میں جانوں میرا خدا جانے! – باسوو بلوچ

101

میں جانوں میرا خدا جانے!

تحریر: باسوو بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دل لرز رہا ہے، ہاتھ کانپ رہے ہیں، آخر کیا نوبت آئی کہ اس طرح کی تحریر لکھ رہا ہوں۔ سچ بھی بولنا ہے، حق بھی بیان کرنا ہے۔ تنقید تو بہت ہوگی مجھ پر، اس طرح نہ ہو کہ کوئی جذباتی مسلمان جہاد نہ کرے مجھ پر، کیونکہ اس دور کے مسلمان بہانہ ڈونڈھتے ہیں جنت جانے کے لیے گھر بیٹھے جہاد کرنے کے لیے! اگر جہاد کرنا ہے تو شہید غازی علم الدین کو ضرور پڑھیں۔ اللہ معاف کرے، میں نماز نہیں پڑھتا، اچانک ایک دن نماز کا نیت بنا، میں مسجد گیا تو اعلان ہوا کہ نماز کے بعد ضرور بات ہوگی اللہ اور اللہ کے رسول اور دین کے بارے میں۔ نماز ختم ہوئی تو کچھ ایمان دار پہلے صفحہ پر تھے، وہ وہی ایمان دار تھے جو منشیات کے پیسوں سے یہی مسجد بنوائی تھی۔ میں سب سے پیچھے بیٹھا اور خاموشی سے سنتا گیا۔ ایک تبلیغی حضرات اٹکر بیان کرنے لگا: “اللہ نے یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں رکھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے اندر زندہ رکھا، یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکال کر قید سے مصر کا بادشاہ بنا لیا۔” ملا نے بہت سارے معجزات بیان کیے۔ تو میرے منہ سے اچانک آواز نکلی: “مولوی صاحب، آپ کچھ ہم جاہلوں سے چھپا رہے ہو۔ اس دور میں ہمارے لیے موسیٰ نہیں آئے گا، ہمیں فرعون کے سامنے موسیٰ بن کر آنا ہے۔” اور غلطی سے آپ کی منہ سے اس دور کے فرعون کے خلاف ایک بات بھی نہیں نکلی۔ آپ دور کے فرعون کو للکارو، پھر آپ حق پر ہو۔ آپ کے ساتھ بھی یوسف، ابراہیم اور یونس والے معجزات ہوں گے اور اُس کے ہاتھ پر موٹا سا کتاب بھی تھا۔ میں نے پوچھا: “اس کتاب میں حق کی بات نہیں لکھی، آپ تو ہمیں گھنٹوں سے صرف دوزخ سے ڈراتے رہتے ہیں اور جنت کی باتوں سے دل بہلاتے ہو۔ ہمیں جنت کی چوڑائی اور دوزخ کی گہرائی بتاتے ہو، حق کی بات ناممکن ہے کہ ان کے منہ سے نکلے۔” بیان ختم ہوا، سب میرے منہ دیکھتے رہ گئے، آہستہ آہستہ سب نکل گئے۔ آخر میں ملا نے مجھے کہا: “کل سے میرے مسجد میں نماز نہیں پڑھیں گے، اپنے قریبی والی مسجد میں نماز پڑھیں۔” خیر، نکل گئے۔ ایک دن بعد کچھ بندوں نے مجھے دیکھ کر کہا: “آپ بہت اچھے سوالات کر رہے تھے، حالات کے مطابق ٹھیک نہیں تھے۔ حق کی بات میں کروں گی، مسجد ہو، مندر ہو، گلی ہو چاہے گھر ہو، اور میرا حق بنتا ہے سوال کرنا۔” اللہ معاف کرے، آج کل کے مولوی شہادت اور جنت کی خوبی بیان کرتے ہیں لیکن خود شہادت سے ڈرتے ہیں۔

اس دور میں جو کام مولویوں کو کرنا ہے وہ گلوکار کر رہے ہیں۔

ایک نامور بزرگ تھے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ، رات کے اندھیرے میں جا رہے تھے۔ اُس کے ایک ہاتھ میں پیالا تھا، پیالے میں پانی تھا اور دوسرے ہاتھ میں چراغ تھا۔ کسی نے پوچھا مولانا آپ کہاں جا رہے ہو؟ تو رومی نے کہا: “میں چراغ سے جنت کو جلا دوں گا، پیالے کے پانی سے دوزخ کی آگ بجھا دوں گا۔” بندے نے پوچھا: “آپ کیوں اس طرح کرنے جا رہے ہو؟” رومی نے کہا: “لوگ دوزخ کی گہرائی اور جنت کی چوڑائی کو دیکھتے ہیں، اللہ ان کے دل سے نکل چکا ہے، اللہ سے دوستی نہیں کرتے، حالانکہ جنت اور دوزخ کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔”

کارل مارکس جرمن فلسفی کمال کے فلسفی ہیں۔ ان کو جب آپ پڑھیں گے آپ کو انسانیت کی زبردست سبق ملے گی، ضرور پڑھیں۔ کارل مارکس دنیا میں سوشلزم چاہتے تھے۔ تو کارل مارکس کہتے تھے جتنے بھی مذاہب ہیں دنیا میں، انسان اپنے ضروریات کے لیے بنائے ہیں، ویسے کچھ بھی نہیں۔ اس کی انسانیت دیکھ، تین بچے اور بیوی تھے، کام وغیرہ کچھ بھی نہیں کرتا تھا، صبح شام کتابوں کے ساتھ لگا رہتا تھا۔ ایک دن بیوی بیزار ہو کر کارل کو کہنے لگی: “بچے بیمار پڑے ہیں، کھانے کو کچھ بھی نہیں۔” کارل مارکس نے کہا: “میرے تین بچے ہیں اور دنیا میں کروڑوں بچے آ رہے ہیں، مجھے یہ تین کی نہیں کروڑوں کی فکر ہے۔” وہ کہتے ہیں غریبی آسمانی نہیں زمینی مثالیں ہیں۔ کارل مارکس کی کچھ اقوال: “جنہوں نے سردی گرمی صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہو اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو، وہ عام آدمی کی قیادت نہیں کر سکتے۔” کسی سے بدلہ لینے کے لیے اسے جان سے مارنے کی ضرورت نہیں، اس کی امید کو ختم کردیں، وہ روز خود بخود مرتا رہے گا۔ انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مڈل کلاس طبقہ بنتا ہے، ان کی نظریں آسمان پر اور پیر کی کیچڑ میں ہوتے ہیں۔

جب مولویوں پر تنقید کرتے ہیں تو ہمیں فوراً جواب ملتا ہے: “نکاح اور جنازہ تو آپ کے یہی ملا پڑھاتے ہیں، وہ ہم پر احسان نہیں کرتے۔” ان کا حق بنتا ہے اور ویسے تو نکاح اور جنازہ اپنا کوئی بھائی، باپ یا کوئی قریبی رشتہ دار بھی پڑھا سکتا ہے۔ اسلام میں عورت کو مکمل آزادی ہے لیکن ملاوں نے ہماری عورتوں کو ڈرایا دیا ہے دوزخ سے، ہماری عورتیں گھر تک محدود ہیں۔ اور گوادر راجی مچی میں جب ڈاکٹر صبیحہ نے کچھ باتیں کیں تو ہمارے ملاوں کو چھوڑو پنجاب سے ملاوں کی چیخیں نکل رہی تھیں، پروپیگنڈا کرنے کے لیے تیار بیٹے تھے اور خود ان کی فوجی بوٹوں کے ساتھ مسجد میں گھس گئے تھے، ملاوں کو وہاں اسلام یاد نہیں آیا۔ اچھا ہوا کہ ڈاکٹر صبیحہ نے غلطی کا اعتراف کر لیا۔

جب دنیا کی دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی تو بہت سی قوموں نے اپنی قومیت اور اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، بہت سے ممالک وجود میں آئے تھے۔ اُس وقت جب بلوچستان کی بات آئی تو یہی ملاوں نے بلوچ قوم کو گمراہ کیا کہ سلطنت عثمانیہ خطرے میں ہے۔ نوشکی سے ملا عنایت اللہ یہاں سے لشکر اٹھا کر سلطنت عثمانیہ بچانے نکلے تھے۔ یہی ملاوں نے ہمیں دھوکہ دیا تھا۔ بلوچ قوم پر اسلام کارڈ بہت استعمال ہوا ہے۔

جب فلسطین کی جنگ تھی 2002 میں تو کچھ قوم پرست فلسطینی رہنما بلوچستان میں نکل مکانی کی تھی، واجہ غلام محمد سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے خود کہا تھا: “ہماری جنگ اپنی قومیت، ننگ، ناموس، بقاء کی ہے اور ہمیں کچھ مسلمان ممالک مذہب کی جنگ میں دھکیل رہے ہیں۔” پھر انہوں نے خود کہا تھا کہ ہماری آنے والی نسل کے لیے بہت مشکل ہوگی۔ یہ جنگ حقیقت میں فلسطین کو مذہبی جنگ میں دھکیل کر خود تماشائی بنے بیٹے ہیں۔ اب پاکستانی قوم بوتلوں سے بائیکاٹ کرکے جہاد شروع کر رہی ہے۔ اب پورا پاکستان کی مثال یوں ہے کہ دکان کے اوپر کلمہ طیبہ لکھ کر اندر شراب بیچ رہے ہوں۔

دین ایک خوبصورت فلسفہ ہے اور دین اسلام کو پڑھنا اور سمجھنا اہم بات ہے، کیونکہ آپ کو لگے گا کہ یہ دین کتنا روشن خیالی کا درس دیتا ہے۔

شروع میں، میں بھی سمجھتا تھا کہ مذہب ہمارا استحصال کر رہا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کے فلسفے کو سمجھا تو ایسے بہت سے سوال تھے جن کا جواب ملا۔

اگر دیکھا جائے اس معاشرے میں صرف مذہب کے نام پر نہیں بلکہ ایسے بہت سے بیانات وجود میں آئے ہیں جو بلوچ قوم کا استحصال کرتے آئے ہیں۔

اس کی ایک خوبصورت مثال ہم مستونگ سے لے سکتے ہیں جہاں ادب، دانشور، پروفیسر پیدا ہوتے تھے، لیکن اب وہاں آپ کو مذہب کے پیروکار ملتے ہیں۔

اگر دین کو اسلام کے فلسفے میں دیکھیں تو دین کو خلافت راشدہ کے نظریہ سے دیکھنا شروع کریں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سیاسی حکمت عملی سے دیکھ لیں خاص طور پر میثاق مدینہ سے۔

اس عمر میں انسان کے ذہن میں بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں کیونکہ اس و پاس کے دوستوں سے ایسا ماحول ملتا ہے جو مذہبی بحث کو اکثر ترجیح دیتے ہیں، جو میرے نزدیک صرف وقت کی بربادی سے اور کچھ نہیں۔

تحریر پر تنقید کی اجازت ہے، داہرے میں رہ کر۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔