قصہِ جنگ، کہانی لالی – ہارون بلوچ

315

قصہِ جنگ، کہانی لالی

تحریر: ہارون بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہائن اسٹائن نے کسی جگہ کہا تھا کہ تعلیم معلومات حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ اپنے دماغ کو سوچنے کیلئے تیار کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ یہ لالی پر خوب آتی ہے کہ ایک نوجوان جو روایتی تعلیم سے آشنا نہیں لیکن بقول پروفیسر شہید عاقل کہ لالی نے شاید روایتی تعلیم حاصل نہیں کی ہے لیکن اس جیسا واریئر اور جنگجو تنظیم شاید صدیوں میں پیدا نہ کر سکے۔ لالی کے حوالے سے ساتھیوں سے جب بھی سننے کو ملا ہے تو حیرانگی ہوئی ہے کہ ایک انسان جس نے کبھی کوئی شہر، کوئی روایتی فوجی ٹریننگ، حتیٰ کہ شہری زندگی بھی نہیں دیکھی ہے وہ وارفیئر کا اتنا ماسٹر کیسے ہوسکتا ہے کہ دشمن پر ایسے دھک لگائیں کہ اسے صدیوں تک یاد رہے، ایسے آپریشن پلان کرے، ساتھیوں کے درمیان ایسی کوارڈیشن قائم رکھے، مختلف جنگی یونٹس کا قیام عمل میں لائے، مختلف یونٹس کو دشمن کی پلاننگ کے مطابق ترتیب دے، ڈرون اور دیگر ریاستی ٹیکنالوجی کو مات دینے کی صلاحیت رکھے اور ایسے آپریشن کو ایسے محدود وسائل اور تعداد کے ساتھ سرانجام دے جو شاید صدیوں میں بھی سوچنے کی حد تک بھی خیالی لگتے تھے۔ لالی اس قصہِ عمل کا نام ہے جس میں وہ شدت اور جدت موجود ہے جو کسی روایتی تعلیم میں موجود نہیں، لالی عمل کے علم سے آشنا اور عمل کے علم کی وہ زندہ کہانی ہے جسے پڑھ کر اور سمجھ کر آنے والے نوجوان دشمن پر ایسی قاری ضربیں لگا سکتی ہیں جو دشمن کیلئے عبرت ناک اور دشمن کیلئے بلوچ زمین کو تنگ کرنے کا سبب بنیں گے۔ لالی اس بہادری، جرات مندی، اور فوجی دلیری کا عملی نمونہ ہے جو اپنے مقصد کے ساتھ اس حد تک بےغرض ہے کہ وہ اسی کے خیال میں مگن رہ کر زندگی گزار دیتا ہے اور بہادری کا وہ مثال جو جسے شاید موت دیکھ کر بھی گھبراہ جائے۔ جنگ کے میدان میں لالی جیسے بہادر ساتھی ہی جیت سکتے ہیں جو ناقابل شکست ہیں۔

کسی ساتھی کا کہنا تھا کہ لالی کو سر درد کا مسئلہ درپیش تھا، اور ایسے ہوتا تھا کہ تین سے چار دن تک وہ سو نہیں پوتا تھا، لیکن وہ سردرد کسی جسمانی بیماری کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ دشمن کے خلاف بہترین اور قاری ضربیں لگانے کیلئے وہ ترتیب سوچنے کی اس انتہا تک جاتا تھا کہ اس کا ذہن نیند تک قبول نہیں کرتا تھا، وہ دشمن کے خلاف بہترین اسٹریٹجی، نت نئے طریقہ کار، ساتھیوں کی حفاظت کے حوالے سے خیالات، دشمن کے خلاف منظم سے منظم ترین آپریشن کی تیاری کے حوالے سے سوچنے پر وہ اسے نیند نہیں آتی تھی، یہ کوئی رومانوی قصہ نہیں بلکہ بلوچستان کے جنگی تاریخِ میں قصہ سگار کی حقیقی کہانی ہے جو شاید الفاظ میں بیان اور پڑھ کر سمجھا نہ جا سکے۔

ایک اور دوست کے مطابق ایک مرتبہ جب ساتھی دشمن کے خلاف جنگی معرقہ کی پلاننگ کر رہے تھے، مختلف ساتھی اپنی رائے رکھ رہے تھے اور ان میں سب سے اہم اور ضروری رائے لالی کی تھے لیکن روایتی علم، ڈسکیشن سے محرومی کی وجہ سے وہ اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر پا رہے تھے تو اس بھیج اس کے آنکھوں میں آنسو آئے اور وہ رونے لگے، اپنے آپ کو کوسنے لگے کہ کیوں میں پڑھنا نہیں جانتا، یعنی اتنے پلاننگ اور خیالات ہونے کے باوجود وہ ان کو بہترین انداز میں ساتھیوں کے سامنے پیش نہیں کر پا رہا تھا۔ انسان لالی کو سوچ کر حیران رہ جاتا ہے کہ ایک انسان جو روایتی تعلیم، سیاست سے محروم ہوکر اس نہج تک کیسے قابل، باصلاحیت، اور آپریشن پلان کر سکتا ہے جو کئی دیگر ساتھی کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ لالی اس عمل کا نتیجہ ہے جو انقلابی خیالات، سچے جذبے، آزادی کی حقیقی فکر و سوچ، تحریک کے ساتھ مخلص وابستگی، اور بہترین تربیت کا نتیجہ ہے جس میں کوئی غرض نہیں ہے۔

ہم انقلابی اور لیڈر ہونے مطلب چالاکی، لوگوں کے سامنے مہذب ہونے کا دکھاوا، تقریر کرنا، کسی نہ کسی طرح اپنی بات منوانا، چند کتابی انفارمیشن بیان کرنا، چند تھیوری پیش کرنا، زیادہ اور شدت سے بات کرنا، ساتھیوں کے درمیان اپنی زور و زبردستی بنائی ہوئی عزت قائم کرنا، کپڑوں کی اچھی بناوٹ، میڈیا میں ایک دو بیان جاری کرنے کے عمل کو سمجھتے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں راہبری کا امتیاز لالی جیسے بے غرض، مخلص، علم و عمل سے جڑے، فکری و نظریاتی، ہر ذمہ داری خود کے اوپر لینے، خود کو کسی بھی مرحلے میں سب سے آگے کرنے، آپریشن پلان کرنے، جاہلیت کے بجائے عملی بنیادوں پر ثابت کرنے والے ساتھی ہوتے ہیں جو سوچنے کے ساتھ اس کو عملی جامہ پہنانے کا روڈ میپ بھی رکھتے ہیں اور صرف روڈ میپ پیش کرنا بھی نہیں بلکہ اس کو عملی بنیادوں پر ثابت کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ لالی نے جنگ کے میدان میں ثابت کیا ہے کہ ایک راہبر کا مقام عملی میدان میں ثابت قدمی، مستقل مزاجی، آپریشنل پلاننگ، ساتھیوں کے درمیان بہترین کوارڈیشن قائم رکھنے میں ہے، انہوں نے ثابت کیا ہے کہ آج بلوچ قومی تحریک کو ایسے بے غرض ساتھیوں کی ضرورت ہے جو نام و شہرت سے مکمل بے غرض ہوکر صرف ذمہ داری لینے اور انہیں منطقی انجام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھے جو اپنی باتوں، خیالوں، تقاریر میں نہیں بلکہ عملی میدان میں بھی واضح، ناقابل شکست ہو۔

ایک ساتھی کا کہنا تھا کہ جب شہید ماسٹر (یاسر) کیمپ آیا تھا تو اسے سیکھنے کی جستجو انتہا کو تھی۔ وہ ہر ساتھی کے پاس یا ذمہ دار کے پاس جاتا تھا، اس کے پاس ڈھیر سارے سوالات ہوتے تھے اور ہر وقت ساتھیوں سے درخواست کرتا تھا کہ مجھے فوجی کام کے دوران اپنے ساتھ لے چلو۔ وہ ہر وقت ساتھیوں کے پاس کام کیئے بھاگتا تھا اور یہی سوال لیکر چلتا تھا کہ کہیں کسی دوست کے ساتھ کسی فوجی کام کے سلسلے میں شامل ہوں، کئی ساتھیوں کے ساتھ موجودگی کے باوجود وہ مطمئن نظر نہیں آ رہا تھا لیکن جس دن اس کی ملاقات لالی سے ہوئی اور وہ ایک سفر کے دوران لالی کے ساتھ چلے گئے، اس کے بعد ماسٹر سے جب بھی ساتھی کسی دوسرے کیمپ آنے یا سفر پر نکلنے کا کہتے تھے تو وہ مسلسل اسی خواہش کا اظہار کرتا تھا اور ذمہ داروں سے یہی درخواست کرتا تھا کہ مجھے لالی کے ساتھ چھوڑ دیا جائے، وہ لالی کے ساتھ کچھ دنوں رہ کر مکمل تبدیل ہو گیا تھا اور اب وہ کسی بھی خواہش کا اظہار نہیں کرتا تھا کیونکہ لالی عملی میدان کا ایک ایسا نمونہ تھا جس سے کام، ذمہ داری، تکالیف، سختی، مخلصی اور ثابت قدمی جڑے ہوئے تھے۔ عمل کی جستجو کا انتہا لالی کے ساتھ رہ کر ختم ہوتا تھا، ذمہ داری کی جستجو لالی کے ساتھ رہ کر ختم ہوتا تھا۔

ایک دوست کے مطابق میں نے جب کیمپ جوائن کیا تھا تو لالی کے حوالے سے تنظیمی ساتھیوں کے یہاں بہت کچھ سنا تھا اور اسی موقع کے انتظار میں تھا کہ ان سے کسی نہ کسی طرح ملاقات ہو جائے، ایک دن ساتھیوں نے کہا کہ لالی ایک فوجی کارروائی کے سلسلے میں تمہارے یہاں آ رہا ہے، جب وہ یہاں آیا تو انتہائی خاموش تھا، وہ کسی سے بات نہیں کر رہا تھا، صرف کھانے اور چائے کے وقت موجود تھا باقی تمام وقت آنکھیں بند کرکے بیٹھا رہتا تھا، میں بہت حیران ہوا کہ جس کے بارے میں، میں نے انتا سنا ہے یہ لالی اس طرح کا خاموش انسان کیسے رہ سکتا ہے، وہ 7 دن تک اسی طرح رہا لیکن جب ہم کارروائی کے سلسلے میں چلے گئے تو جس انداز میں انہوں نے چیزیں ترتیب دیئے، جس انداز میں انہوں نے ساتھیوں کی پوزیشنز طے کیے، انہیں راہیں دیکھائی، جس محتاط انداز میں انہوں نے دشمن کے خلاف منظم فوجی کارروائی کو سرانجام دیا، اس دن مجھے سمجھ آیا کہ وہ گزشتہ سات دنوں تک اپنے ذہن میں کارروائی کے حوالے سے مختلف، طریقہ کار، سوچ رہا تھا اور اس کی تمام ذہنی طاقت اسی پر لگے ہوئے تھے۔ وہ جنگ اور سفر کے دوران تقریباً چار دن تک انہوں نے ایک مرتبہ بھی نیند نہیں لیا، وہ اپنی تمام نیند اسی وقت پورا کر چکا تھا تاکہ کام کے وقت اسے اس کی ضرورت پیش نہ آئے۔ بقول ساتھی میں نے جنگجو، ذمہ دار بہت دیکھے ہیں لیکن لالی جیسا انسان، لالی جیسا فیصلہ ساز، ترتیب دینے، اور منظم انداز میں دشمن پر حملہ کرنے والا جہدکار میں نے نہیں دیکھا ہے۔ لالی اس بات سے آگاہ تھا کہ دشمن کو کس طرح مارنا ہے، کس طرح اسے سخت ضرب لگانا ہے، کس طرح اس کو ذہنی اور جسمانی نقصانات سے دوچار کرانا ہے۔ وہ بلوچ جہد کے ایک ماہرین جنگجو تھا، جسے پڑھنے، لکھنے، بیان کرنے کی ضرورت ہے، وہ لیڈر ہونے کا عملی نمونہ تھا کہ جنگ کس طرح لڑتے اور جیتے ہیں۔

جنگی محاذ کے تمام ساتھی لالی کے نام اور کردار سے واقف تھے، جب بھی ساتھیوں کے درمیان کوئی بات ہوتی تھی تو لالی کا ذکر کیے بغیر وہ گفتگو مکمل نہیں ہوتا تھا لیکن جب جب نئے ساتھی کیمپ آتے تھے، تو وہ کئی دنوں تک لالی کو شناخت نہیں کر پاتے تھے۔ آپریشنل کمانڈ ہونے کے باوجود وہ غرور سے مکمل پاک انسان تھا، ایک ساتھی کے مطابق شہید ماسٹر سفر خان بھی انہی ساتھیوں میں تھا جو لالی کی کہانیوں سے آشنا تھا لیکن وہ لالی سے بذات خود آشنا نہیں تھا۔ ایک مرتبہ لالی سفر کے دوران ماسٹر کے ساتھ رہا، تقریباً کئی دنوں تک سفر جاری رہا لیکن انہوں نے اپنے انداز اور بیان سے کسی بھی طرح یہ باور نہیں کرایا تھا کہ وہ تنظیم کا انتہائی ذمہ دار شخص اور بولان کا آپریشنل کمانڈ ہے۔ کئی دنوں بعد جب وہ کیمپ آئے تو انہیں پتا چلا کہ میں جس شخص کے ساتھ سفر کر رہا تھا وہ تنظیم کا آپریشنل کمانڈ لالی تھا، یعنی اسے اس بات کا ایک فیصد بھی تکبر یا غرور نہیں تھا کہ وہ ایک آپریشنل کمانڈ ہے بلکہ اُن کا انداز، عام زندگی، باقی ساتھیوں کے مکمل برابر تھا۔ وہ ایک مخلص سپاہی، جاندار سرمچار نما لیڈر تھا جو اپنے عمل سے اور کردار سے جانا جاتا تھا۔ لالی بطور ایک کردار ساتھیوں کے درمیان شناخت رکھتا تھا، البتہ وہ اپنے رویے سے، اپنے باتوں سے، اپنے بیان اور قول سے ایک عام سرمچار تھا۔ لالی صرف اپنے کردار کے ساتھ انصاف کر رہا تھا، جدوجہد کے اندر اپنے کردار اور ذمہ داریوں کے انصاف کرنا انتہائی مشکل ہے، لالی اس مشکل سے مکمل آگاہ تھا اور اپنی انتہا تک اس کو نبھانے کیلئے محنت کرتا تھا۔

کسی بھی انقلابی جہدکار کیلئے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف کرنا یقیناً سخت ترین اور سب سے مشکل ترین عمل ہے۔ ہم عام طور پر ذمہ داری بڑے غرور اور خوشی سے لیتے ہیں، اور کوئی بھی ذمہ داری لیتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں لیکن لالی جیسے ساتھی ہمیں یہ سبق سکھاتے ہیں کہ تحریک اور جدوجہد کے اندر ذمہ داری ملنا یا ذمہ داری لینا کوئی معمولی عمل نہیں، بلکہ ذمہ داری لینا اور ملنا آسان ہے لیکن اس کے ساتھ انصاف کرنا کتنا مشکل ہے اس بات کا احساس لالی جیسے عظیم سرمچار اور رہبر کو ہوتا ہے۔ ساتھیوں کے مطابق وہ کبھی کبھار ہفتوں تک کسی مسئلے پر سوچ سوچ کر سو نہیں پاتا تھا، اگر کوئی کام ہوتا تھا تو وہ اپنی جان نچاور کرتا تھا، محنت کا ایسا عملی نمونہ کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ تنظیمی آپریشنل ذمہ داریوں کے سلسلے میں وہ کبھی کبھار اکیلے مہینوں تک سفر کرتا تھا۔ بولان کے محاذ پر وہ کئی تعلیم یافتہ ساتھیوں کو لیڈ کر رہا تھا لیکن جس تعلیم اور علم کے مقام پر لالی کھڑا تھا شاید وہ کتابوں کو پڑھنے کی انتہا سے کئی زیادہ تھا اس لیے لالی بےباک تھا، اس لیے آج کتابوں سے نکل کر ہمیں لالی جیسے کردار کو پڑھنے، لکھنے، اور اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں احساس ہو کہ ذمہ داری لینا اور ان کے ساتھ انصاف کرنا کتنا مشکل، کتنا سخت اور کتنی محنت و جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔ لالی جیسے کردار ہی اس جدوجہد کے وہ حقیقی معمار ہیں جس نے اس بلوچ قومی تحریک کو ناقابل شکست بنا دیا ہے اور انہیں دشمن کیلئے ایک عبرت ناک تصور میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیڈرشپ کیلئے محنت بنیادی شرط ہوتی ہے اور لالی اسی محنت کا عملی نمونہ تھا۔

لالی نے ساتھیوں کے درمیان یہ ثابت کیا ہے کہ تحریک کے اندر سب سے اہم ترین کام ثابت قدم رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دے کر ان کو عملی جامہ پہنانے کا نام ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اگر آپ عمل کے حوالے سے تیار ہیں، آپ تحریک کی سختیوں اور مشکلات سے آگاہ رہتے ہوئے، قومی درد محسوس کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دے کر کام کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے جو لالی نے جنگ کے میدان میں دیئے ہیں، انہوں نے اپنی عقل مندی، جنگی ہنر میں مہارت، صلاحیت، کمٹمنٹ، علم کے ساتھ بولان کے محاذ کو دشمن کیلئے ایک ایسے ناقابل تسخیر محاذ بنا دیا ہے کہ وہ آج مزاحمت کا قلعہ بن چکی ہے۔ اگر آج بولان کا محاذ دشمن کیلئے ناقابل شکست، دردناک اور اذیت ناک ہے، اگر آج بولان محاذ نے دشمن کی نیند حرام کی ہے اور اس کو خوفناک منظر دیئے ہیں تو یقیناً یہ لالی جیسے رہبر کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔

ایک افغان طالبان نے ایک سپاہی نے کہیں پر کہا تھا کہ کتاب شاید آپ کو تھیوری سکھائیں لیکن حقیقت آپ کو جنگی میدان کا عمل سکھائے گی۔ لالی بلوچ جنگ کا اس حقیقی چہرہ ہے جس نے آج دشمن کیلئے بلوچ زمین کو تنگ کر دیا ہے۔ جب آپ بے غرض ہو کر عمل کا حصہ بنیں گے پھر یقیناً آپ جنگ کے نتائج تبدیل کرنے میں بھی دیر نہیں کریں گے۔ شاید ہم آج اس قابل نہیں، اس صلاحیت سے محروم ہیں کہ لالی جیسے کردار، ان کا عملی چہرہ، ان کی صلاحیتیں دنیا کے سامنے لاسکیں لیکن جس طرح اس جنگ کو بیان کرنے والے ہوئے تو یقیناً لالی ان پہلی صفوں میں ہوگا جنہوں نے اس ناقابل یقین جنگ کو یقین میں تبدیل کر دیا ہے جس کی سوچ بلوچ کئی صدیوں سے لگاتے تھے۔ آج بھی بلوچ نوجوان کتابوں میں اس جنگ کو ڈھونڈ رہے ہیں، ان تھیوری میں نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور لالی جیسے ساتھی بولان، شور، جھالاوان کے پہاڑوں میں اس حقیقت کو عملی شکل میں ثابت کر رہے ہیں کہ دشمن کے خلاف ایک بہترین اور منظم جنگ کیسی ہوتی ہے۔ آج انہوں نے دشمن کی بزدلی، بے غیرتی، کم ظرفی کو ہمارے سامنے عیاں کر دیا ہے، لالی نے ثابت کر دیا ہے کہ بلوچ نوجوان اس صلاحیت سے محروم نہیں جو دشمن کو ان پہاڑوں میں خاک میں نہ ملا سکے البتہ ضرورت اس کی ہے کہ ہم عملی میدان میں ثابت کرے اور قصہ لالی کا حصہ بنیں جنہوں نے جنگ کو ایک نئی جدت اور شکل دی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔