کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کا احتجاجی کیمپ مسلسل جاری ہے۔ اتوار کے روز کیمپ کو 5839 دن (یعنی 15 سال، 11 مہینے، اور 24 دن) مکمل ہو چکے ہیں۔ کیمپ کی قیادت وی بی ایم پی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن نیاز نیچاری کر رہے ہیں۔
ہفتے کے روز جبری لاپتہ نوجوان نعمت اللہ بلوچ کی والدہ کیمپ میں آئیں اور اپنے بیٹے کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ نعمت اللہ کو 8 دسمبر 2016 کو شال سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، اور ان کی گمشدگی کو 8 سال، 5 مہینے سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، لیکن وہ اب تک جبری لاپتہ ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ نے مختلف سرکاری اداروں اور جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن میں درخواستیں جمع کروائی ہیں، لیکن انہیں آج تک انصاف نہیں مل سکا۔
وی بی ایم پی نے نعمت اللہ بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
تنظیم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ مسلسل بڑھ رہا ہے، اور انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں ہو رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں مشکے میں معروف صحافی عبدالطیف بلوچ کو ان کے گھر میں گھس کر قتل کر دیا گیا۔ ان کے خاندان کو ماضی میں بھی تشدد کا سامنا رہا ہے۔ ان کا بہیمانہ قتل ریاستی اداروں پر سنگین سوالات کھڑا کرتا ہے، کیونکہ ان پر نہتے شہریوں کے خلاف تشدد اور قتل کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف گزشتہ دو دنوں میں 12 سے زائد افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے، اور اس عمل میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے گرفتاریوں اور دورانِ حراست قتل کے واقعات ایک معمول بن چکے ہیں۔ ریاستی ادارے ماورائے عدالت کارروائیوں میں بے خوف ہو چکے ہیں، جبکہ عدالتیں مظلوموں کو انصاف دینے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔
جو افراد ان مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، انہیں بھی تشدد اور اجتماعی سزا کا سامنا ہے۔ اس کی نمایاں مثال ننھی انسانی حقوق کی کارکن فاطمہ بلوچ ہیں، جن کے نوجوان بھائی ایمل بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ فاطمہ، اپنی کم عمری کے باوجود، جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک مضبوط آواز بن چکی ہیں۔