ریاستی تھری ایم پی او کے تحت زیر حراست بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ماہ رنگ بلوچ نے پاکستانی فوجی ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے ان پر عائد کئے گئے الزامات کے جواب میں جیل سے ایک بیان جاری کی ہے، جوا نکے سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر شائع ہوا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے گزشتہ روز پاکستانی فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف نے ایک بار پھر مجھ پر دہشتگردوں کی “نمائندہ” ہونے کا الزام عائد کیا، یہ ایک سنگین اور بار بار دہرایا جانے والا الزام ہے جس کے حق میں آج تک کوئی قابل اعتبار ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق بغیر کسی ثبوت کے الزامات لگانا ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیانات کا ایک خطرناک معمول بنتا جارہا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا میری اس دن کے پریس کانفرنس کو جان بوجھ کر مسخ کیا گیا جھوٹے بیانیے کے ذریعے میرے مؤقف کو توڑا مروڑا گیا مارچ میں ہونے والی میری پریس کانفرنس میں میں نے کسی قسم کے تشدد کی حمایت نہیں کی میرا واحد مطالبہ شفافیت تھا۔
انہوں نے کہا میں نے اُن نامعلوم لاشوں کی شناخت کا مطالبہ کیا تھا جو بارہ شناخت شدہ حملہ آورو کے علاوہ تھے اور جنہیں رات کی تاریکی میں کوئٹہ کے قسی قبرستان میں دفن کیا گیا، ان لاشوں کی شناخت ضروری ہے اور ان کے خاندانوں کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ ان کے پیاروں کا انجام کیا ہوا، یہ نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی مطالبہ بھی ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے میں تسلیم شدہ ہے۔
بی وائی سی کے زیر حراست رہنماء کا کہنا تھا برسوں سے بلوچستان میں ایک ہولناک طریقہ کار اپنایا جا رہا ہے کسی بھی پرتشدد واقعے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کو قتل کر کے خاموشی سے دفن کر دیتے ہیں اور پھر انہیں “عسکریت پسند” قرار دے دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا جعفر ایکسپریس واقعے میں ذمہ دار مسلح گروہ نے خود اپنے بارہ افراد کے نام، تصاویر اور تفصیلات جاری کیں اس کے باوجود کوئٹہ کے سول ہسپتال میں دو درجن سے زائد لاشیں لائی گئیں میرا سوال تھا باقی کون تھے؟ اور انہیں خفیہ طور پر کیوں دفنایا گیا؟
ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ میں ایک بار پھر ڈی جی آئی ایس پی آر کے حالیہ الزامات کے جواب میں پوچھتی ہوں ثبوت کہاں ہے؟ اگر پاکستان کے خفیہ اور عسکری ادارے واقعی اتنے قابل ہیں جتنا وہ دعویٰ کرتے ہیں تو میرے خلاف آج تک کوئی ثبوت کیوں پیش نہیں کیا گیا؟
انکا کہنا تھا میری جدوجہد پرامن، اصولوں پر مبنی اور عالمی انسانی حقوق کی اقدار میں جڑی ہوئی ہے میں نے ہمیشہ تشدد کی مذمت کی ہے چاہے وہ ریاست کے ہاتھوں ہو یا غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں مگر آج کا بلوچستان ایک ایسا منظرنامہ بن چکا ہے جہاں منظم جبر جبری گمشدگیاں اور انصاف و احتساب کا مکمل فقدان ہے ان حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے ریاست ان افراد کو بدنام کرتی ہے جو سچ بولنے کی جرات رکھتے ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ نے اپنے بیان کے آخر میں کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے بلوچستان کے عوام کو انصاف چاہیے جھوٹے پروپیگنڈے نہیں انہیں سوالات کے جوابات چاہئیں، دھمکیاں نہیں اور سب سے بڑھ کر انہیں بے خوف زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔