گوادر پورٹ کی آمدنی پر چین کا کنٹرول، بلوچستان مکمل طور پر محروم

64

گوادر پورٹ کے مالیاتی انتظامات سے متعلق حالیہ انکشافات نے بلوچستان میں معاشی استحصال کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

سرکاری دستاویزات اور سینیٹ میں پیش کی گئی معلومات کے مطابق بلوچستان کے گوادر پورٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 91 فیصد حصہ چینی کمپنی “چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی” (COPHC) کو جاتا ہے۔

دستاویزات کے مطابق باقی 9 فیصد وفاق پاکستانی کو ملتا ہے اور اس میں بلوچستان کا کوئی براہ راست حصہ شامل نہیں۔

یہ معاہدہ “بلڈ، آپریٹ اینڈ ٹرانسفر” (BOT) ماڈل کے تحت 40 سال کے لیے طے پایا ہے جس کے دوران چینی کمپنی پورٹ کی تعمیر، آپریشن اور تجارتی سرگرمیوں کی مالک ہو گی۔

معاہدے کے مطابق گوادر پورٹ کی ملکیت 40 سال بعد پاکستان کو منتقل تو ہوگی لیکن اس عرصے میں بلوچستان حکومت کو آمدنی یا عمل دخل کا کوئی حق حاصل نہیں۔

گوادر فری زون سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 85 فیصد حصہ بھی چینی کمپنی کو جاتا ہے جبکہ گوادر پورٹ اتھارٹی کو صرف 15 فیصد حصہ ملتا ہے تاہم اس 15 فیصد میں بھی بلوچستان حکومت یا مقامی بلدیاتی ادارے شریک نہیں۔

مقامی رہنماؤں اور سماجی کارکنوں نے اس معاہدے کو ایک ایسے ماڈل کی علامت قرار دیا ہے جو مقامی وسائل کو بیرونی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے مگر ان وسائل کی اصل مالک بلوچ آبادی کو مکمل طور پر نظرانداز کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ گوادر بندرگاہ کے نام پر ترقی ملازمتوں اور سہولیات کے جو وعدے کیے گئے تھے وہ آج تک پورے نہیں ہوئے جبکہ فوجی چوکیاں جبری گمشدگیاں اور پابندیاں عام ہوچکی ہیں۔

بلوچستان میں ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ معاشی استحصال نے عوامی ناراضی اور بداعتمادی کو شدید کردیا ہے، گوادر پورٹ کے مالیاتی انتظامات پر سوالات بڑھتے جا رہے ہیں اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ بلوچستان کو اس منصوبے سے آئینی سیاسی اور مالی طور پر بااختیار کیا جائے۔

واضح رہے کہ یہ صورتحال بلوچستان میں جاری سیاسی و معاشی بحران کو مزید شدت دے رہی ہے، جہاں مقامی آبادی طویل عرصے سے اپنے وسائل، شناخت اور مستقبل کے تحفظ کے لیے مزاحمت کررہی ہے۔

بلوچ آزادی پسند حلقوں میں جہاں سیاسی تنظیمیں گوادر میں جاری چینی منصوبوں کو استحصالی قرار دے کر ان کی مخالفت کررہی ہیں وہیں آزادی پسند مسلح تنظیمیں ان منصوبوں اور ان سے منسلک چینی، پاکستانی اور دیگر غیر ملکی افراد کو نشانہ بنا رہی ہیں۔

بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے بلوچستان سمیت کراچی میں متعدد بار چینی انجینئرز، حکام اور کمپنیوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، یہ حملے بی ایل اے کے فدائی ونگ مجید برگیڈ کی جانب سے کیئے گئے ہیں، جن میں چینی شہری ہلاک و زخمی ہوئے ہیں، بی ایل اے ان منصوبوں کو بلوچ عوام کی مرضی کے خلاف قرار دیتے ہوئے ان کے خاتمے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔

مقامی رہنماؤں، ماہرین اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ گوادر بندرگاہ جیسے منصوبوں سے حاصل ہونے والے فوائد بیرونی اداروں تک محدود ہیں جبکہ بلوچستان کے عوام بنیادی سہولیات، روزگار اور ترقی سے محروم ہیں سیکیورٹی سختیوں، جبری گمشدگیوں اور فوجی چوکیاں اس بداعتمادی کو مزید بڑھارہی ہیں۔