بلوچستان ہائیکورٹ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گل زادی بلوچ، شاہ جی صبغت اللہ، بیبرگ بلوچ اور غفار بلوچ کی تھری ایم پی او کے تحت نظر بندی کے خلاف دائر آئینی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے تمام اپیلیں مسترد کردیں اور حکومت کی جانب سے ان رہنماؤں کو زیر حراست رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔
یہ فیصلہ عدالت عالیہ کے دو رکنی بینچ چیف جسٹس اعجاز سواتی اور جسٹس عامر رانا نے سنایا جو ایک ہفتے سے زائد عرصے سے محفوظ کیا گیا تھا۔
اس موقع پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ نے عدالتی فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا آج بلوچستان ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے ڈاکٹر ماہ رنگ اور بی وائی سی قیادت کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی، دو ماہ سے زائد سماعتوں اور دس دن تک فیصلے کے محفوظ رہنے کے بعد اس فیصلے نے عدالتی عمل کی شفافیت اور دیانتداری پر سنگین سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
عمران بلوچ جو اس کیس میں تھری ایم پی اور کے تحت قیدیوں بی وائی سی قیادت کے وکیل ہیں نے کہا آج 22 مئی 2025 کو بلوچستان ہائیکورٹ کے بینچ نمبر ایک نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ و دیگر کی تھری ایم پی او پٹیشن پر فیصلہ سنایا جس میں تمام درخواست گزاروں کی درخواستیں خارج کردی گئیں۔”
معروف انسانی حقوق کی وکیل ایمان مزاری نے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا یہ فیصلہ متوقع تھا پچھلے عدالتی حکم کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بی وائی سی کے دیگر رہنماؤں کو بغیر کسی معقول وجہ کے ان کی آزادی سے محروم رکھا گیا ہے عدالتِ عالیہ جو بنیادی حقوق کی محافظ ہونی چاہیے خود ہی انتظامیہ کی جانب سے ان کی خلاف ورزی کی سہولت کار بن گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا ریاستی ادارے اختلاف رائے کو کچلنے اور پرامن مزاحمت کو سزا دینے کے لیے پوری قوت استعمال کررہے ہیں جب عوام کو ناامیدی بے بسی اور ریاستی قانون شکنی کا سامنا ہوتا ہے تو نتیجہ صرف انارکی ہی ہوسکتا ہے۔
ایمان مزاری نے عدالت سے سوال کیا ہے کہ آخر کون ہے جو اس پاگل پن کو روکے گا؟
صحافی کیاء بلوچ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا بلوچستان ہائیکورٹ کا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر بی وائی سی رہنماؤں کی 3 ایم پی او نظر بندی کے خلاف درخواست مسترد کرنا ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ عدلیہ مظلوم کی پناہ گاہ نہیں بلکہ ریاستی جبر کا آلۂ کار بن چکی ہے یہاں عدالتیں انصاف نہیں، صرف طاقت کی توثیق کرتی ہیں۔
وکلاء کے مطابق بلوچستان ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے بعد قیدیوں کے قانونی نمائندگان کے پاس اب سپریم کورٹ میں اپیل کا راستہ باقی ہے واضح رہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو 3MPO کے تحت اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں اور ریاستی تشدد کے خلاف احتجاجی تحریک کی قیادت کررہے تھے۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے وکلاء اور صحافیوں کا مزید کہنا تھا کہ یہ عدالتی فیصلہ ان خدشات کو مزید تقویت دیتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی کارکنوں خاص طور پر بلوچ رہنماؤں کے خلاف عدالتی نظام حکومتی پالیسیوں کے تابع بن چکا ہے جو ملک میں انسانی حقوق اور آئینی آزادیوں کے لیے ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔