میران جان اور یاسین جان ایک داستانِ قربانی – ابراھیم بلوچ

251

میران جان اور یاسین جان ایک داستانِ قربانی

تحریر: ابراھیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب میں گلزمین کے سپوتوں کے قافلے تک پہنچا، تو گیارہویں روز میری ملاقات میران سے ہوئی۔ دور سے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ آتا ہوا وہ جانباز، گویا اس سرزمین کی پہچان تھا۔

خاک آلود کپڑوں میں ملبوس، ایک دلیر، باوقار اور باہمت نوجوان، جس کی بندوق صاف اور چمکدار، لیکن سر کی ٹوپی، تھکن، مشقت اور راستے کی گرد لیے ہوئے، ایک کہانی سنا رہی تھی۔ سلام کے بعد جب وہ میرے پاس آیا، تو ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے “بلوچی وش آت کیا” اس لمحے ایک ایسی قربت کا احساس ہوا جیسے صدیوں کا رشتہ ہو اور محض ایک وقفے کے بعد ہم دوبارہ ملے ہوں۔

باقی سب کچھ غلامی، جدوجہد اور وطن ہمارے درمیان پہلے سے مشترک تھا۔ جیسے ایک ہی ماں کے سپوت، اُس ماں کی حفاظت کے لیے محاذ پر یکجا تھے۔ میں کچھ دنوں سے ان جانبازوں کی مجلس میں بیٹھ چکا تھا، اس لیے خاموشی سے ان کے تجربات، فکری گہرائی اور قربانیوں سے لبریز گفتگو سن رہا تھا۔ اتنے میں نظر جان نے مسکراتے ہوئے پوچھا: “سنگت، آپ بور تو نہیں ہو رہے؟”

میں نے مسکرا کر جواب دیا: “نہیں سنگت، میں بچپن سے بلوچ سنگتوں اور ان کی داستانوں کا دلدادہ رہا ہوں۔ ان کے کردار، ان کی قربانیاں یہ سب میری روح کا حصہ ہیں۔ بور نہیں ہو رہا، بلکہ سیکھ رہا ہوں۔”

میران جان مسکرائے اور بولے: “بس اللہ آپ کو بیدار رکھے میرے یار!”

دیوان جاری تھا، چائے کا دور چل رہا تھا۔ میران نے دوستوں سے کہا: “ہم کچھ دن یہی رہیں گے، جب تک باقی دوست پہنچیں، پھر روانہ ہوں گے۔”

ان دنوں مجھے میران (نظر جان) کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ وہ ایک بردبار، دوراندیش، اور وطن سے والہانہ محبت رکھنے والے سپاہی تھے۔ ان کی گفتگو میں سنجیدگی اور مزاح کا خوبصورت امتزاج ہوتا، جس سے خونی رشتوں جیسی قربت محسوس ہوتی۔ ان کی اور رؤف جان کی دوستی مثالی تھی۔

میران ہر دوست کی دلجوئی کرتے، سب کو ہنساتے تسلی دیتے۔ ہر سپاہی پر نظر رکھتے تھے۔ کوئی َپریشان نظر آتا تو گھنٹوں اس کے ساتھ بیٹھتے، سنتے اور سمجھاتے: “سنگت، یہ سب پریشانیاں غلامی کی پیداوار ہیں۔ ان کا علاج تب ہوگا جب ہم غلامی کا خاتمہ کریں گے۔”

رؤف (یاسین جان) سے میری ملاقات آپریش ھیروف سے کچھ دن پہلے ہوئی، رؤف جان کم گو تھے مگر ان کے اعمال میں غلامی کے زہر کے خلاف ایک جنگجو کی ہمت جھلکتی تھی۔ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن قربانیوں نے انھیں علم و شعور کی معراج پر پہنچا دیا تھا۔

رؤف جان اور میران جان دو جسم ایک جاں تھے ہمیشہ ساتھ دیکھے جاتے۔

رؤوف جان کو قریب سے جاننے کا موقع ایک واقع کے بعد ملا۔ ایک دن اطلاع ملی کہ رؤف جان کو سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ دوست بیدار ہوئے مگر سواری خراب تھی۔ ہم بےبسی کے عالم میں صرف انتظار ہی کر سکتے تھے۔ صبح ہوتے ہی نکلے اور جب پہنچے رؤف جان شدید درد میں تھے۔ میران جان ان کے سرہانے بیٹھے مختلف  دوا آمیزش بنا کے پلا رہے تھے۔

ہمارے یہاں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا نہ کسی معالج تک رسائی تھی صرف درد اور دعا تھی۔ میں نے وہ دوائیاں اٹھائیں جن کے نام تک نہ جانتا تھا مگر ایک جعلی اطمینان کے ساتھ انہیں استعمال کیا۔ جیسے مجھے سب معلوم ہو۔ میں نے کہا: “رؤف جان، فکر نہ کرو۔ تم ٹھیک ہو جاؤ گے۔” اور پھر بیس دن و بیس طویل راتیں۔  میں اس کے پاؤں کی مالش کرتا رہا۔ میرے ہاتھوں میں نہ مہارت تھی نہ معجزہ صرف ایک یقین تھا۔محبت کبھی زہر سے نہیں مرتی رؤف جان درد سے کراہتا مگر جب بھی آنکھ کھولتا مسکرا کر کہتا: “میں ٹھیک ہوں، تم فکر نہ کرو۔”

وہاں ہر رات میں ان کے پاؤں کی مالش کرتا اور دوست تسلی دیتے اور کچھ دوست محتاط رکھتے کہ سانپ کا زہر ہے پاؤں خراب نہ ہو جائے مگر دل کو یقین تھا کہ وہ اس زہر کو شکست دے گا اور ایک دن اس نے زہر کو شکست دے دی۔ وہ بچ گیا جیسے وہ کہتا تھا کہ زہر نظریے کو نہیں مار سکتی وہ جیت گیا۔ وہ ایک نظریہ بن گیا۔ ایک نشانِ جرات کہ انسان جسم سے نہیں ارادے سے زندہ رہتا ہے۔

واقعی بیس دن کی جنگ کے بعد رؤف جان نے زہر کو شکست دی تھی۔ ان دنوں میں مجھے ان کے قریب رہنے کا موقع ملا اور میں نے ایک عظیم انسان کو پہچانا۔

پھر وہ دن آیا جس کا انتظار تھا محاذ پر یلغار کا دن۔ میں نے میران کو دیکھا اور کہا خیال رکھنا سنگت ابھی بہت کام باقی ہے۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا: “یہ جنگ ہے، موت برحق ہے مگر تاریخ میں زندہ رہنا اصل مقصد ہے۔”

جنگ شروع ہوئی اور انسانی آوازیں گم ہوگئیں، گھنٹوں تک دھماکوں و فائرنگ کی گن گرج جاری رہی۔ ساتھی دشمن کے کیمپ کا حصہ قبضے میں لینے سمیت قریبی پوسٹوں پر پوزیشن سنبھالنے میں کامیاب ہوئے لیکن 45 سے زائد نفری پر مشتمل دشمن کے مرکزی کیمپ پر قبضے کیلئے جھڑپیں تھی۔ گھنٹوں تک جاری رہینے رہنے والی جھڑپوں میں سنگت رؤف جان و میران شہید ہوگئے۔ یہ خبر میرے لیے ناقابل یقین تھا۔

میں نے نظر دوڑائی۔ رؤف جان؟ میران؟ کوئی جواب نہیں آیا۔ سیٹ (مخابرہ) پہ کہیں بار آواز دی لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ جب ہم واپس ہورہے تھے تو کہیں بار ایسا محسوس ہوا کہ میران آواز دے رہا ہے پیچھے مُڑ کے دیکھتا تو سینا تانے بلوچ گلزمین کے پہاڑ میران کے جانفشانی کے گواہی دے رہے تھے کوئی آواز نہیں تھی لیکن میران اور رؤف جان کے شہادت کی گونج تھی۔ وہ دونوں وفا، غیرت، اور قربانی کے رنگوں میں ابدی سکون کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔

میں نے انہیں نہیں پایا۔ لیکن جب بھی ہوا چلے۔۔۔ جب بھی زمین پر قربانی کی مہک آئے، مجھے ان کے قدموں کے نشان دکھائی دیتے ہیں۔ فرانز فینن نے کہا تھا کہ “جب غلام انسان لڑنے پر اتر آئے۔ تو اس کا پہلا وار خود اپنے خوف پر ہوتا ہے۔” میران اور رؤف جان نے سب سے پہلے اپنے خوف کو مارا پھر دشمنوں کو۔ ان کی جنگ دشمن سے تھی مگر اصل فتح اندر کی تھی۔

ہوچی منہ نے کہا تھا کہ “آزادی تمہیں کوئی دیتا نہیں، اسے چھیننا پڑتا ہے۔ اور ان دو عظیم سپوتوں نے اس آزادی کو بلوچستان کے سرزمین پہ قربان ہونے والے ہزاروں شہیدوں کی طرح لفظوں میں نہیں خون سے لکھا۔” کارل مارکس کا کہنا تھا “تاریخ ہر وہ قدم یاد رکھتی ہے جو انسان نے اپنے سچ کے لیے اٹھایا ہو۔”

تو اے وقت کے گواہ، ان کے قدموں کی چاپ کو نہ بھولنا۔ یہ صرف دو انسانوں کی کہانی نہیں، یہ ایک روحانی تجربہ ہے یہ وہ تحریر ہے جو آنکھوں سے نہیں دل سے پڑھی جاتی ہے۔ کیونکہ میران اور رؤف جان صرف انسان نہیں تھے وہ روشنی کے دو چراغ تھے جو ظلمت میں جلتے رہے تاکہ ہم اندھیرے سے نکل کر خواب دیکھ سکیں۔

وہ گلزمین کے وارث شہید ہوئے مگر ہمیں جگا گئے۔ اور شاید یہی سب سے بڑی فتح ہے۔

قبول ہو۔۔۔ اے گلزمین، تیرے دو عظیم بیٹوں کا خراجِ وفا


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔