منیر سے سیاہجی تک – نورزمان

169

منیر سے سیاہجی تک

تحریر: نورزمان

دی بلوچستان پوسٹ

دوست ہمیشہ ایک ہی نہیں ہزار ہوتے ہیں لیکن کچھ دوست ہمیشہ یادوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ زندگی میں کچھ ایسے دوست بھی ملتے ہیں جن کے ساتھ ہم ہمیشہ گفت و شنید کرتے ہیں۔ یہی گفت و شنید ہمیشہ زندگی اور اس کے آثار میں یاد رہتی ہے۔

ضلع کیچ کے تحصیل دشت میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں منیر عبداللہ نے 1989 میں ماتی ماہاتون کے کوکھ میں جنم لیا۔ وہ منیر ایک دن پہاڑوں کی طرف گامزن ہوا، وہی آخر میں منیر کی پہچان بنا۔

جی ہاں، میں وہی عبداللہ نرم دل، مخلص عبداللہ کی بات کر رہا ہوں۔ اس سے ملاقات 2015 اگست کے ساچان نما مہینے میں ہوئی۔ یہ میری اس سے پہلی ملاقات تھی۔ میں تجابان سے نکلا، تربت، تمپ ہوتے ہوئے دشت کے مقام پر پہنچا۔ خوش نما دشت کے کچے سڑکوں میں ہوتے ہوئے دشت ندی پار کر کے زریں بگ تک پہنچا۔ کچھ گھنٹوں تک انتظار کے بعد ہم نکلے عبداللہ کے اوتاک کی طرف جہاں ان کا گھر ایک انقلابی اوتاک تھا۔

پہلے منیر عبداللہ کچھ دوستوں کے ساتھ ہمارے انتظار میں تھے۔ جن میں سے کچھ اب تک شہید ہو چکے ہیں، کچھ اب بھی محاذوں پر ہیں۔ لیکن ایک اور ساتھی تھا جس نے اپنا پہچان عبداللہ کے نام سے کیا۔ سلام دعا کے بعد ایک دوسرے کی پہچان اور بلوچی حال احوال کے بعد ہماری مہمانداری کے لذت میں گرم گرم دودھ، پتی چائے کے ساتھ نان روغنی بسکٹ ایک اسٹیل نما پلیٹ کے ساتھ میرے طرف رکھے۔ میں نے کہا، میں وہی بسکٹوں میں سے ایک اٹھا کر پوچھنے لگا، یہاں بھی یہ بسکٹ کافی خوب چلتا ہے۔ ہم کافی تھکے ہوئے تھے لیکن ہمارے ساتھیوں نے کہا کہ کیا آپ یہاں بھی دکان کھولنا چاہتے ہیں؟ عبداللہ نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ٹھیک ہے، میں اپنا گھر خالی کرکے آپ کے حوالے کردوں گا تاکہ آپ یہاں کاروبار کر سکیں اور سنگتوں کے لیے بھی ایک شاپ کھلا ہوگا، پھر ہم آپ سے خریداری کریں گے۔

ہم ایک رات عبداللہ کے گھر قیام کیا، پھر ہم آگے سفر کیلئے نکل گئے۔ اس سفر میں عبداللہ ہمارے رہنمائی کر رہے تھے۔ اس وقت دشت میں تنظیم مضبوطی سے موجود تھی۔ ہر جگہ آپ کو انقلابی لوگ ضرور دیکھنے کو مل جاتے تھے۔ عبداللہ نے ہمیں ہمارے منزل تک پہنچایا، پھر وہاں ایک رات تک ہمارے ساتھ رہا، پھر اس نے رخصتی کی اور اپنے طرف لوٹا۔

شاید عبداللہ کے ساتھ یہ آخری سفر تھا، لیکن وقت کے ساتھ ہم بھی کبھی اس جگہ، کبھی اُس جگہ دن رات اپنے ذمہ داریوں کے ساتھ مصروف تھے، لیکن کبھی ملاقات کا موقع ہی نہیں ملا۔

وقت تیزی کے ساتھ گزر رہا تھا، پھر سال 2019 میں عبداللہ کے ساتھ ایک اور ملاقات ہونے کا موقع ملا، لیکن اس دفعہ وہ کافی قریب تھا کیونکہ یہ دوسری دفعہ کی ملاقات تھی۔

میں نے عبداللہ کو کہا، یار آجاؤ اوتاک میں، یہاں کافی خوشی ہے، مزاح اور سب کچھ یہاں ہے، اور یہاں ہر آنے والا دن ایک نیا باب کی طرح ہے اور آنے والی رات ایک روشنی کی طرح ہے، اور آپ دوست ساتھ ہوں گے اور روشنی ہوگی ہاہاہا۔۔۔ انہوں نے کہا، یار میرا دل بھی یہی چاہتا ہے لیکن کیا کروں، باہر بھی کام کرنا پڑے گا اور یہاں بھی کوئی نہیں ہے اور وہاں بھی خوشی ہے۔ میں نے کہا، میں اللہ سے دعا کرتا ہوں آپ جلد شہر سے پار ہو کر پہاڑی کی طرف آجاؤ ہاہاہا۔۔۔ انہوں نے کہا، دعا مت کرو، میں خود آ رہا ہوں۔ کچھ مہینے کے بعد وہی ہوا جو میں نے چاہا ہاہاہا۔۔۔

پھر ہم ایک سال تک ایک ساتھ رہے، پھر وقت نے ہمیں الگ کر دیا اور آخری وقت تک ہم عبداللہ کے ساتھ رو بہ رو نہیں ملے۔ ایک رات بالی کا میسج ایک گھبراہٹ کیساتھ آواز آئی اور وائس نوٹ کے آخر میں یہی لفظ شامل تھا کہ عبداللہ شہید ہوگیا۔

ایک مخلص، جہد کے ایماندار، نڈر، بہادر، دلیر شخص ہمیشہ ہم سے رخصت ہو کر مادر وطن کے آغوش میں دفن ہوگیا، لیکن اس کی یادوں کی لہر ہمیشہ ہمارے اطراف میں رہنمائی کرتی رہے گی اور آخر تک وہ ہمارے ساتھ رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں