میں قید ہوں، مگر میری روح آزاد ہے۔ بیبو بلوچ کا جیل سے پیغام

142

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اسیر رہنما بیبو بلوچ نے جیل سے بھیجے گئے اپنے ایک تحریری پیغام میں کہا ہے کہ اگرچہ وہ قید میں ہیں، مگر ان کی روح آزاد ہے، اور ظلم کے خلاف ان کی جدوجہد پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا سنگھم پہ کھڑا ہے جسے رات کا تاریک ترین پِہر کہا جا سکتا ہے۔ مگر امید کا دامن قوم نے نہیں چھوڑا، خوشحال صبح کا یقین قائم ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ دو مہینے ہوچکے ہیں مجھے صرف “حق” بات کہنے اور حق کے ساتھ کھڑا ہونے کی پاداش میں قید ہوئے۔ غاصبوں نے میرے بزرگ والد کو بھی پابند سلاسل رکھا ہے، صرف اس لیے کہ وہ میرے ساتھ کھڑے رہے، ہر پَل میرا حوصلہ بنے رہے۔ میری والدہ دن رات میری فکر میں مبتلا اکیلی رہ گئی ہیں۔ یہ سوچ کر میرا دل بہت دُکھتا ہے کہ میری سیاسی جدوجہد نے اُنہیں اتنا تکلیف پہنچایا ہے۔

بیبو بلوچ نے لکھا میں اپنے والدین کی تکلیف پر دل سے معذرت خواہ ہوں، لیکن میں کبھی سر نہیں جھکاؤں گی۔ یہ عزم و استقلال میرے والدین کے تربیت کی ہی دین ہے۔ قید کی دیواریں میرے عزم کو کمزور نہیں کر سکتیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ میرے دل میں مزاحمت کی آگ اور بھڑکتی ہے۔ چاہے یہ جبر کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، میں ظلم اور آمریت کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی رہوں گی۔ میں قید ہوں، پر میری روح آزاد ہے۔ اور اس ظالم نظام سے لڑنے کی آگ، وہ اب پہلے سے بھی تیز جل رہی ہے۔

اپنے پیغام کے اختتام پر بیبو بلوچ نے کہا ہے کہ میری ماں کے لیے؛ آپ کی دعائیں اور ہمت مجھے طاقت دیتی ہیں۔ میرے والد کے لیے؛ آپ کا حوصلہ میرے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اور ان تمام بہادر لوگوں کے لیے جو ہمارے ساتھ کھڑے ہیں؛ ہم ایک آواز ہیں۔ ہم ظلم کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں، اور ہم ہی کامیاب ہوں گے۔