پاکستان 2024 میں دھماکا خیز ہتھیاروں سے متاثرہ ممالک میں 7ویں نمبر پر رہا، 92 فیصد بی ایل اے ذمہ دار – رپورٹ

144

برطانیہ میں قائم غیر سرکاری تنظیم ایکشن آن آرمڈ وائلنس (اے او اے وی) کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2024 میں پاکستان ان ممالک میں ساتویں نمبر پر رہا جہاں دھماکا خیز ہتھیاروں سے شہریوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 میں پاکستان میں 248 واقعات کے دوران 790 شہری متاثر ہوئے، جن میں 210 شہری ہلاک ہوئے، یہ اعداد و شمار 2023 کے مقابلے میں شہری ہلاکتوں میں 9 فیصد کمی کو ظاہر کرتے ہیں، تاہم واقعات کی تعداد میں 11 فیصد اضافہ ہوا جو 2023 میں 218 تھی۔

رپورٹ کا عنوان ’ایکشن آن آرمڈ وائلنس (اے او اے وی)‘ ہے اور اس میں 2024 میں دھماکہ خیز ہتھیاروں سے متاثر ہونے والے 15 سب سے زیادہ متاثرہ ممالک اور خطوں کی فہرست میں پاکستان کو 7ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کی اکثریت کا ذمہ دار غیر ریاستی عناصر کو ٹھہرایا گیا، جو 76 فیصد شہری متاثرین کے ذمہ دار قرار پائے۔

خاص طور پر، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے 2024 میں پاکستان میں 119 شہریوں کو ہلاک یا زخمی کیا، جو رپورٹ میں نمایاں طور پر درج کیا گیا ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی 2024 میں دھماکا خیز ہتھیاروں کے استعمال کرنے والے سب سے بڑے غیر ریاستی گروہوں میں شامل رہی اور شہریوں کو پہنچنے والے مجموعی نقصان میں 15 فیصد کی ذمہ دار قرار پائی، جو کہ 2023 میں ریکارڈ کیے گئے 22 واقعات کے مقابلے میں 440 فیصد اضافہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق نامعلوم غیر ریاستی عناصر 54 فیصد (423) شہریوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کا سبب بنے، یہ تعداد 2023 میں متاثر ہونے والے 541 شہریوں سے کم ہے۔

پاکستان میں ہونے والے تمام خودکش حملے غیر ریاستی عناصر کی جانب سے کیے گئے، ان میں بلوچ لبریشن آرمی نمایاں طور پر شامل ہے، جو کہ 2024 میں ہونے والے 9 خودکش حملوں میں سے صرف 2 فیصد واقعات کی ذمہ دار تھی، لیکن ان واقعات میں ہونے والے 89 فیصد (92) متاثرین کی ذمہ دار بی ایل اے ہی رہی۔

نامعلوم غیر ریاستی عناصر خودکش حملوں کے 6 فیصد (5) واقعات کے ذمہ دار ٹھہرے، جن کے نتیجے میں متاثر ہونے والے شہریوں کی شرح 11 فیصد رہی۔

2024 میں مجموعی طور پر پاکستان میں 2014 کے بعد دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات ریکارڈ کیے گئے جبکہ 2018 کے بعد شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے یہ سال دوسرے نمبر پر رہا جبکہ 2015 کے بعد گزشتہ سال مسلح عناصر کی ہلاکتوں کی دوسری سب سے زیادہ تعداد سامنے آئی۔