گوریلا جنگ — ایک غیر روایتی جنگی حکمت عملی ۔ مقصود مرید

125

گوریلا جنگ — ایک غیر روایتی جنگی حکمت عملی

تحریر: مقصود مرید
دی بلوچستان پوسٹ 

دنیا کی جنگی تاریخ میں ہمیشہ دو طرح کی لڑائیاں دیکھی گئی ہیں: ایک وہ جو باقاعدہ فوجوں کے درمیان میدانِ جنگ میں لڑی جاتی ہیں، اور دوسری وہ جو کمزور اور غیر منظم قوتیں طاقتور افواج کے خلاف چھاپہ مار کارروائیوں کی صورت میں لڑتی ہیں۔ اس دوسرے طرزِ جنگ کو “گوریلا جنگ” کہا جاتا ہے۔

گوریلا جنگ ایک غیر رسمی اور غیر روایتی جنگی طریقہ ہے جس میں چھوٹے، تربیت یافتہ یا نیم تربیت یافتہ گروہ ایک بڑی اور باقاعدہ فوج کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں۔ اس طرزِ جنگ میں براہِ راست محاذ آرائی کے بجائے چھوٹے حملے، گھات لگا کر وار، اور دشمن کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اسے تھکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گوریلا جنگ کا اصل مقصد دشمن کو فوری طور پر شکست دینا نہیں بلکہ اسے بتدریج کمزور کر کے شکست پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔

گوریلا جنگ کی ابتدا کا سراغ ہمیں 19ویں صدی کے یورپ میں ملتا ہے، جب اسپین کے عوام نے نپولین کی فوجوں کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں شروع کیں۔ اس وقت “گوریلا” (Guerrilla) کا مطلب “چھوٹی جنگ” لیا گیا، جو وقت کے ساتھ ایک مکمل جنگی حکمت عملی بن گئی۔

گوریلا جنگ کی چند اہم خصوصیات میں تیز رفتار نقل و حرکت، چھوٹے گروہوں کی کارروائیاں، مقامی زمین اور ماحول کا بھرپور استعمال، عوام کی حمایت، اور دشمن کو معاشی و نفسیاتی طور پر کمزور کرنا شامل ہیں۔ گوریلا جنگ کے جنگجو اکثر عام شہریوں جیسے دکھائی دیتے ہیں، اور شہری علاقوں، پہاڑوں، یا جنگلات میں چھپ کر حملے کرتے ہیں۔ وہ دشمن کے فوجی قافلوں، تنصیبات، اور سپلائی لائنز کو نشانہ بناتے ہیں۔

تاریخ میں کئی مشہور مثالیں گوریلا جنگ کی کامیابی کی گواہ ہیں۔
ویت نام کی جنگ میں ویت کانگ نے امریکی افواج کو اسی حکمت عملی سے ناکوں چنے چبوا دیے۔ الجزائر میں فرانسیسی قابض حکومت کے خلاف عوامی گوریلا تحریک نے آزادی کی راہ ہموار کی۔ افغانستان میں 1979 سے 1989 تک سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین نے گوریلا جنگ کی جو ایک عالمی تاریخ کا اہم باب بن چکی ہے۔

تاہم، گوریلا جنگ کے اپنے نقصانات بھی ہیں۔ چونکہ جنگجو عام شہریوں میں چھپے ہوتے ہیں، اس لیے اکثر بے گناہ شہری بھی جنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس طرزِ جنگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اور جنگ کی طوالت سے معیشت، تعلیم، صحت اور معاشرتی ڈھانچہ تباہ ہو جاتا ہے۔

گوریلا جنگ صرف ایک فوجی حکمت عملی نہیں بلکہ ایک سیاسی و سماجی تحریک بھی ہو سکتی ہے۔ اس میں عوام کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ جب عوام ایک تحریک کے مقصد کو جائز سمجھتے ہیں، تو وہ گوریلا جنگجوؤں کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ایسی تحریکیں آزادی، خود مختاری یا انصاف کے لیے اٹھتی ہیں۔

گوریلا جنگ طاقتور دشمن کے خلاف کمزور کی مزاحمت کا نام ہے۔ یہ طرزِ جنگ وقت، جذبہ، اور مقامی حمایت پر انحصار کرتی ہے۔ اگرچہ یہ جنگ روایتی معنوں میں نہیں لڑی جاتی، مگر اس کے اثرات اکثر روایتی جنگوں سے زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ گوریلا جنگ، اگر عزم، جدوجہد اور عوامی حمایت سے لڑی جائے، تو بڑی سے بڑی طاقت کو بھی جھکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں