرتیں وہ نسلوں کو سنبھالتی ہیں۔

ایک عہد جو لوٹ کر نہیں آئے گا مگر زندہ رہے گا قاضی اب ہم میں نہیں رہا لیکن وہ عہد وہ سوچ وہ سبق جو اس نے دیا وہ زندہ رہے گا وہ اب خضدار اور حب کی گلیوں میں خاموش ہے مگر وہاں کی ہوا اس کی موجودگی کو اب بھی محسوس کرتی ہے۔

قاضی اب تم مادر سرزمین کی آغوش میں آرام کرو تمہاری جدائی کا غم ہمارے دلوں میں ہے مگر تم نے جو راستہ دکھایا اس پر ہم یقین سے فخر سے اور استقامت سے چلتے رہیں گے۔

جب تم دوستوں کے پاس جاؤ، دلجان، مجید، حئی، اور امیر کو سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ وہ جو بیج تم سب نے مل کر بوئے تھے، وہ اب تناور درخت بن چکا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔