بلوچ یکجہتی کمیٹی نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ دو مہینوں سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں، کارکنوں اور ہمدردوں کے کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، جس میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سمیت سینکڑوں افراد کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ زہیر بلوچ کو، جو 75 سال سے زائد عمر کے ہیں، عیدالفطر کے روز کوئٹہ میں جبری گمشدہ افراد کے اہلِ خانہ کے ایک پُرامن احتجاج میں شرکت اور اظہارِ یکجہتی پر گرفتار کیا گیا۔ ان پر “تھری ایم پی او” جیسے متنازع اور غیر آئینی قانون کے تحت مقدمہ بنا کر انہیں قید میں رکھا گیا ہے، حالانکہ ان کی عمر، طبیعت، اور کردار کسی بھی طرح ایسی حراست کے قابل نہیں۔
انہوں نے کہاکہ زہیر بلوچ کی صحت روز بہ روز بگڑ رہی ہے۔ انہیں دو مرتبہ اسپتال لے جانے کی نوبت آ چکی ہے، اور گزشتہ شب جیل میں اچانک گرنے کے باعث ان کی حالت خطرناک حد تک نازک ہو گئی ہے۔ جیل حکام کی جانب سے اسپتال منتقلی کی سفارش کے باوجود، کمشنر کوئٹہ اور ڈی سی کوئٹہ نے مطلوبہ اجازت دینے سے انکار کر دیا، جس کے باعث زہیر بلوچ تاحال جیل میں بغیر مناسب طبی امداد کے موجود ہیں۔
مزید کہا ہےکہ یہ صورتحال نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ ریاست پاکستان کے بلوچ عوام کے ساتھ واضح نفرت کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر زہیر بلوچ کو کچھ ہوا، تو اسے کسی طور “قدرتی موت” یا “حادثہ” نہیں سمجھا جا سکتا — یہ ایک واضح مجرمانہ غفلت اور حکومتی نااہلی کا نتیجہ ہوگا، جس کی مکمل ذمہ داری کمشنر کوئٹہ، ڈی سی کوئٹہ، نام نہاد صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں پر عائد ہوگی۔
بیان میں کہا ہےکہ ہم انسانی حقوق کے تمام مقامی و بین الاقوامی اداروں، میڈیا، سول سوسائٹی اور قانون کے علمبرداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور آئین، قانون، اور انسانی شرافت کا ساتھ دیں۔