نت نئی زندگیاں جنمتی ہے جنگ – ثناء ثانی

75

نت نئی زندگیاں جنمتی ہے جنگ

تحریر: ثناء ثانی

دی بلوچستان پوسٹ

نت نئی زندگیاں جنمتی ہے جنگ، مگر یہ زندگیاں فقط سانسوں کی گردش نہیں ہوتیں، نہ ہی یہ محض وجود کا تسلسل ہیں۔ یہ وہ زندگیاں ہیں جو زنجیروں کی چھاؤں میں آنکھ کھولتی ہیں، جن کے کانوں میں پہلا نغمہ ماں کی لوری نہیں بلکہ گولیوں کی گرج ہوتی ہے، اور جن کی نیند میں خواب نہیں، بلکہ جدوجہد کے راستے ہوتے ہیں۔ یہ زندگیاں کسی معمول کی کوکھ سے نہیں، بلکہ مزاحمت کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ یہ وہ روحیں ہیں جن کے خمیر میں جبر سے انکار، ظلم سے بغاوت اور غلامی سے آزادی کا ولولہ شامل ہوتا ہے۔ ان کا پہلا لمس گولی کی تپش اور آخری خواب شہادت کی روشنی ہوتا ہے۔ جنگ، یوں تو ایک لفظ ہے، مگر اس کے اندر ہزاروں کائناتیں چھپی ہوتی ہیں۔ ان کائناتوں میں دکھ بھی ہوتے ہیں، قربانیاں بھی، مگر ان ہی کے درمیان وہ انقلابی روشنی بھی جنم لیتی ہے جو تاریخ کا دھارا موڑ دیتی ہے۔

جنگ کی گود میں ایک بچہ پلتا ہے، جو کل کا انقلابی بنتا ہے۔ وہ بچہ جو شاید آج مٹی میں کھیل رہا ہے، کل دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈالے گا۔ اس کی تربیت کسی اسکول میں نہیں، بلکہ میدانِ جدوجہد میں ہوتی ہے۔ اس کا استاد کوئی درسی کتاب نہیں، بلکہ وہ انقلابی ہوتا ہے جس نے جبر کے خلاف بندوق اٹھائی، جو پھانسی چڑھ گیا مگر جھکا نہیں۔ وہ بچہ انہی قدموں پر چلتا ہے، انہی نقشِ قدم کو اپنا مقدر سمجھتا ہے۔ ماں اس کی آنکھوں میں نیند نہیں، جدوجہد دیکھتی ہے۔ وہ لوریاں نہیں سناتی، بلکہ شہیدوں کے قصے سناتی ہے۔ وہ دعائیں نہیں کرتی کہ بیٹا بچ جائے، بلکہ فخر سے کہتی ہے: اگر موت آئے تو دشمن کی گولی سینے پہ لگے، پیٹھ پہ نہیں۔
پہاڑوں میں ایک نوجوان زندگی کی عام راہوں کو چھوڑ کر اس پگڈنڈی پر قدم رکھتا ہے جس کا اختتام یا تو شہادت ہے یا فتح۔ وہ جانتا ہے کہ یہ راستہ آسان نہیں، مگر وہ اپنے لوگوں، اپنی مٹی، اور اپنے خوابوں کے لیے یہ راستہ چنتا ہے۔ وہ ہر سانس میں مزاحمت کرتا ہے، ہر قدم پر دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر چلتا ہے۔ وہ زندگی کی مروجہ تعریفوں کو رد کر کے ایسی زندگی جیتا ہے جسے تاریخ سجدہ کرتی ہے۔ اس کی جیب میں کوئی دولت نہیں، مگر دل میں ایک انقلاب ہوتا ہے۔ اس کے کندھے پر بندوق ہوتی ہے، اور نظریہ اس کی گولیوں کا رخ متعین کرتا ہے۔

جنگ فقط موت نہیں، یہ ایک نئی زندگی ہے۔ یہ اس سوچ کا جنم ہے جو غلامی کے اندھیروں میں آزادی کی شمع جلاتی ہے۔ یہ اس لمحے کی تخلیق ہے جب ایک فرد اجتماعی شعور کا حصہ بنتا ہے۔ جب اس کے اندر میں ختم ہوتی ہے اور ہم جنم لیتا ہے۔ وہ فرد جو کل تک اپنے بچوں کی روزی کے لیے فکر مند تھا، اب پوری قوم کے مستقبل کے لیے بندوق اٹھاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر آج سر جھک گیا تو کل نسلیں غلام پیدا ہوں گی۔ اس لیے وہ خود کو قربان کر کے ایک نظریہ زندہ رکھتا ہے۔

جنگ وہ تجربہ ہے جو انسان کو ایک نئی آنکھ عطا کرتا ہے وہ آنکھ جو سچ کو پہچانتی ہے، جو جبر کے خوشنما چہروں کے پیچھے چھپے سچ کو دیکھ سکتی ہے۔ وہ آنکھ جو سیاست کے جھوٹے وعدوں سے نہیں بہلتی، بلکہ حق کی تلاش میں اپنے ہی خون کی قیمت ادا کرنے سے نہیں ڈرتی۔ یہ جنگیں تاریخ میں ہمیشہ کسی لمحے نہیں، کسی جذبے سے شروع ہوتی ہیں وہ جذبہ جو کسی شہید کی قبر پر جلتا ہوا چراغ ہوتا ہے، جو کسی انقلابی کی آخری سانس میں گونجتا ہوا نعرہ ہوتا ہے۔

جب قومیں مرجھا جاتی ہیں، جب ان کے خواب شکست کھا چکے ہوتے ہیں، تب ایک آواز گونجتی ہے ایک بندوق چلتی ہے، اور جنگ شروع ہوتی ہے۔ اس جنگ کے ساتھ ہی امیدوں کے دروازے کھلتے ہیں، جو سوئے ہوئے ضمیر جگتے ہیں، اور غلامی سے نجات کی راہیں تراشی جاتی ہیں۔ یہ جنگ نہ صرف دشمن کو شکست دیتی ہے، بلکہ اپنے لوگوں میں آزادی کی تڑپ جگاتی ہے۔ یہ تڑپ ہی اصل زندگی ہے۔ یہ وہ زندگی ہے جو دنیا کی کسی لغت میں بیان نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ زندگی مادی وجود سے ماورا ہوتی ہے۔
شہیدوں کی لاشیں جب زمین پر گرتی ہیں تو وہ صرف جسم نہیں گراتے، وہ پوری استعماری عمارت کو ہلا دیتے ہیں۔ ان کی موت زندگی کی معراج بن جاتی ہے۔ ان کے خون سے جو پھول اگتے ہیں، وہ کسی فصل کا حصہ نہیں بنتے، بلکہ وہ انقلاب کی خوشبو بن کر فضاؤں میں بکھرتے ہیں۔ ان کے خواب زندہ رہتے ہیں، ان کی باتیں چراغ بنتی ہیں، اور ان کی سوچ نسلوں کی رگوں میں دوڑتی ہے۔ یہ وہ زندگیاں ہوتی ہیں جو تاریخ کے کسی کونے میں دفن نہیں ہوتیں، بلکہ ہر بغاوت، ہر نعرے، ہر نئی جنگ میں دوبارہ زندہ ہو جاتی ہیں۔
جنگ میں جو بچہ آنکھ کھولتا ہے، وہ تاریخ سے کٹے ہوئے کسی لمحے کا تسلسل نہیں ہوتا، وہ تاریخ کا نیا آغاز ہوتا ہے۔ اس کے وجود میں بغاوت کی صدا ہوتی ہے۔ اس کی خاموشی میں بھی وہ نعرہ چھپا ہوتا ہے جسے وقت آنے پر وہ پوری دنیا کے سامنے دہراتا ہے ہم آزاد پیدا ہوئے تھے، اور آزاد مریں گے! اس کا وجود ایک سوال بن جاتا ہے ایک ایسا سوال جس کا جواب دشمن کی پوری عسکری طاقت بھی نہ دے سکے۔

جنگ، بظاہر آگ اور خون کا کھیل، درحقیقت شعور کی روشنی کا وہ منبع ہے جہاں سے نئی سوچیں جنم لیتی ہیں۔ جن قوموں پر صدیوں سے زوال طاری ہوتا ہے، وہ جنگ کی کوکھ سے نئی زندگی حاصل کرتی ہیں۔ ان کی شکست خوردہ روحیں پھر سے جینا سیکھتی ہیں۔ وہ زنجیریں جو انہیں زمین سے باندھے رکھتی تھیں، ان کا وزن کم لگنے لگتا ہے کیونکہ اب ان کے دلوں میں جیت کی امید ہوتی ہے۔ یہی جنگ کا اصل حسن ہے کہ یہ نہ صرف قید توڑتی ہے بلکہ ذہن آزاد کرتی ہے، فکر کو جلا بخشتی ہے، اور نظریات کو آبیاری دیتی ہے۔

جنگ جب ایک بیٹے کو ماں کی آغوش سے چھینتی ہے، تو وہ ماں روتی نہیں، وہ شعلہ بن جاتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں ہوتے، بلکہ عزم کی چمک ہوتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کا بیٹا مٹی میں نہیں سویا، بلکہ تاریخ کے سینے میں جاگتا ہوا سچ بن چکا ہے۔ وہ بیٹا جو اب بندوق نہیں اٹھا سکتا، اُس کی ماں اب زبان کو بندوق بناتی ہے، الفاظ کو بارود بناتی ہے، اور اپنے ہر جملے سے دشمن کو للکارتی ہے۔ جنگ، عورت کو فقط بیوہ نہیں بناتی، بلکہ اُسے انقلابی شاعری کا پیکر بناتی ہے۔ وہ نوحہ نہیں لکھتی، حوصلے کے گیت گاتی ہے، اور آنے والی نسلوں کو سکھاتی ہے کہ بیٹوں کو صرف پالنا نہیں، نظریے کے لیے تیار کرنا ہے۔

جنگ جب شہروں سے پہاڑوں کی طرف بڑھتی ہے، تو زمین کے رنگ بدلنے لگتے ہیں۔ ہر چٹان ایک سپاہی کا انتظار کرتی ہے۔ ہر درخت اپنے سائے میں ایک انقلابی کو پناہ دیتا ہے۔ پہاڑ، جو صدیوں سے خاموش تھے، اب چیخنے لگتے ہیں۔ ان کی گونج میں نعرہءِ آزادی شامل ہوتا ہے۔ جنگ، زمین کی جغرافیائی ساخت نہیں بدلتی، بلکہ اس کے جذباتی خدوخال تبدیل کرتی ہے۔ مٹی جو کل تک سادہ تھی، اب لہو سے مقدس بن چکی ہوتی ہے۔ پانی جو کل تک پیاس بجھاتا تھا، اب شہیدوں کے زخم دھوتا ہے۔ یہ جنگ، زمین کو قوم میں، اور قوم کو تحریک میں ڈھال دیتی ہے۔

جنگ وہ لمحہ ہوتا ہے جب ایک شاعر کی زبان بدلتی ہے۔ وہ محبت کے ترانے نہیں لکھتا، وہ مزاحمت کی نظمیں تراشتا ہے۔ اس کا کلام اب صرف دل نہیں، ضمیر جھنجھوڑتا ہے۔ وہ ہر لفظ کو ایک گولی میں ڈھالتا ہے، اور ہر مصرعے سے ظلم کے قلعے ہلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے اشعار اب صرف کتابوں کے اوراق پر نہیں، دیواروں، جیلوں، اور پہاڑوں کی چٹانوں پر کندہ ہوتے ہیں۔ جنگ شاعری کو ہتھیار بناتی ہے، اور شاعر کو سپاہی۔

یہ زندگی جو جنگ سے جنم لیتی ہے، وہ عام زندگی نہیں ہوتی۔ یہ وہ زندگی ہے جو خوابوں سے آگے کا خواب ہوتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتی ہے جو تاریخ کے سینے میں دھڑکنے لگتی ہے۔ انقلابی، جب رات کی تاریکی میں دشمن کے محاصرے سے نکل کر صبح کی پہلی روشنی میں پہاڑ پر کھڑا ہوتا ہے، تو اس کے چہرے پر صرف تھکن نہیں، فتح کی جھلک ہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر آج وہ بچ گیا، تو کل کا سورج اس کے نظریے کی روشنی سے چمکے گا۔ اور اگر وہ نہ بچ سکا، تو اس کی شہادت ہزاروں دلوں میں بغاوت کی چنگاری بن کر زندہ رہے گی۔

جنگ میں جو شہید ہوتے ہیں، وہ کبھی مرتے نہیں۔ ان کی قبریں زمین میں نہیں، دلوں میں بنتی ہیں۔ ان کا خون مٹی میں جذب نہیں ہوتا، بلکہ قوم کی رگوں میں دوڑنے لگتا ہے۔ ان کی تصاویر صرف دیواروں پر نہیں، بلکہ ہر اُس آنکھ میں بسی ہوتی ہیں جو غلامی کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتی۔ جنگ وہ آئینہ ہے جس میں قومیں اپنا اصل چہرہ دیکھتی ہیں کہ وہ کتنی کمزور ہیں، یا کتنی عظیم۔ جنگ وہ سوال ہے جس کا جواب بندوق سے نہیں، نظریے سے دیا جاتا ہے۔ اور جب نظریہ مضبوط ہو، تو دشمن کی گولیاں بھی اُس جذبے کو مارنے میں ناکام رہتی ہیں۔

یہ زندگیاں جو جنگ سے پیدا ہوتی ہیں، وہ کسی سیاسی بیان یا تقریر سے متاثر نہیں ہوتیں۔ ان کی بنیاد شہیدوں کی خاموشی، قیدیوں کی تنہائی، اور ماں کے دل کی آگ ہوتی ہے۔ یہ زندگیاں دشمن کی جیلوں میں پروان چڑھتی ہیں، عقوبت خانوں میں جوان ہوتی ہیں، اور میدانِ جنگ میں پروان چڑھ کر تاریخ لکھتی ہیں۔ یہ وہ زندگیاں ہیں جو خواب نہیں دیکھتیں، بلکہ خود خواب بن جاتی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر آنے والی نسلیں سیکھتی ہیں کہ زندہ رہنا فقط سانس لینے کا نام نہیں، بلکہ نظریے کے لیے جینا، اور مر جانا، اصل زندگی ہے۔ یہ زندگیاں جو جنگ کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، ان کی پیدائش میں آنسو نہیں ہوتے، آگ ہوتی ہے۔ ان کے نصیب میں امن کی نیندیں نہیں، انقلاب کی بے چینی ہوتی ہے۔ یہ وہ وجود ہوتے ہیں جو بچپن میں کھلونوں سے نہیں، خالی کارتوسوں سے کھیلتے ہیں۔ جن کے خوابوں میں اسکول کی گھنٹیاں نہیں، پہاڑوں کی گونج ہوتی ہے۔ یہ زندگیاں کوئی معمولی حادثہ نہیں ہوتیں، یہ تاریخ کے کسی نہ کسی مقام پر اٹھنے والے سوال کا جواب ہوتی ہیں۔ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے، جب انصاف گونگا ہو جاتا ہے، جب زبان پر تالے اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی جاتی ہیں، تب یہ زندگیاں آگے بڑھتی ہیں لب کشا ہوتی ہیں، ہتھیار اٹھاتی ہیں، اور وہ کام کر جاتی ہیں جو صدیوں کی خاموشی نہ کر سکی۔

یہ جنگ جب کسی دریا کے کنارے پہنچتی ہے، تو وہ دریا اپنی روانی میں شور کے بجائے احتجاج کا لہجہ اپناتا ہے۔ جب کسی صحرا سے گزرتی ہے، تو ریت کی ہر ذرا میں شہیدوں کا لہو بولتا ہے۔ جب کسی شہر کے در و دیوار پر اپنے نقوش چھوڑتی ہے، تو دیواریں صرف اینٹ پتھر کی نہیں رہتیں، تاریخ کی کتابیں بن جاتی ہیں۔ ہر دیوار پر ایک چیخ، ہر گلی میں ایک نعرہ، ہر چھت پر ایک امید، اور ہر آنگن میں ایک شہید کا عکس ہوتا ہے۔ جنگ ہر جگہ کو معنی دیتی ہے، ہر وجود کو کردار، اور ہر لمحے کو تقدس۔

جب ایک انقلابی پہاڑ کی بلندیوں پر کھڑا ہوتا ہے، اور نیچے گرتی ہوئی بستیوں کو دیکھتا ہے، تو وہ فقط زمین کا منظر نہیں دیکھ رہا ہوتا، وہ وقت کے بہاؤ کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ماضی کی بے بسی بھی ہوتی ہے، اور مستقبل کا تصور بھی۔ وہ جانتا ہے کہ اگر آج وہ یہاں نہیں رکا، تو کل اس کی قوم کہیں نہیں رہے گی۔ اس کی انگلی ٹریگر پر نہیں، وقت کی نبض پر ہوتی ہے۔ وہ جس لمحے کو چنتا ہے، وہی لمحہ تاریخ کا رخ بدلتا ہے۔

جنگ، صرف وہ لمحہ نہیں جب بندوق چلتی ہے، بلکہ وہ لمحہ بھی ہے جب کسی ماں کے دل میں بیٹے کو قربان کرنے کا حوصلہ جنم لیتا ہے۔ جب کسی شاعر کا قلم تلوار بن جاتا ہے۔ جب کسی بزرگ کی خاموشی دعا بن جاتی ہے۔ جب کسی بچے کے آنسو نعرہ بن جاتے ہیں۔ یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جن میں پوری قوم کی روح دوبارہ سانس لیتی ہے۔ ان لمحوں میں صدیاں سمٹتی ہیں، اور لمحے صدیاں بن جاتے ہیں۔

نت نئی زندگیاں جنمتی ہے جنگ۔ اور یہ زندگیاں زمین پر بکھرتی نہیں، جذب ہوتی ہیں۔ نظریے میں، تاریخ میں، شاعری میں، اور ہر اُس قدم میں جو غلامی کے خلاف اٹھایا جاتا ہے۔ وہ بچے جو آج ماؤں کی گود میں ہیں، کل اسی نظریے کے وارث ہوں گے۔ وہ انقلابی جو آج پہاڑوں پر ہیں، کل کتابوں میں ہوں گے۔ وہ مائیں جو آج بیٹے رخصت کر رہی ہیں، کل حریت کی علامت ہوں گی۔ اور وہ قوم جو آج زخمی ہے، کل آزادی کا پرچم اٹھائے گی۔

جنگ فقط گولیوں کا سلسلہ نہیں، خوابوں کی تجدید ہے۔ یہ خودی کی تلاش ہے، شناخت کی بازیافت ہے، اور تاریخ سے اپنی گم شدہ جگہ کو واپس لینے کی جدوجہد ہے۔ جو قومیں جنگ کے بطن سے نکلنے والی ان زندگانیوں کو سمجھ جاتی ہیں، وہ کبھی ہاری ہوئی نہیں کہلاتیں۔ کیونکہ شکست صرف ہتھیار ڈالنے سے نہیں، نظریہ چھوڑنے سے آتی ہے۔ اور جب نظریہ زندہ ہو، تو ہر شہید زندہ ہوتا ہے، ہر زخم دلیل ہوتا ہے، اور ہر نسل ایک نئی جنگ، نئی زندگی اور نئے سفر کی شروعات بن جاتی ہے۔

جنگ سے جنم لینے والی یہ زندگیاں جب تاریخ کے دامن میں قدم رکھتی ہیں، تو ماضی کی تمام عظمتیں ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ وہ سقراط کے زہر کا پیالہ ہو یا جنگی دار پر لٹکی صدائے انا الحق وہ اسپارٹاکس کی بغاوت ہو یا چی گویرا کی پہاڑوں جنگلوں میں لکھی گئی گوریلا حکمتِ عملی، ہر جدوجہد کی روح ان نئی زندگیوں میں سانس لیتی ہے۔ یہ وہ روحیں ہیں جو محض کسی جغرافیائی جدوجہد کا حصہ نہیں ہوتیں، بلکہ تاریخ کے خلاف اعلانِ بغاوت ہوتی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں کل کی آزادی کے خواب نہیں، آج کی قربانی کا عہد ہوتا ہے۔ یہ وہ لمحے ہیں جب وقت ایک نئی دھڑکن سے متعارف ہوتا ہے بغاوت کی دھڑکن، جو کسی گولی سے کم نہیں ہوتی۔

یہ زندگیاں صرف جسمانی نہیں ہوتیں، یہ نظریاتی ہوتی ہیں۔ ان کا خون صرف رگوں میں نہیں، الفاظ میں، لہجوں میں، آنکھوں کی سرخی میں اور ہاتھوں کی جنبش میں بھی دوڑتا ہے۔ وہ طالب علم جو یونیورسٹی کی کسی بینچ پر بیٹھا مزاحمت کے صفحے پڑھ رہا ہوتا ہے، وہ محض پڑھنے والا نہیں، آنے والا رہنما ہوتا ہے۔ وہ نوجوان جو شہر کی گلیوں میں پوسٹر لگا رہا ہوتا ہے، وہ صرف کارکن نہیں، تاریخ کی دیوار پر اپنا وجود چسپاں کر رہا ہوتا ہے۔ وہ لڑکی جو قید میں ہے اور اپنے آنسوؤں کو پینے کا فن سیکھ چکی ہے، وہ فقط مظلوم نہیں، ایک مستقبل کی معمار ہے۔ جنگ ان سب کو صرف آزمائش نہیں دیتی، ایک مقام بھی دیتی ہے وہ مقام جو انتخابات سے نہیں، انقلابی امتحانات سے ملتا ہے۔

یہ زندگیاں جب جبر کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں، تو ان کی خاموشی بھی بغاوت ہوتی ہے۔ ان کے قدموں کی آہٹ سے ایوان لرزتے ہیں، اور ان کے سروں کی قیمتیں مقرر کی جاتی ہیں۔ دشمن کی فہرست میں سب سے خطرناک وہی ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ خاموش، سب سے زیادہ نظریاتی، اور سب سے زیادہ مسلسل ہوتے ہیں۔ ان کا دشمن نہ صرف ریاستی بندوق ہوتی ہے، بلکہ وہ نظام ہوتا ہے جو بندوق کی پیداوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ زندگیاں، جب ختم ہوتی ہیں، تو وہ المیہ نہیں بن جاتیں، ایک پیغام بن جاتی ہیں۔ شہادت ان کے لیے انجام نہیں، ایک نیا آغاز ہوتی ہے نئی نسلوں کے شعور میں، نئی تحریکوں کے نغموں میں، اور نئی تاریخ کی تشکیل میں۔

ان زندگانیوں کی خوراک کتب ہوتی ہیں، ان کا لباس خاک آلود ہوتا ہے، اور ان کی عبادت مزاحمت۔ وہ نہ کسی محراب کے محتاج ہوتے ہیں، نہ کسی مزار کے ان کا قبلہ آزادی ہوتی ہے، اور ان کی سمت وہی ہوتی ہے جہاں غلامی کے خلاف پہلا پتھر اٹھایا گیا ہو۔ ان کی عبادت میں کوئی اذان نہیں، صرف لہو کی گواہی ہوتی ہے۔ ان کے سجدے میں کوئی قالین نہیں، صرف چٹانوں کی سختی ہوتی ہے۔ ان کی تسبیحوں میں آزادی کا ورد ہوتا ہے، اور ان کی دعاؤں میں صرف ایک التجا کہ نسلیں جھکنے نہ پائیں۔

یہی جنگ کی پیدا کردہ زندگیاں جب اپنا تجربہ، علم، قربانی، اور خواب نئی نسل کو سونپتی ہیں، تو وہ صرف تحریر نہیں کرتیں، وہ تحریک کرتی ہیں۔ وہ کوئی یادگار نہیں چھوڑتیں، وہ راستہ چھوڑ جاتی ہیں۔ وہ کوئی افسانہ نہیں بنتیں، وہ منشور بن جاتی ہیں۔ اور جب قومیں ایسے منشور کو پڑھ لیتی ہیں، سمجھ لیتی ہیں، اور اس پر عمل پیرا ہو جاتی ہیں، تو کوئی ظلم، کوئی طاقت، کوئی سازش انہیں جھکا نہیں سکتی۔

یہی جنگ سے جنم لینے والی روحیں ہیں جو وقت کے سانچوں کو توڑتی ہیں، اور نئی دنیا کے نقشے بناتی ہیں۔ ان کی انگلیوں سے کھنچی ہوئی لکیر کسی جغرافیائی نقشے کی حد نہیں ہوتی، بلکہ وہ شعور کی سرحد ہوتی ہے۔ جہاں سے غلامی ختم اور آزادی شروع ہوتی ہے۔

یہ زندگیاں جب شہروں کے سنگین سکوت سے نکل کر پہاڑوں کے شور میں پناہ لیتی ہیں، تو وہ محض نقلِ مکان نہیں کرتیں، وہ وقت سے بغاوت کا اعلان کرتی ہیں۔ وہ اپنے لہجوں سے بتاتی ہیں کہ اب کوئی نعرہ کاغذ پر نہیں، فضاؤں میں گونجے گا اب کوئی خواب آنکھ میں نہیں، میدان میں اترے گا۔ جنگ ان کے لیے کوئی وقتی ردعمل نہیں بلکہ ایک مسلسل رویہ ہے، ایک طرزِ زیست ہے جو سانس لینے کے انداز کو بدل دیتا ہے۔ اب وہ صرف زندہ نہیں رہتے، وہ زندگانی کو نظریے میں ڈھالتے ہیں۔ اب وہ دن رات کے حساب سے نہیں جیتے، بلکہ مقصد کے مطابق سانس لیتے ہیں۔

یہ زندگیاں جب کسی قافلے کا حصہ بنتی ہیں، تو وہ کارواں صرف لوگوں کا مجموعہ نہیں ہوتا، وہ تاریخ کے سفر کا رخ ہوتا ہے۔ ایک قافلہ جو بظاہر چند افراد پر مشتمل ہوتا ہے، درحقیقت پوری قوم کے زخموں کی ترجمانی کرتا ہے۔ ان کی پگڈنڈیاں آئندہ نسلوں کے راستے بناتی ہیں، ان کے قدموں کے نشانات آئندہ انقلابوں کا خمیر بنتے ہیں۔ یہ وہی لمحہ ہوتا ہے جب تاریخ، وقت کی قید سے نکل کر جذبے کی صورت میں پہاڑوں، ریگزاروں، اور ویران بستیوں میں گردش کرنے لگتی ہے۔

جب کوئی انقلابی پہاڑوں میں تنہا اپنے ہتھیار کی صفائی کر رہا ہوتا ہے، تو وہ فقط گولی کے لیے خود کو تیار نہیں کر رہا ہوتا، وہ ایک سوال کا جواب تیار کر رہا ہوتا ہے وہ سوال جو غلامی نے اٹھایا، اور جس کا جواب صرف قربانی دے سکتی ہے۔ اس کی خاموشی دراصل فکری گونج ہوتی ہے۔ ہر صفایا، ہر ٹریگر، ہر لمحہ ایک فلسفے کی تشکیل ہے ایک ایسا فلسفہ جو یونیورسٹیوں میں نہیں، قربانی کے مقامات پر پڑھایا جاتا ہے۔

وہ عورت جو دروازے پر کھڑی بیٹے کے لوٹنے کا انتظار کرتی ہے، وہ ماں صرف ممتا کی علامت نہیں، وہ قوم کی جڑ ہے۔ اس کی دعاؤں میں صرف سلامتی نہیں، کامیابی کی التجا ہوتی ہے۔ وہ آنسو جو چپکے سے گال پر بہتے ہیں، وہ محض دکھ کا اظہار نہیں، وہ تاریخ پر ثبت ہونے والی سیاہی ہیں جو گواہی دیتی ہیں کہ قربانی خاموش نہیں رہتی، وہ نسلوں کی زبان بن جاتی ہے۔ وہ بیٹی جو باپ کی شہادت کے بعد باب کے نقش قدم ہے، وہ صرف وارث نہیں، وہ تحریک کا تسلسل ہوتی ہے۔ وہ بھائی جو دوست کی لاش دفنا کر پھر سے ہتھیار اٹھاتا ہے، وہ صرف انتقام نہیں، وہ نظریاتی تسلسل ہوتا ہے۔

یہ زندگیاں جو جنگ سے پیدا ہوتی ہیں، ان کی تربیت گولیوں کی آواز میں نہیں، وفاداری کی گونج میں ہوتی ہے۔ وہ دن جن میں کھانے کے لیے کچھ نہ ہو، مگر نظریے کے لیے جان دینے کا حوصلہ ہو، وہ راتیں جن میں نیند نہیں، مگر شعور کی آنکھیں پوری طرح کھلی ہوں یہ سب لمحے ان زندگانیوں کو تراشتے ہیں۔ وہ جیلیں جہاں انسان ٹوٹتے نہیں، پکّے ہوتے ہیں وہ تفتیشی کمرے جہاں زبانیں بند نہیں ہوتیں، سوال اور کھلتے ہیں وہ عدالتیں جہاں انصاف دفن ہوتا ہے، مگر نظریہ جیتتا ہے یہ سب جنگ کے راستے کی منزلیں ہیں۔

یہی زندگیاں جب قید کی سلاخوں کے پیچھے جاتی ہیں، تو ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں نہیں، نظریے کی زنجیریں ہوتی ہیں، جنہیں وہ فخر سے پہنتے ہیں۔ ان کے چہروں پر شکست کی دھول نہیں، استقامت کی روشنی ہوتی ہے۔ وہ عدالتوں میں صرف اپنے لیے نہیں، آنے والی نسلوں کی بیداری کے لیے بولتے ہیں۔ ان کے الفاظ مجرموں کی صفائی نہیں، غلامی کے خلاف فردِ جرم ہوتے ہیں۔ قید ان کے لیے دیوار نہیں بلکہ ایک نئی سطح ہوتی ہے جہاں وہ خود کو مزید تراشتے ہیں، اور نظریے کو نیا خون دیتے ہیں۔

جنگ سے جنم لینے والی ان زندگانیوں کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ وہ وقت سے نہیں ڈرتیں۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ان کا راستہ صدیوں پر محیط ہو سکتا ہے، کہ ان کی زندگی میں آزادی شاید نہ آئے، مگر ان کے عمل سے آزادی کی راہیں ضرور نکلیں گی۔ وہ مصلحتوں کے سوداگر نہیں ہوتے، وہ سچ کے سپاہی ہوتے ہیں۔ ان کی وفاداری کسی فرد یا تنظیم سے نہیں، صرف اصول سے ہوتی ہے۔ اور جب کوئی زندگی اصول کی خاطر جی جائے، تو وہ کبھی فنا نہیں ہوتی۔

یہ زندگیاں میدانِ جنگ میں دشمن کے سامنے کھڑے ہو کر فقط گولیاں نہیں چلاتیں، وہ تاریخ کی راہ داریوں میں سوال داغتی ہیں۔ ان کے لہجے میں ایک ایسی گرج ہوتی ہے جو بندوق سے بلند اور تحریر سے تیز ہوتی ہے۔ وہ مزاحمت کو رومان نہیں بناتیں، عمل بناتی ہیں۔ ان کے نزدیک آزادی کوئی جھنڈا، کوئی نعرہ، یا کوئی رسم نہیں آزادی وہ فکری روشنی ہے جس کے بغیر نہ سیاست بامعنی ہوتی ہے، نہ معاشرہ باوقار۔

جب جنگ میں پلنے والی یہ زندگیاں دشمن کے میڈیا میں کردار کشی کا شکار ہوتی ہیں، تو وہ جواب میں صفائی پیش نہیں کرتیں، عمل پیش کرتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کا چہرہ عوام کی آنکھوں میں ہے، اور وہیں سے تاریخ انہیں پہچانے گی۔ وہ سچائی کو بول کر نہیں، جھیل کر ثابت کرتی ہیں۔ ان کی خاموشی، دشمن کے شور سے زیادہ بامعنی ہوتی ہے، اور ان کی موجودگی، کسی بھی پروپیگنڈے کا جواب۔ کیونکہ وہ یہ سمجھ چکے ہوتے ہیں کہ تاریخ کو لکھنے کے لیے قلم نہیں، لہو کی سیاہی چاہیے، اور وہی ان کے پاس ہوتا ہے۔

یہی جنگ سے پیدا شدہ زندگیاں جب تھکنے لگتی ہیں، تو شہیدوں کی قبریں ان کا سہارا بن جاتی ہیں۔ وہ قبریں جن پر کوئی کتبہ نہ ہو، جن پر کوئی پھول نہ ہو، مگر جو ہر آنے والے انقلابی کے دل میں روشن رہتی ہیں۔ ان کے اندر دفن جسم مٹی میں ملتے ہیں، مگر ان کی سوچ فضاؤں میں گھل جاتی ہے۔ اور یوں وہ کبھی مرتے نہیں، وہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے رہتے ہیں۔

یہ زندگیاں آگ سے کھیلتی ہیں، مگر خاکستر نہیں ہوتیں۔ وہ بارود میں سانس لیتی ہیں، مگر اپنا چہرہ محفوظ رکھتی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک ایسی روشنی ہوتی ہے جو کسی طاقت سے نہیں نکلتی، وہ دل کی اندرونی حرارت سے نکلتی ہے وہ حرارت جو صرف آزادی کی لگن پیدا کرتی ہے۔

جنگ، جب اپنی سب سے بھیانک شکل میں آتی ہے، جب دشمن پوری طاقت سے حملہ کرتا ہے، جب تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، تو یہی زندگیاں دروازے نہیں، دیواریں گراتی ہیں۔ وہ خوف سے نہیں بھاگتیں، خوف کو پیچھے چھوڑتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ زندگی اور موت کے درمیان جو لکیر ہے، وہ اصل میں بغاوت اور خاموشی کی لکیر ہے اور وہ ہمیشہ بغاوت کا انتخاب کرتی ہیں۔

ایسی زندگیاں جب پہاڑوں میں کسی خاموش شام کا حصہ بنتی ہیں، تو ان کی ہر سانس ایک گیت ہوتی ہے، ایک نظم جو صدیوں سے ناگفتہ مگر جاری ہے۔ وہ خاموش شامیں جب دور کہیں مورچوں میں اپنے ہتھیاروں کے ساتھ کسی چٹان سے ٹیک لگا کر آسمان کی طرف دیکھتا ہے، تو وہ صرف تھکن نہیں سمیٹ رہا ہوتا، وہ کائنات سے بات کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں کوئی ذاتی خواہش نہیں، کوئی ذاتی خواب نہیں صرف ایک عہد ہوتا ہے، جو اس نے اپنی قوم، اپنے نظریے، اور اپنے شہیدوں کے لہو سے باندھا ہوتا ہے۔

جنگ سے جنم لینے والی یہ زندگیاں جب موت کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں، تو وہ گھبراتی نہیں، بلکہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے ایک نئی تعریف دیتی ہیں۔ ان کے لیے موت انجام نہیں بلکہ آغاز ہے وہ آغاز جو کسی کتاب کے پہلے صفحے کی طرح ہوتا ہے۔ ان کی شہادت کوئی افسوس ناک کہانی نہیں، وہ ایک سبق ہوتی ہے۔ اور جو قومیں شہادتوں سے سبق لے لیں، وہ کبھی شکست نہیں کھاتیں۔ کیونکہ شکست صرف جسم کی ہوتی ہے، نظریے کی نہیں۔ اور یہ زندگیاں نظریہ بن کر جیتی ہیں، جغرافیہ بن کر نہیں۔
وہ معصوم بچے جو جنگ میں جنم لیتے ہیں، ان کے پہلے آنسو گولیوں کی آوازوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ وہ لاشوں کو کھیل سمجھ کر دیکھتے ہیں، اور خوف کے بغیر زندگی گزارنا سیکھتے ہیں۔ یہی بچے کل کو جب جوان بنتے ہیں، تو ان کے اندر کسی پرانے انقلابی کی روح بول رہی ہوتی ہے۔ ان کے قدم فکری وفاداری سے اٹھتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں کتاب یا بندوق دونوں ایک ہی مقصد کے لیے ہوتے ہیں نجات کے لیے، شعور کے لیے۔

جنگ کی کوکھ سے نکلی یہ زندگیاں جب ثقافت میں ڈھلتی ہیں، تو ان کے گیت کوئی عاشقانہ نہیں ہوتے، وہ مزاحمت کے راگ ہوتے ہیں۔ ان کے سازوں میں جو دھڑکن ہے، وہ کسی شکستہ دل کی نہیں، کسی محاذ پر گرے شہید کی ہوتی ہے۔ ان کے اشعار میں جو لفظ ہوتے ہیں، وہ اپنے محبوب کے لیے، مادرِ وطن کے لیے ہوتے ہیں۔ اور وہ زبان جو کبھی کسی درباری نے آراستہ کی ہو، اب کسی انقلابی کی آواز سے مقدس ہو جاتی ہے۔

جنگ کے راستے پر چلنے والی یہ زندگیاں کبھی تھکتی نہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ تھکن ایک فطری چیز ہے، مگر پیچھے ہٹنا نظریاتی کمزوری ہے۔ وہ اپنے زخموں کو دکھا کر ہمدردی نہیں لیتیں، وہ اپنے قدموں کو آگے بڑھا کر تحریک دیتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ہر اگلا دن نیا زخم دے گا، اور ہر زخم نیا ہنر سکھائے گا جینا، سہنا، اور لڑنا۔

ان کی یادیں صرف کتب میں نہیں رہ جاتیں، وہ دیواروں پر لگے ان پوسٹروں میں زندہ رہتی ہیں جنہیں رات کی تاریکی میں چپکے سے کوئی کارکن چسپاں کرتا ہے۔ وہ گلیوں میں لگے نعرے بن کر، اسکول کی دیواروں پر چاک سے لکھے ہوئے خواب بن کر، اور نوجوانوں کی آنکھوں میں جلتے ہوئے سوال بن کر زندہ رہتی ہیں۔ ان کی موجودگی تاریخ کا اعلان ہے کہ جب تک جنگ رہے گی، مزاحمت کی کوکھ سے نئی زندگیاں جنم لیتی رہیں گی۔

یہی زندگیاں جب رات کی تاریکی میں پہاڑوں کے کسی کونے میں جمع ہوتی ہیں، تو وہ محض جنگی حکمتِ عملی طے نہیں کر رہیں ہوتیں، وہ اپنی قوم کا مقدر لکھ رہی ہوتی ہیں۔ ان کی گفتگو میں گولہ بارود کا شور نہیں، شعور کی چمک ہوتی ہے۔ وہ اس بات پر غور کر رہے ہوتے ہیں کہ دشمن کے اگلے حملے سے پہلے کس طرح اپنی قوم کو مزید بیدار کیا جائے، کس طرح اپنی زمین، زبان، اور ثقافت کو استعماری شکنجے سے آزاد کرایا جائے۔ ان کی محفلیں، خواہ وہ پتھریلی زمین پر ہوں یا بارش سے بھیگی کسی غار میں، وہی محفلیں ہوتی ہیں جہاں مستقبل کا نقشہ تیار ہوتا ہے ایک ایسا نقشہ جو کسی جغرافیائی نقشے کا حصہ نہیں، بلکہ کسی خواب، کسی یقین، اور کسی قربانی کا عکس ہوتا ہے۔

جنگ سے پیدا ہونے والی ان زندگانیوں کا ہر دن ایک مورچہ ہوتا ہے اور ہر رات ایک نیا محاذ۔ وہ نیند کو قربان کرکے قوم کے لیے جاگتی ہیں، اپنے گھروں کو چھوڑ کر قوم کا گھر بچاتی ہیں۔ ان کے لیے آزادی کوئی لفاظی نہیں، بلکہ ایک مان، ایک قرض، اور ایک وعدہ ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ وہ اپنے لیے نہیں، اپنی آنے والی نسلوں کے لیے لڑ رہی ہیں۔ اور وہ جو اپنے لیے جیتا ہے، وہ تھک جاتا ہے، مگر جو دوسروں کے لیے مرتا ہے، وہ امر ہو جاتا ہے۔

ایسی زندگیاں ہر اس لمحے میں موجود ہوتی ہیں جب دشمن کسی گاؤں پر بم برساتا ہے، اور اس لمحے بھی جب کسی کچے کمرے میں نوجوانوں کو شعور دیا جا رہا ہوتا ہے۔ وہ صرف بندوق چلانا نہیں جانتیں، وہ زبان کو ہتھیار بنانا بھی جانتی ہیں۔ ان کی تربیت صرف جنگی کیمپ میں نہیں ہوتی، بلکہ علم و آگہی کی مجلسوں میں ہوتی ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ صرف توپوں سے آزادی نہیں آتی، نظریاتی بیداری سے آتی ہے۔ اور وہ نظریہ صرف دشمن سے نفرت نہیں سکھاتا، اپنی مٹی سے عشق سکھاتا ہے۔

جنگ سے جنم لینے والی یہ روحیں جب شہادت کا جام پیتی ہیں، تو وہ زمین پر گرنے والے لاشے نہیں ہوتیں، وہ آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے بن جاتی ہیں۔ وہ ستارے جو راستہ دکھاتے ہیں، وہ ستارے جو رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کی قبریں، چاہے کسی نامعلوم وادی میں ہوں یا کسی شہیدوں کے قبرستان میں، وہ کسی فاتحہ کے محتاج نہیں ہوتیں، وہ ان قدموں کی منتظر رہتی ہیں جو نظریے کو لے کر آگے بڑھیں، جن میں وہی شعلہ ہو جو ان شہیدوں کے اندر تھا۔

یہ زندگیاں دشمن کے کیمپوں میں جب قید ہوتی ہیں، تو وہاں بھی آزادی کی سانس لیتی ہیں۔ وہ قید خانے کو میدانِ جنگ بنا دیتی ہیں۔ ان کے خلاف ہونے والی ہر اذیت، ہر تشدد، ان کے نظریے کو مزید جلا دیتا ہے۔ وہ جسم سے شکست کھا سکتے ہیں، مگر ذہن سے نہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وقت کی سب سے بڑی طاقت ایمان اور استقامت ہے، جو کسی بھی ہتھیار کو بے اثر کر سکتی ہے۔

یہی زندگیاں جب شہروں کی گلیوں میں کسی پوسٹر پر مسکرا رہی ہوتی ہیں، تو وہ مسکراہٹ فقط تصویر کی زینت نہیں ہوتی، وہ ایک پیغام ہوتی ہے کہ جنگ جاری ہے، کہ روشنی ابھرتی ہے، کہ خون سے لکھی گئی تحریریں کبھی مٹتی نہیں، اور کہ وہ زندگیاں جو مزاحمت سے پیدا ہوتی ہیں، وقت کے بادشاہوں سے زیادہ پائیدار ہوتی ہیں۔

ایسی زندگیاں جب تاریخ کے اوراق میں در آتی ہیں، تو انہیں صرف سوانحی خاکے نہیں کہا جا سکتا، وہ زندہ مثالیں بن جاتی ہیں۔ ہر انقلاب کی پشت پر ایسی ہی زندگیوں کا خون ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے خواب، آرام، تعلقات، حتیٰ کہ اپنی سانس تک کو قربان کر دیا، صرف اس لیے کہ کوئی اور غلام نہ رہے، کہ کوئی اور بچہ اپنی ماں سے آزادی کا مفہوم پوچھے بغیر بڑا نہ ہو، کہ کوئی اور نوجوان اپنی شناخت کی تلاش میں مٹ نہ جائے۔

ان زندگانیوں کا حسن ان کی قربانی میں نہیں، بلکہ ان کے شعور میں ہوتا ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ صرف مر جانا انقلاب نہیں ہوتا، زندہ رہ کر ہر روز مزاحمت کرنا بھی ایک شہادت ہے۔ وہ ہر اس دن کو جیتی ہیں جو دشمن کی مرضی کے خلاف ہو۔ وہ ہر اس خیال کو پناہ دیتی ہیں جو آزادی کی خواہش میں دھڑکتا ہو۔ اور وہ ہر اس لمحے کو مقدس جانتی ہیں جس میں کوئی انسان غلامی کو رد کرتا ہے۔

جنگ سے نکلنے والی یہ زندگیاں شاعری کی زبان میں صرف قافیہ نہیں بناتیں، وہ خیال، جذبہ، اور عقیدہ بن جاتی ہیں۔ وہ جب لب کھولتی ہیں تو صدائیں بنتی ہیں، اور جب خاموش ہوتی ہیں تو دعائیں۔ وہ زمانے کی شورش سے متاثر نہیں ہوتیں، بلکہ شورش کو راہ دیتی ہیں۔ ان کا ہر عمل، چاہے وہ بندوق کی گرج ہو یا کسی دیوار پر لکھا گیا ایک سطر وہ تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔
یہی زندگیاں جب نظریاتی تربیت دیتی ہیں، تو وہ کوئی نصابی لیکچر نہیں ہوتیں، وہ روح کی تربیت ہوتی ہے۔ وہ سکھاتی ہیں کہ دشمن کو شکست دینا فقط جسمانی طاقت کا مسئلہ نہیں، فکری تسلط توڑنے کا سوال ہے۔ اور فکری تسلط صرف تب ٹوٹتا ہے جب غلام اپنی حالت کو پہچان لے، اور جب وہ پہچان لے تو وہ کبھی ویسا نہیں رہتا جیسا کل تھا۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں انقلاب کی پہلی اینٹ رکھی جاتی ہے۔

جنگ میں پلنے والی زندگیاں روایتی سیاست کو مسترد کرتی ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک وہ زبان جو عوام کو بہلانے کے لیے ہو، دراصل دشمن کی زبان ہے۔ ان کے نزدیک وہی بات معتبر ہے جو ظلم کے خلاف ہو، جو حق کے ساتھ کھڑی ہو، اور جو وقت کے فرعونوں کو للکارنے کی ہمت رکھتی ہو۔ وہ صرف ہاں یا نا کے درمیان نہیں جیتیں، وہ ان دونوں کے درمیان موجود ایک تیسرا راستہ تلاش کرتی ہیں مزاحمت کا، قربانی کا، اور بالآخر فتح کا۔

ایسی زندگیاں دشمن کے ایوانوں میں ہلچل پیدا کرتی ہیں، ان کی موجودگی ہر ظالم کے لیے ایک خطرہ ہوتی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ لوگ صرف بندوق سے نہیں، نظریے سے لڑتے ہیں اور نظریہ کبھی گولی سے مر نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن ان کی تحریر سے بھی ڈرتا ہے، ان کی مسکراہٹ سے بھی، اور ان کے خاموش قدموں کی چاپ سے بھی۔ کیونکہ یہ قدم تاریخ کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں، اور تاریخ ہمیشہ سچ کی گواہی دیتی ہے۔

ان زندگانیوں کا ہر خواب، خواب نہیں، تحریک ہوتا ہے۔ وہ خواب جس میں شہداء اپنے لہو سے آزادی کی روشنی لکھتے ہیں۔ وہ خواب جس میں ایک ماں اپنے بیٹے کو رخصت کرتے ہوئے آنکھوں میں آنسو نہیں، بلکہ نظریے کی چمک رکھتی ہے۔ وہ خواب جس میں ایک استاد بندوق سے نہیں، قلم سے مورچے بناتا ہے۔ وہ خواب جس میں ایک انقلابی، خود کو فنا کر کے نسلوں کو بیدار کرتا ہے۔

وہ زندگیاں جو جنگ کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، وہ فقط ایک نسل کا مقدر نہیں بدلتی، وہ پوری تاریخ کا دھارا موڑنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ وہ میدانِ جنگ میں جیتی جا سکتی ہیں یا قید خانوں میں سولی پر چڑھائی جا سکتی ہیں، مگر ان کی روح کبھی زیر نہیں کی جا سکتی۔ یہ روحیں صدیوں کے غلام ذہنوں میں بغاوت کی پہلی چنگاری بن کر دہکتی ہیں، اور جب ان چنگاریوں سے شعلے اٹھتے ہیں تو وقت کی سلطنتیں لرز اٹھتی ہیں۔

جنگ سے نکلنے والی یہ زندگیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہر انقلاب خون مانگتا ہے، لیکن وہ خون جو سوچ کے ساتھ بہایا جائے، جو مقصد کے لیے دیا جائے، وہ فقط جسمانی قربانی نہیں بلکہ ایک نظریاتی اعلامیہ ہوتا ہے۔ ان کی شہادتیں بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیاں نہیں بنتیں، لیکن پہاڑوں، وادیوں، اور مٹی میں ان کے قدموں کی چاپ رہتی ہے، اور وہ چاپ کبھی خاموش نہیں ہوتی۔

یہی وہ زندگیاں ہوتی ہیں جو دشمن کے پروپیگنڈے کو شکست دیتی ہیں۔ وہ زبان جسے غلامی میں بُھلا دیا گیا ہو، یہ زندگیاں اسے پھر سے زندہ کرتی ہیں۔ وہ کہانیاں جو نسلوں کو خوابوں سے کاٹ کر صرف بھوک اور خوف کا درس دیتی ہیں، وہی زندگیاں ان کہانیوں کو نئی تحریر دیتی ہیں ایسی تحریر جو فخر سے پڑھی جاتی ہے، جو سینوں میں جذب ہو کر آنکھوں میں آگ بن کر چمکتی ہے۔

یہ زندگیاں جب کسی انقلابی گیت میں ڈھلتی ہیں، تو وہ صرف نغمہ نہیں بنتی، وہ ایک عہد ہوتی ہیں۔ جب کوئی گوریلا پہاڑوں میں چلتے ہوئے وہ گیت گنگناتا ہے، تو وہ اپنی تھکن کو بھول جاتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ گیت کسی ماضی کی یاد نہیں، کسی مستقبل کا وعدہ ہے۔ جب کوئی نوجوان کسی پرانی تصویر میں کسی شہید کی آنکھوں کو دیکھتا ہے، تو وہ صرف ایک تصویر نہیں دیکھتا، وہ ایک مشن، ایک چراغ، اور ایک راستہ دیکھتا ہے وہی راستہ جو مٹی سے وفا کی راہ ہے۔

جنگ کی کوکھ سے جنم لینے والی زندگیاں عام زندگی کی لغت میں فٹ نہیں بیٹھتیں۔ وہ خوشی، راحت، ترقی جیسے الفاظ کو ناپ تول کے استعمال کرتی ہیں، کیونکہ ان کے لیے خوشی دشمن کی شکست ہے، راحت نظریاتی کامیابی ہے، اور ترقی صرف وہ ہے جو آزادی کی زمین پر ہو۔ وہ ہر اس مفہوم کو چیلنج کرتی ہیں جو استعماری نظام نے رواج دیا ہو۔ ان کے نزدیک جینا فقط زندہ رہنے کا نام نہیں، جینا نظریہ بن کر جینے کا نام ہے، ورنہ وہ موت کو زندگی پر ترجیح دیتی ہیں۔

یہی زندگیاں جب کسی مورچے سے دشمن کے قافلے پر وار کرتی ہیں، تو وہ صرف عسکری کارروائی نہیں ہوتی، وہ مظلوموں کی طرف سے انصاف کا پہلا پتھر ہوتا ہے۔ جب وہ کسی انقلاب کے خالی کمرے میں نوجوانوں کو ان کی تاریخ پڑھاتی ہیں، تو وہ صرف تعلیم نہیں دیتی، وہ نسلوں کی بیداری کا بیج بوتی ہیں۔ جب وہ کسی گاؤں میں دشمن کے خوف کو رد کر کے شعور بانٹتی ہیں، تو وہ صرف حوصلہ نہیں دیتی، وہ غلامی کے خلاف اعلان کرتی ہیں۔

اور یہ اعلان وقتی نہیں ہوتا۔ یہ اعلان صدیوں تک گونجتا ہے، نسلوں تک دوہرايا جاتا ہے، اور جب بھی کوئی قوم غلامی میں پلٹنے لگتی ہے، وہی اعلان اسے جھنجھوڑتا ہے۔ کیونکہ جنگ فقط جنگ نہیں ہوتی، وہ ایک تسلسل ہوتا ہے۔ ایک ایسی روانی جو کبھی رکتی نہیں، جو ہر دور میں نئے چہرے، نئے جذبے، اور نئے زخموں کے ساتھ پھر سے جنم لیتی ہے۔

یہ اعلان، جو جنگ کی کوکھ سے نکل کر نسل در نسل گونجتا ہے، وقت کی قید میں بند نہیں ہوتا۔ یہ صرف ایک عارضی نعرہ یا لمحاتی جذبہ نہیں، بلکہ ایک زندہ روایت ہے جو ہر دور میں نئے انداز سے زندہ ہوتی ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو غلامی کی زنجیروں کو توڑتی ہے، وہ فلسفہ ہے جو بیداری کی راہ دکھاتا ہے، اور وہ روح ہے جو ہمیشہ ظلم کے خلاف بغاوت میں جھومتی ہے۔

جب ایک قوم اپنی آزادی کی جدوجہد میں سر اٹھاتی ہے، تو یہ اعلان اس کے سینے میں ایک روشنی کی مانند ہوتا ہے جو تاریکیوں کو چیر کر نکلتی ہے۔ یہ روشنی صرف اس وقت تک محدود نہیں رہتی جب تک وہ جنگ جاری ہو، بلکہ اس کا اثر صدیوں تک قائم رہتا ہے، نسلوں کو بیدار کرتا ہے، اور ایک مستقل تحریک کی صورت میں ابھرتا ہے۔ یہ تحریک کبھی تھمتے نہیں، چاہے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دی جائیں، چاہے کتنے ہی ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑے، یہ ایک ناقابل تسخیر قوت کی مانند ہے جو ہر دور میں نئے جذبوں، نئے چہروں اور نئے زخموں کے ساتھ پھر سے جنم لیتی ہے۔

جنگ صرف ایک میدان کی لڑائی نہیں ہوتی، بلکہ ایک مسلسل عمل ہے جو ہر دور میں مختلف روپ دھارتا ہے۔ کبھی یہ تعلیم کی صورت میں نظر آتی ہے، جہاں حقائق کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر بیداری کی لہر اس کو توڑ کر سامنے آ جاتی ہے۔ کبھی یہ ثقافت اور زبان کی حفاظت کی صورت میں نظر آتی ہے، جہاں دشمن کی حکمرانی کو ختم کرنے کے لیے اپنی شناخت کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ کبھی یہ سیاسی اور فکری جدوجہد کی شکل میں نمودار ہوتی ہے، جہاں نظریات کو فروغ دے کر غلامی کے تسلط کو چیلنج کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جنگ کی کوکھ سے پیدا ہونے والی زندگیاں صرف زندہ رہنے کی نہیں ہوتیں، بلکہ جینے کے نئے اصول، نئے نظریے، اور نئی روشنی پیدا کرنے کی حامل ہوتی ہیں۔ وہ زندگیاں جو غلامی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہیں، وہ اپنی قربانیوں سے ایک نئی تاریخ رقم کرتی ہیں، ایک ایسی تاریخ جو صرف فاتحین کی کہانی نہیں بلکہ مظلوموں کے حق کی صدائے حق بھی ہوتی ہے۔

اس جدوجہد میں ہر فرد ایک چراغ کی مانند ہوتا ہے جو اندھیروں کو روشن کرتا ہے۔ ایک شہید کا لہو، ایک قیدی کی صبر کی کہانی، ایک ماں کا حوصلہ، اور ایک نوجوان کی امید یہ سب مل کر وہ روشن چراغ بنتے ہیں جو پوری قوم کو آزادی کی راہ دکھاتے ہیں۔ یہ چراغ صرف ایک لمحے کے لیے نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے روشن رہتے ہیں، تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان کی روشنی میں اپنی منزل کی تلاش کر سکیں۔

نتیجتاً، جنگ کا مطلب صرف موت نہیں بلکہ زندگی کی نئی تعریف ہے۔ یہ ایک ایسی زندگی ہے جو ظلم، جبر اور استبداد کے خلاف مسلسل مزاحمت کرتی ہے۔ ایک ایسی زندگی جو ہر دن نئے خواب اور نئے جذبے لے کر آتی ہے، اور ہر دن ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ یہی وہ زندگی ہے جو جنگ کی گود سے نکلتی ہے، اور یہی وہ زندگی ہے جو حقیقی معنوں میں آزاد ہوتی ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ نت نئے زندگیاں جنمتی ہے جنگ کیونکہ جنگ ہی ہے جو تاریکیوں میں روشنی، مایوسیوں میں امید، اور غلامی میں آزادی کی نئی کہانی رقم کرتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں