ہماری عیدیں – گلزادی بلوچ

106

ہماری عیدیں
تحریر: گلزادی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زمانے گزر گئے ہوں، خوشیوں کے موسم دیکھے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے یاداشت میں بس خزاں ہی خزاں ہے۔ یادوں کے ہر لہر خزاں کے خشک ہوا کی مانند غموں اور پیاروں سے دوری کی یاد دلاتی ہے۔ خوشیوں کے پھول تو مانو مرجھا گئے ہوں۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلی عید قید میں اپنوں سے دور گزرے گی، اس سے قبل بھی تو ہم قید رہے ہیں خوف کے گھیرے میں۔ اپنوں سے دوری، انہیں کھونے کا ڈر۔ چند سال قبل گھر کا سوگوار ماحول اب تک میرے آنکھوں کے سامنے ہے، جہاں نہ کوئی خوشی تھی نہ کوئی احساس۔ یقیناً آج بھی آپ سب اسی کیفیت میں ہوں گے۔

ماں بن کر مجھے پالنے والی میری بہنیں، آپ لوگوں نے کبھی جیل اور تھانوں کے چکر اور ایسے مسائل کا تصور بھی نہ کیا ہوگا مگر آج میری وجہ سے آپ سب کی زندگیاں دشوار ہو گئی ہیں فرق بس اتنا ہے کہ کچھ سال پہلے میں آپ لوگوں کے پاس اپنے علاقے مچھ جیل میں تھی اور آپ سب مجھ سے ملنے آتے تھے، اپنے دکھ چھپا کر مجھے دلاسہ دیتے تھے، اور اب میں آپ سب سے دور اس جیل میں قید ہوں لیکن اب آپ کی چھوٹی بہن کمزور نہیں، وہ اب جیل کی سلاخوں سے نہیں ڈرتی، وہ قیدخانے کے اندھیرے سے نہیں گھبراتی اور یقیناً مجھے اتنا مضبوط بھی اسی جبر نے کیا کہ جس کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں آج میں آپ سب سے دور جھوٹے دہشتگردی کے مقدمات میں قید ہوں۔

بدقسمتی سے ہم غلام ہیں اور غلامی کی زندگی میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
اور ہمیں بھی خود کو ہر طرح کے حالات کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔
میرا حوصلہ بننے والی، مجھے ہمت دینے والی، اپنے آنسوں آنکھوں میں روک کر مجھے حوصلہ دینے والی میری بہادر بہنیں، آپ میرا حوصلہ ہیں۔
آپ کی قربانیوں پر مجھے فخر ہے اور آپ کی قربانیاں اور آنسوں کبھی رائیگان نہیں جائیں گے۔

اپنے قومی جہد پر قائم رہنے کا مجھے درس دینے والے میرے پیارے بھائی، آپ کی بہن کبھی کمزور نہیں ہوگی، اور نہ کبھی اپنے قوم کے لیے مشکل وقت میں قربانی دینے سے دریغ کرے گی۔ مجھے وہ آخری فون کال یاد ہے آپ کی جب آپ نے کہا “گل اپنا خیال رکھنا”۔ میرے سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے آپ سب بھی ریاستی بندوق کے دہانے پر ہیں، لیکن مجھے فخر ہے اس بات پر کہ باوجود ان سب کے آپ سب میرے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان شاء اللہ بہت جلد ہم پھر سے ایک ساتھ ہوں گے۔

میرے بہادر بلوچ راج! آج کا دن ایک پرمسرت دن ہے جس میں لوگ اپنے پیاروں سے ملتے، انہیں عید مبارک دیتے ہیں، خوشیاں بانٹتے ہیں، مگر ہم زندگی کے ہر خوشی کی طرح اس مبارک دن کی خوشی کو بھی منانے سے محروم ہیں۔ بلوچ کا ہر گھر منتظر ہے اپنے لاپتہ فرزند کے لوٹنے کا اور سینکڑوں گھروں میں مسخ شدہ لاشوں کا درد بھرا ہے۔
اس عید مائیں صرف لاپتہ بیٹوں کے نہیں بلکہ ایک ماہ اپنی لاپتہ بیٹی ماہ جبین کی بھی انتظار میں ہیں۔ ہر خوشی کا دن ہمارے زخموں اور محرومی کو مزید تازہ کر جاتا ہے اور یہ محرومیاں اور اذیت محض حادثہ نہیں۔

امید اور یقین دو ایسی طاقتیں ہیں جن کے رہتے دشمن ہمیں کبھی شکست نہیں دے پائے گا۔ امید خوشحال اور خودمختار مستقبل کی اور یقین اپنے جدوجہد اور عمل پر کہ اس جہد کا ہر قدم ہمارے پرامن کل کی ان شاء اللہ ضامن ہوگا۔

وہ کل کہ جس میں ہمارے جوانوں کی لاشیں نہیں گریں گی، جس میں ہماری مائیں بہنیں بیٹیوں کی چادر کوئی کرائے کا قاتل نہیں کھینچ پائے گا، وہ خوشحال کل کہ جس میں کوئی مہاجر، غریب مزدور اور کسان افلاس سے جان کی بازی نہیں ہارے گا، وہ خودمختار کل کہ جس میں کوئی وردی میں ملبوس درندہ کسی سفید ریش کی تذلیل نہیں کر پائے گا اور اس آنے والے کل میں بلوچ بھی عید کی خوشیاں منا سکے گا، پھر کوئی لاپتہ نہیں ہوگا، کوئی کسی کے مسخ شدہ لاش کے اوپر نہیں روئے گا۔

اُس آنے والے کل کے لیے جدوجہد ہمیں کرنی ہوگی کہ جس میں کوئی مظلوم کے خون سے ہولی نہ کھیلے، کوئی رہزن رہبر نہ کہلائے اور کوئی محسن کے روپ میں ہماری زندگیاں نہ چھینے۔ ہمیں عارضی نہیں بلکہ مستقل خوشیاں چاہیے جن کے چھن جانے کا ڈر کسی کے دل میں نہ ہو، کسی ماں کو اپنے بیٹے کے گمشدگی کا ڈر نہ ہو، کسی بیوی کو نیم بیوگی کا خوف نہ ہو، کسی بچے یا باپ کو اپنے بےسہارا ہونے کا ڈر نہ ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔