گواڑخِ انقلاب نوتک جان – زمان توکلی

110

گواڑخِ انقلاب نوتک جان

تحریر: زمان توکلی

دی بلوچستان پوسٹ

جب میں نے کچھ لکھنے کا ارادہ کیا تو بےشمار سوالوں نے مجھے گھیر لیا: میں کیا لکھ رہا ہوں؟ کس کے لیے لکھ رہا ہوں؟ جس کے لیے لکھ رہا ہوں، میرے منتشر الفاظ اُس کے کردار کے ساتھ انصاف کر سکیں گے؟ اگر نہیں، تو پھر میں کیوں لکھ رہا ہوں؟ شاید میرے پاس ان سوالوں کے مکمل جوابات نہ ہوں، مگر بلوچ قومی تحریک میں بعض کردار ایسے ہوتے ہیں جو آپ کو لکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ انہی کرداروں میں سے ایک “نوتک” ہے۔

نوتک جانتا تھا کہ ذاتی زندگی، ذاتی ترجیحات اور خواہشات کو ترک کر کے، فکری پختگی کے ساتھ قومی کاز کا حصہ بننا، خود کو ہر لمحہ ذہنی اور جسمانی طور پر کسی بھی حالت کے لیے تیار رکھنا، کب اور کہاں کیا فیصلہ لینا ہے، تحریک کی ضروریات کیا ہیں یہ سب ایک قومی جہدکار میں ہونا لازمی ہے۔

2010 کی دہائی میں جب بلوچ سیاسی عمل زور و شور سے جاری تھا، نوجوان اور طلبہ بڑی تعداد میں قومی جدوجہد میں شامل ہو رہے تھے۔ دوسری طرف ریاستی بربریت اپنے عروج پر تھی۔ ہر روز بلوچ نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی، اور اُن کی مسخ شدہ لاشوں کا ویرانوں میں پھینکا جانا معمول بن چکا تھا۔ ایسے حالات میں 2008 میں نوتک نے بلوچ طلبہ تنظیم BRS0 میں شمولیت اختیار کی۔ تب وہ آنے والے وقت اور حالات پر غور کر رہا تھا کہ آیا ہم یونہی خود کو جھوٹے تسلّیوں میں رکھ کر بہانے بناتے رہیں گے، اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ماؤں، بہنوں کو سڑکوں پر رسوا ہوتے دیکھتے رہیں گے؟ یا پھر اس بربریت کا، جو سات دہائیوں سے جاری ہے، جواب دیں گے؟ یہی سوچتے ہوئے وہ 2010 میں بلوچ مسلح تنظیموں سے منسلک ہوگیا۔

انسان آج جہاں بھی کھڑا ہے، جیسی بھی حالت میں ہے، وہ اُس کے کیے گئے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ اور آنے والے وقت میں وہ کیا کرے گا، یہ بھی انہی فیصلوں پر منحصر ہے۔

نوتک جان! جب تم نے وہ فیصلہ لیا ہوگا جو تمہیں ہمیشہ کے لیے امر کر گیا، تو یقیناً تم نے بلوچستان کے ان سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان غروبِ آفتاب کو دیکھا ہوگا، جو کل دوبارہ طلوع ہونے کے لیے خاموشی سے ڈھل رہا تھا۔ اس خاموشی کے ساتھ جو انقلاب کی گونج اپنے ساتھ لیے ہوئے تھی۔ تم نے اُن نم آنکھوں کو بھی دیکھا ہوگا، جو اپنے پیاروں کی تصویریں لیے تپتی دھوپ میں سڑکوں پر بیٹھے بےبسی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔

شعور و علم کے بغیر ہر عمل ادھورا ہے، اور عمل کے بغیر شعور و علم بے معنی۔ نوتک جانتا تھا کہ محض گفتگو، نعرے اور بڑے فلاسفروں کے اقتباسات سماج میں تبدیلی نہیں لاتے بلکہ مسلسل جدوجہد اور قربانیوں سے تبدیلی آتی ہے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب ہمیشہ قربانیوں سے آتا ہے، الفاظ سے نہیں۔ وہ قومی تحریک کو بہتر، منظم اور متحرک بنانے کے لیے مسلسل کوشاں تھا۔

اس وقت جب قومی تحریک انتشار کا شکار ہو، اس کی قیادت نشیب و فراز سے گزر رہی ہو، نوجوان مایوسی اور انفرادی سوچ کا شکار ہو رہے ہوں، قوم میں بےزاری پنپ رہی ہو، اور کچھ لوگ صرف ذاتی مفادات کی خاطر تحریک کو پسِ پشت ڈال کر کردار کشی میں مصروف ہوں ایسے میں، ریاست ہر حربہ استعمال کر رہی تھی تاکہ بلوچ قومی تحریک کو کمزور کیا جا سکے۔ ان سب کے باوجود ایک ایسا فیصلہ لینا، جو قوم کے اندر نئی امید پیدا کرے اور مستقبل کے لیے مؤثر ہو، بلاشبہ ایک بڑی قربانی ہے۔

نوتک جیسے شخصیت، جو فدائی بن کر، شاعر بن کر، اور آخرکار اپنی جان دے کر اس سرزمین کو اپنے خون سے سیراب کر گیا جب انہی قطروں سے انقلاب کی گواہیاں کھلیں گی، اور فضا میں قربانیوں کی خوشبو پھیل جائے گی تو نوتک کا یقین درست ثابت ہوگا۔ اُسے علم تھا کہ اُس کی شہادت کے بعد بھی ایک نہ ختم ہونے والا قافلہ آئے گا، جس میں نوجوان اپنے سر ہنسی خوشی قربان کریں گے۔ ایک ایسا قافلہ جس کی منزل صرف ایک آزاد، خودمختار وطن ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔