کامیاب جنگجو ۔ سردار خان بلوچ

152

کامیاب جنگجو

تحریر: سردار خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

جنگ محض تلواروں کا تصادم یا نظریات کا ٹکراؤ نہیں ہوتی، یہ ایک ہمہ گیر، بے رحم قوت ہے جو میدانِ جنگ سے کہیں آگے بڑھ کر انسانی وجود کی گہرائیوں تک سرایت کر جاتی ہے، اس کے شعور، اس کے وقت، اور اس کے کل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جنگ، درحقیقت، ایک لاہوتی آزمائش ہے جو انسان کو یا تو مکمل فنا کر دیتی ہے، یا اُسے اس کی اصل حقیقت سے روشناس کراتی ہے۔ یہ امن کی زبان نہیں بولتی، نہ ہی مفاہمت کی حدود کو تسلیم کرتی ہے۔
جنگ محض قوت کا مطالبہ نہیں کرتی، یہ انسان کی اصل کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ روح کو اس کی بنیاد سے جدا کر کے اپنے رنگ میں ڈھالتی ہے۔ جنگ ہمارے ہونے کو ہم سے چھین لیتی ہے اور ہمہیں اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالتی ہے۔ جو اس دہلیز پر قدم رکھے، اُسے جان لینا چاہیے کہ “میں” اور “میرا” محض لفظ بن جاتے ہیں، حقیقت صرف “ہم” اور “ہدف” میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جنگ میں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے، یا تو ہم مکمل طور پر اس میں ضم ہو جاتے ہیں، یا سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔
جنگ ایک پیاسی دیوی ہے، جو صرف خون سے سیراب ہوتی ہے۔ یہ زمین کو چیرتی ہے، جسموں کو کچلتی ہے، اور روح کو اپنے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ ان جنگی تاریکیوں میں، کامیاب اور طاقتور جنگجو وہ نہیں جو بغیر سوچے سمجھے کسی طے شدہ راہ پر چلتا ہے، یا اندھی تقلید میں احکام کی پیروی کرتا ہے۔ بلکہ ایک سچا، قوی اور کامیاب جنگجو وہی ہے جو سب سے پہلے اپنی ذات کی جنگ جیت چکا ہو، جو اپنی انا، اپنے خوف، اور اپنے فریبِ نفس کو زیر کر چکا ہو۔ وہ وفادار اور ایماندار ہوتا ہے، لیکن اندھا نہیں، وہ تابع ہوتا ہے، مگر بے شعور نہیں۔ اس کا اخلاص نعرہ نہیں، فہم کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کا ہتھیار اُس وقت تک بےکار ہے جب تک وہ دل و دماغ کی روشنی سے منور نہ ہو۔ وہ جنگجو حقیقتاً کامیاب ہے جو شعور اور جنگی اور انقلابی اصولوں کی روشنی میں دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے، غور و فکر کرتا ہے، اور اپنی بیدار عقل کے مطابق عمل کرتا ہے۔

کامیاب جنگجو صرف بہادر نہیں ہوتا، نہ ہی محض قربانی کے لیے تیار ہوتا ہے، کسی بیرونی دشمن سے پہلے، وہ اپنے اندر کے خوف، شک اور کمزوریوں کا سامنا کرتا ہے۔ اسی داخلی معرکے کے ذریعے وہ اپنے اندر وہ قوت پیدا کرتا ہے جو اسے دنیا کے سامنے ثابت قدمی اور واضح مقصد کے ساتھ کھڑا کرتی ہے۔
وہ اپنی روح کے ساتھ ایماندار اور اپنے مقصد کے ساتھ وفادار ہوتا ہے۔ ہتھیار اٹھانے سے پہلے، وہ سچائی، اخلاص اور وابستگی کے نور سے منور ہوتا ہے۔ اس کی طاقت صرف اس کے بازوؤں میں نہیں، بلکہ اس کی بصیرت میں ہوتی ہے، وہ حکمت جس سے وہ ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتا ہے۔

ایک حقیقی اور کامیاب جنگجو نظم و ضبط کا پیکر ہوتا ہے، نہ صرف ذاتی ریاضت سے، بلکہ اس اجتماعی نظام سے وفاداری کے ذریعے جس کا وہ حصہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے ذہن و فہم کو علم اور غور و فکر سے سنوارتا ہے، جنگ کے اصولوں میں مہارت حاصل کرتا ہے، اور جانتا ہے کہ حقیقی ترقی اندھی فتح میں نہیں، بلکہ ہر معرکے سے حاصل ہونے والی دانش میں ہے۔ وہ ہر عمل کو بغور دیکھتا ہے، اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں دونوں کا تجزیہ کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہر تجربہ چاہے وہ کامیابی کا ہو یا شکست کا سیکھنے کا ایک موقع ہے۔ وہ غلطیوں سے خائف نہیں ہوتا، بلکہ انہیں اپنے فن کو نکھارنے کا زینہ بناتا ہے۔ یہی مسلسل خود کو بہتر بنانے کا عمل ہے جو اسے صرف بیرونی جنگ میں نہیں، بلکہ اپنی ذات کے معرکے میں بھی پختہ بناتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جنگ کے فیصلے صرف بارود سے نہیں، تدبیر سے ہوتے ہیں، اور جنگیں انقلابی اصولوں، اور اس حکمتِ عملی کی گہری سمجھ سے جیتی جاتی ہیں جو جنگ کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ اسے شعور ہوتا ہے کہ ہر معرکہ نظریاتی پس منظر رکھتا ہے، ہر ہزیمت سیاسی نارسائی کی علامت ہے، اور ہر فتح کسی فکری بالیدگی کی دلیل۔

کامیاب جنگجو صرف لڑتا نہیں، وہ تعمیر کرتا ہے۔ وہ اپنی تنظیم اور تحریک کی بنیادوں کو مضبوط بناتا ہے، اس کے ڈھانچے کو سنوارتا ہے، وہ لڑاکا بھی ہوتا ہے اور معمار بھی۔ وہj تنظیم کے ہر گوشے کو مضبوط کرتا ہے، اس کے نظم و ضبط کو سنوارتا ہے، اور ہر ممکنہ آزمائش کے لیے اپنے قافلے کو تیار رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میدان میں طاقتور وہی ہوتا ہے جس کی پشت پر ایک مضبوط ادارہ ہو، جس کی ہر اکائی باخبر، باصلاحیت اور بااختیار ہو۔ انہیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کامیابی صرف دشمن کو زیر کرنے میں نہیں، بلکہ اس تحریک کی قوت میں ہے، اس کی مظبوط جڑوں میں، اس کے منظم نظم و ضبط میں، اور اس کے سپاہیوں کی فکری، عملی، اور نظری تربیت میں ہے۔

کامیاب جنگجو وہ نہیں جو صرف ہتھیاروں کے شور میں اپنی طاقت آزماتا ہے، کامیاب جنگجو ان لمحوں کی زبان سمجھتا ہے جنہیں عام نگاہیں نظرانداز کر دیتی ہیں۔ وہ ہر خاموشی میں پیغام، ہر ٹھہراؤ میں چال، اور دشمن کی تکبر میں کمزوری کو پہچان لیتا ہے۔ جنگ ایک پرآشوب صحرا ہے، جہاں سراب ہوتے ہیں، اور یہاں وہی نجات پاتا ہے جو ان سرابوں کے بیچ سے راستہ تراشتا ہے، وہی کامیاب ہوتا ہے جو حقیقت کو فریب سے اور حرکت کو جمود سے جدا کر سکتا ہے۔ طاقت اگرچہ ظاہر میں ہے، مگر بصیرت اصل جوہر ہے۔ جنگ محض تشدد کا عمل نہیں، یہ صبر، بصیرت، اور وقت شناسی کا امتحان ہے۔

جنگ صرف خون بہانے کا عمل نہیں، بلکہ وقت شناس ہونے کی مہارت ہے۔ سچا جنگجو وہی ہے جو جانتا ہو کہ کب خاموش رہنا ہے، کب صرف دیکھنا ہے، اور کب ایک ہی وار پوری جنگ کا نقشہ بدل دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہر لمحہ حملے کے لائق نہیں، لیکن کچھ لمحے ایسے ضرور ہوتے ہیں جہاں ایک ضرب تقدیر کو بدل دیتی ہے۔ یہی ہے ایک کامیاب جنگجو کی مہارت، وہ اپنی قوت کو وقت کی حکمت سے باندھتا ہے۔ وہ عقاب کی مانند ہے، خاموش، بلند، اور متحرک۔ وہ بلندی سے دیکھتا ہے، وقت کے بہاؤ کو سمجھتا ہے، وہ وقت کے دھارے کو اپنی نگاہ سے چیرتا ہے، موقع کی تہہ میں چھپے امکان کو پہچانتا ہے، اور جیسے ہی موقع ڈگمگاتا ہے، وہ بجلی کی طرح لپکتا ہے۔ اس کے نزدیک جنگ میں تاخیر شکست ہے، اور جلد بازی بربادی۔ حقیقی فاتح وہی ہے جو جرات کو فہم کے ساتھ، اور صبر کو اور مقصد کے ساتھ جوڑتا ہے۔ کیونکہ جنگ دراصل عقل و ارادے کے درمیان ایک نازک پل ہے، جس کا ہر قدم فنا یا بقا کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اور کامیاب جنگجو وہی ہے جو اس پل کو بصیرت کی روشنی، عزم کی قوت، اور مقصد کی حرارت کے ساتھ عبور کرتا ہے، ایسا جنگجو، جس کا نورِ یقین کسی اندھیرے میں ماند نہیں پڑتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں