بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ ایک بار صحافی نے مجھ سے پوچھا کہ پورا پاکستان فوج کے ہاتھوں یرغمال ہے، پھر بلوچ باقی قوموں کے ساتھ مل کر کوئی تحریک کیوں نہیں چلاتے؟
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے مطابق میں نے انہیں جواب دیا کہ جب ہم بلوچ کوئی تحریک شروع کرتے ہیں تو کشتیاں جلا کر نکلتے ہیں۔ ہمارے پاس پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہمارے پیچھے وہ زندگی ہے جو موت سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔ ایسی زندگی جہاں روز جینے سے پہلے کئی بار مرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ باقی قوموں کے پاس واپسی کا راستہ ہوتا ہے، اس لیے ہمیں ڈر لگتا ہے کہ اگر ہم نے سب کے ساتھ مل کر تحریک چلائی، تو جب حالات سخت ہوں گے، باقی سب ہمیں تنہا چھوڑ جائیں گے۔”
ہمارے لیے زندگی کا مطلب ہی کچھ اور ہے۔ صبح اٹھو تو ایسی خبریں سامنے آتی ہیں جو دن بھر کے لیے دل کو سن کر دیتی ہیں۔ ایک معذور بلوچ لڑکی، جو بمشکل ہمت جوڑ کر تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے ،اسے آپ روز صبح یونیورسٹی جاتے دیکھیں تو دل دہل جاتا ہے۔ بس تک جانا، کلاسز لینا، اور ہاسٹل واپس آنا یہ سب اس کے لیے ایک جنگ ہے۔ اسے تو اس جدوجہد پر تمغہ ملنا چاہیے تھا، مگر وہ جبری طور پر لاپتہ کر دی گئی۔
انہوں نے کہاکہ یہ صرف ایک فرد کی نہیں، بلکہ بلوچوں کی اجتماعی زندگی کی کہانی ہے۔ درد، مزاحمت، اور ایک ایسی بقا کی جنگ جس کا انجام آج بھی دھند میں گم ہے۔