اسرائیل-ایران تنازعہ اور بلوچستان پر ممکنہ اثرات
تحریر: جعفر قمبرانی
دی بلوچستان پوسٹ
اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پورے خطے، بالخصوص بلوچستان جیسے حساس اور اسٹریٹیجک خطے پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین پراکسی جنگ، میزائل حملے اور سفارتی محاذ آرائیاں ایک غیر یقینی اور پُرتشویش فضا کو جنم دے رہی ہیں، جس کے اثرات پاکستان کے جنوب مغربی علاقوں میں نمایاں طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
بلوچستان، جو ایران کے ساتھ سرحدی ربط رکھتا ہے، اپنی جغرافیائی اہمیت اور گوادر-چاہ بہار جیسے بین الاقوامی بندرگاہی منصوبوں کے باعث عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ اگر ایران میں عدم استحکام بڑھتا ہے، تو بلوچستان ممکنہ طور پر عسکری، انٹیلیجنس اور پراکسی سرگرمیوں کا اگلا ہدف بن سکتا ہے۔
اس کشیدگی کو سمجھنے کے لیے اسرائیل-ایران تنازعے کی بنیادوں کا جائزہ لینا ناگزیر ہے۔ ایران اور ترکیہ فلسطین کے حق میں واضح موقف رکھتے آئے ہیں جبکہ سعودی عرب اور پاکستان نے بیانات سے آگے بڑھ کر عملی حمایت کبھی نہیں کی۔ پاکستان نے تو اسرائیل جیسے ممالک کی سالمیت کو تسلیم کرکے واضح کردی ہے کہ وہ اس کی طاقت سے خوفزدہ ہے یا اس طاقت سے کسی بھی قسم کی فائدہ نا سہی نقصان سے بچنا چاہتی ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایران کی مزاحمتی پالیسی واضح ہے، جب کہ سعودی و پاکستانی پالیسی میں ، منافقت یا مصلحت اور خاموشی غالب رہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی بجا ہوگا کہ پاکستان میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کی کھلم کھلا حمایت امریکہ کو حاصل ہے جس کی واضح مثال حالیہ دنوں مذہبی جماعتوں کی امریکہ ڈے پر ان کی احترام میں ہاتھ باندھے کھڑے ہونا ہیں۔ اور یہاں یہ بات ناقابل فراموش ہے کہ یہی امریکہ اسرائیل کی حمایت میں کبھی بھی پس و پیش سے کام نہیں لیتی۔
اس کے ساتھ ایران کا جوہری پروگرام بھی اسرائیل، سعودی عرب، امریکا اور مغربی طاقتوں کے لیے ایک مسلسل خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کسی صورت ایران کو جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک کے طور پر قبول نہیں کرنا چاہتا۔
سعودی عرب کی ایران مخالف فرقہ وارانہ پالیسی اور پاکستان کی امریکا پر اقتصادی انحصاری اسے اسرائیل کے بیانیے کے قریب کرتی جا رہی ہے۔ ایسے میں بلوچستان، جو براہِ راست ایران سے متصل ہے، ممکنہ پراکسی میدانِ جنگ بن سکتا ہے۔
ممکنہ جنگ یا عدم استحکام کی صورت میں ایرانی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بلوچستان کا رخ کر سکتی ہے، جیسا کہ ماضی میں افغانستان کے تناظر میں ہوا۔ اس کے نتیجے میں مقامی وسائل پر شدید دباؤ، سماجی انتشار، سیکیورٹی چیلنجز اور بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
بلوچ مزاحمتی تحریکوں پر اس تنازعے کے ممکنہ اثرات بھی توجہ طلب ہیں۔ ایران اور پاکستان دونوں بلوچ تحریکوں کو کچلنے کے لیے طویل عرصے سے باہمی تعاون کرتے آئے ہیں۔ اگر ایران داخلی بحران میں الجھتا ہے، تو پاکستان اس موقع کو بلوچ مزاحمت پر مزید کریک ڈاؤن کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
الغرض۔ اسرائیل-ایران تنازعہ بلوچستان کے لیے ایک خاموش مگر تباہ کن طوفان بن سکتا ہے۔ عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور باشعور حلقے اس نازک صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور بلوچستان کو ایک اور بین الاقوامی جنگی کھیل کا میدان بننے سے روکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔