چُپا رستم بزنجو، نال اور امن فورس
تحریر: ہومر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سچائی، اگرچہ نرم، نازک اور بظاہر کمزور لگتی ہے، مگر اس کی جڑیں اتنی گہری اور مضبوط ہوتی ہیں کہ وقت کی کوئی آندھی اسے اکھاڑ نہیں سکتی۔ جھوٹ، منافقت، اور دغابازی وقتی طور پر شعلہ زن اور دلکش لگتے ہیں، لیکن وہ شعلے جلد ہی راکھ میں بدل جاتے ہیں۔ جس طرح اندھیرے میں اگر ایک چراغ جلایا جائے تو وہ پورے ماحول کو بدل دیتا ہے، اسی طرح سچ جب وقت پر اپنا چہرہ دکھاتا ہے تو جھوٹ کی تمام چالاکیاں بےنقاب ہو جاتی ہیں۔
نال اور گریشہ کے سنگلاخ پہاڑوں میں، ایک ایسا ہی سچ پل رہا ہے۔ یہاں کی فضا میں جدوجہد کی مہک ہے، اور زمین پر وہ نشان ہیں جو قربانی دینے والوں نے چھوڑے ہیں۔ انھی پہاڑوں کے دامن میں ایک ایسا “چُپا رستم” بیٹھا ہے—بزنجوں، جس نے برسوں نال کے نوجوانوں کے خوابوں، ان کے شعور اور ان کی سیاسی بیداری کو زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی۔
ایک زمانہ تھا، جب اسلم بزنجوں کی طاقت اپنے عروج پر تھی۔ وہ جب چاہتا، کسی کو صفحۂ ہستی سے اس طرح مٹا دیتا کہ کسی کو ہوا تک نہ لگتی۔ 2009 سے لیکر آج تک اس نے تعلیمی نظام کو نشانہ بنایا—نال اور گریشہ میں منشیات کو عام کیا، نال اور گریشہ کو ذہنی غلامی کی طرف دھکیلنے کی ایک گہری سازش کی گئی، تاکہ زاکر مجید یا زاہد کُرد جیسے نوجْوان رہنما دوبارہ پیدا نہ ہوں۔ تعلیم کو یرغمال بنانا صرف ایک حربہ نہ تھا، بلکہ پورے علاقے کی سیاسی سانس روکنے کی کوشش تھی۔ وہ اس میں کچھ حد تک کامیاب رہا، مگر تاریخ کی راہیں ہمیشہ سیدھی نہیں ہوتیں۔
زاکر مجید کے لاپتہ ہونے کے بعد، فرزانہ مجید ایک نیا استعارہ بن کر ابھری—جو ظالم سرداری نظام کیلئے زاکر سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئی۔ بزنجوں اسکوائیڈ کی بلیک میلنگ اور دہشت کی سیاست نے نال اور گریشہ پر خوف کا پردہ تان دیا، لیکن ہر اندھیرے کا اختتام ہوتا ہے، ہر جبر کا ایک زوال۔
جب گریشہ بزنجوں کے شکنجے سے بچ گیا تو 2013 کے بعد وہاں فوجی آپریشنز شروع کروائے گئے۔ علاقے کو نو گو ایریا قرار دیا گیا، نوجوان اٹھائے گئے، کچھ شہید کیے گئے، لیکن بزنجوں کی گرفت کمزور پڑ گئی۔ 2018 کے الیکشن میں شکست نے بزنجوں کی حقیقت کو برہنہ کر دیا۔
اب جب سچ اپنی جگہ بنانے لگا تو وہی بزنجوں، جو کل تک خود کو طاقت کا محور سمجھتا تھا، “امن فورس” کے نام پر بدمعاشی کی ایک نئی شکل سامنے لایا۔ یہ امن نہیں، یہ بزنجوں اسکوائیڈ کا نیا روپ ہے، جو نال اور گریشہ میں قتل، ڈکیتی، اور خوف کا نیا بازار گرم کر رہا ہے۔ یہ وہی فورس ہے جس نے حالیہ دنوں میں شریف شہزاد، شاہ جان اور احسان کو شہید کیا۔ اس “امن” کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ سردار اپنے راستے کے کانٹے صاف کرے اور عوام پر دوبارہ اپنی رٹ قائم کرے۔
لیکن وقت بدل چکا ہے۔ نال اب بزنجوں کیلئے ایک خطرہ بن چکا ہے، جو کل تک بزنجوں اسکوائیڈ نال کیلئے خطرہ تھا۔ یہ تبدیلی محض سیاسی نہیں، فکری ہے، نظریاتی ہے، جس کی بنیاد سنگت زاکرمجید، زاہد کُرد، شہید یوسف جان، شہید بابرمجید اور سنگت رفیق جیسے لوگوں نے رکھی۔ بزنجوں کی یہ بدمعاش فورس دراصل اس شکست کا اعتراف ہے کہ سچ نے جھوٹ کو پسپا کر دیا ہے۔
نال کے نوجوان اب شعور کی روشنی میں قدم رکھ چکے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ بزنجوں کون ہے اور اس کی چالاکیاں کہاں تک جا سکتی ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو باہر پڑھنے کے لیے بھیج دیا، تعلیم کو اپنا ہتھیار بنایا۔ مگر کچھ نوجوان، کھیلوں کے بہانے، شاہ میر بزنجوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ کھیل نہیں، یہ نال کی سیاسی فضا کو پراگندہ کرنے کا ایک نیا ہتھیار ہے۔
آج بزنجوں اسکوائیڈ کی بےبسی خود بول رہی ہے۔ “امن فورس” کی شکل میں سرداری جبر اپنی کمزوری کا اعلان کر رہا ہے۔ اب نال خاموش نہیں رہے گا، کیونکہ اب نال کا ہر فرد چیئرمین زاکر مجید، چیئرمین زاہد کُرد، شہید یوسف جان،اور شہید بابرمجید ہے ہر آنکھ ایک فرزانہ مجید کی طرح بیدار ہے، ہر قدم ایک شہید بابرمجید کی راہ پر ہے۔
آج بزنجوں اسکواڈ، چیئرمین زاکر مجید اور زاہد کُرد کی نظریہ، جدوجہد اور سچائی کے سامنے اپنی بے بسی کو قبول کررہا ہے، وہ اب یہ ماں چُکا ہے کہ نظریہ، فکر اور سچائی کو قید نہیں کیا جاسکتا، آج بزنجون اسکوائیڈ نال و گریشہ کے عوام کے سامنے جھکی ہوئی آواز میں اپنی شکست کا اعلان کر رہا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ایک باطل بیانیہ، ایک مصنوعی طاقت، عوامی شعور کے سامنے ڈھیر ہو رہا ہے۔
بزنجوں نے آج خود مان لیا ہے کہ اقتدار کا سرچشمہ نہ ریاست ہے، نہ اسٹبلشمنٹ—بلکہ وہ عوام ہیں، جن کے دلوں میں سچ بستا ہے اور جن کی رگوں میں مزاحمت کی تاریخ دوڑتی ہے۔
نال و گریشہ کے عوام کو چاہیئے کہ وہ پیرمرد اسلم بزنجوں کے ساتھ اس شکست کا جشن منائے، بلکہ نال و گریشہ کے نوجْوان اپنے نظریے کی سچائی کے اثبات کے طور پر منائیں۔ یہ ایک فرد کی کامیابی نہیں، یہ ایک سوچ، ایک نظریہ، ایک جدوجہد کی سرخروئی ہے۔
سچ کبھی جھکتا نہیں، وہ وقتی طور پر دھندلا ضرور ہو سکتا ہے، مگر وہی سچ کل کے سورج کی پہلی کرن بن کر ابھرتا ہے—اور یہ سچ آج نال و گریشہ کی فضاؤں میں گونج رہا ہے۔
نوٹ
نال اور گریشہ کے باضمیر عوام کو یہ بات دل و دماغ میں بٹھا لینی چاہیے کہ “امن فورس” کوئی نو زائیدہ عمل نہیں، بلکہ ایک پرانی رسی ہے جس میں نیا پھندا باندھا گیا ہے۔ جیسا کہ نکولو میکیاویلی کہتا ہے: ایک سیاستدان کو شیر کی طاقت نہیں، لومڑی کی چالاکی بچاتی ہے۔ یہی چالاکی آج برنجْوان طبقات نے اوڑھ رکھی ہے—ایک امن پسند کے بھیس میں، طاقت کی پرانی پیاس لیے۔
یہ فورس، دراصل برنجوں سیاست کی نئی چال ہے—نال اور گریشہ میں اپنی کھوئی ہوئی حاکمیت کو دوبارہ قائم کرنے کا منصوبہ۔ نال میں چاہے میر صمد سمالانی ہو یا مجیب پندرانی، ان سب کی ڈوریں ایک ہی مرکز سے ہلتی ہیں۔ زاکر مجید کی والد صاحب شہید مجید صاحب سے لے کر آج تک یہاں جتنے مظلوم،غریب کی خون بہائے گئے ہیں ان سب کا زمہ دار ہے ، وہی آج “امن” کا نیا علم اٹھائے کھڑے ہیں،
ہائے بزنجوں یہ وقت وقت کی بات ہے،
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں