مسخ شدہ شیطانی چہرہ؟
تحریر: ڈاکٹر صبیحہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ویسے ڈی جی آئی ایس پی آر کے بلوچستان کے بابت بیانات ما سوائے جھوٹ اور بہتان تراشی کے کچھ نہیں ہوتے اور ان پر تجزیہ کرکے ان بیانات کو آگے بڑھانے کے میں حق میں نہیں ہوں کیونکہ ایک جھوٹ جس قدر دوہرایا جائے گا، وہ اتنا مضبوط ہوگا کہ اس کے نیچے سچ دب جائے گا، مگر اس بار کے بیان پر بات کرنا لازم ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف صاحب اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں کہتے ہیں کہ “بے نقاب کریں ان کا مسخ شدہ شیطانی چہرہ” یہی تو ہم چاہتے ہیں کہ مسخ شدہ شیطانی چہرہ بے نقاب ہو، مگر کس کا؟ مسخ شدہ چہرہ ان کا ہے جو حق و انصاف کے لیے آئین و قانون کا سہارا لے کر آگے بڑھ رہے ہیں یا ان کا وہ جو ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں؟ وہ جو سوال سے گھبراتے ہیں؟ وہ جو ہڑبڑا جاتے ہیں جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا آئین کہاں ہے؟ انصاف کہاں ہے؟ جبری گمشدہ افراد کہاں ہیں؟ فوج کی سیاست میں مداخلت کا جواز کہاں ہے؟ دہشت اور بربریت کے لیے جواز کہاں ہے؟ ہمیں یا دیگر سیاسی افراد کو تشدد کا نشانہ بنانے کی منطق کہاں ہے؟ جو خود کو محافظ کہتے ہیں وہ حقیقت میں محافظ کہاں ہیں؟
جناب ڈی جی آئی ایس پی آر، ہم آج تک سوال سے نہیں گھبرائے ہیں، اور نہ ہی ہم نے کبھی راہِ فرار اختیار کی ہے۔ بی وائی سی آج بھی عوام کے درمیان محکم و مضبوط موجود ہے، بی وائی سی اب بھی ہر محاذ پر قانونی و آئینی طریقے سے لڑ رہی ہے، مگر ریاست کے پاس سوائے الزام تراشی کے اب تک کوئی ثبوت نہیں۔ دو ماہ سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، شاہ جی بلوچ، گل زادی بلوچ، اور بیبو بلوچ غیر قانونی طور پر گرفتار ہیں، اور انہیں گرفتار رکھنے کے لیے عدالت کے پاس تین ایم پی او کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس تین ایم پی او کا نفاذ بھی غیر قانونی طور پر کیا گیا ہے، تو واضح کیا جائے کہ کون غلط ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر یا ان کا اپنا بلوچستان ہائیکورٹ؟ تنظیم کے سربراہان جن پر جناب فوج کے ترجمان پراکسی ہونے کا الزام لگا رہے ہیں، جنہیں بیرونی فنڈز لینے والا کہا جا رہا ہے، جن پر جعفر ایکسپریس حملے میں شامل اہلکاروں کی لاشیں لینے کا الزام لگایا جا رہا ہے، مگر آج تک دو مہینے گزرنے کے بعد عدالت میں کوئی ثبوت جمع نہیں کر پائے کہ وہ کسی بیرونی فنڈ لینے میں ملوث ہیں یا ڈاکٹر ماہ رنگ و ساتھیوں نے سول اسپتال سے لاشیں اٹھائی ہیں۔ دو مہینوں تک ہر پیشی میں عدلیہ کو ہر قانون شکنی پر رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ملا، اپنی پوری مشینری استعمال کرنے کے باوجود ریاست کے پاس دھمکیوں اور غیر قانونی ذرائع کے سوا کوئی چارہ، کوئی منطق، کوئی واضح ثبوت، کچھ بھی نہیں، اور ہو گا بھی کیسے، ان الزامات میں ذرہ برابر بھی صداقت نہیں۔
ہم بتاتے ہیں کہ شیطانی چہرہ کس کا ہے، ہمارے پاس ثبوت بھی ہے، فوٹیج بھی ہے، عوام بھی، صرف کمی ہے تو عدالت کی، اور وہ عدالت ہمارے لیے ہماری قوم ہے، اور ہر وہ شخص ہے جو منطق رکھتا ہے، حقائق دیکھ سکتا ہے اور اس سچ کے لیے کھڑا ہو سکتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب، آپ خود اعلان کریں کہ بلوچستان میں عوامی ریفرنڈم منعقد کیا جائے، ایک میدان مختص کریں جس میں ایک طرف وہ افراد آ کر جمع ہوں جو سمجھتے ہیں کہ ماہ رنگ بلوچ اور بی وائی سی دہشتگرد ہیں اور ان کے مقاصد شیطانی ہیں، اور دوسری طرف وہ جمع ہوں جو بی وائی سی کے حمایتی ہوں، جو سمجھتے ہوں کہ بلوچستان میں ایک ہی شیطان ہے، ایک ہی ظالم ادارہ ہے، وہ ہے ریاستی فوج۔ تو دیکھیے میدان میں لوگ کس طرف جمع ہوتے ہیں، آپ کو اجازت ہے کہ جس طرف ماہ رنگ اور بی وائی سی کے مخالف لوگوں کو جمع کرنا مقصود ہو وہاں دنیا بھر کے تحائف، نوکریاں اور لالچ رکھ لیں، اپنے تمام زرخرید لیڈران بٹھا لیں، اور میدان کا وہ حصہ جہاں فوج کے مظالم کے خلاف لوگ جمع ہوں، جو بی وائی سی کے حمایتی ہوں، پھر دیکھیں کہ لوگ کہاں جمع ہوتے ہیں، پھر اس جم غفیر کو دیکھیں جو فوج کے مظالم کے خلاف بطور ثبوت اکٹھے ہوں گے، اور تمہارے ہر جھوٹ اور ہر جرم کا پردہ چاک کریں گے۔ اس دن اگر بی وائی سی کے حمایتی واقعی دس پندرہ نکلے، تو اسی میدان میں ہمیں پھانسی دے دیں، ہمارے حامیوں کے سامنے۔ اور یہ ہم صرف نہیں کہتے بلکہ ہم کر چکے ہیں، پوچھیے اپنی فوج سے جس کے پاس دنیا بھر کی طاقتیں تھیں مگر وہ گوادر میں ہونے والا راجی مُچی نہ روک سکیں، اور اگر اب بھی ہم کال دیں دوبارہ راجی مُچی کی تو کیا آپ روک سکو گے؟ ہر گز نہیں۔ سوائے تشدد کے آپ کے پاس ہے کیا؟ کوئی منطق؟ کوئی سچ؟ کوئی قانون؟ کچھ نہیں۔
شیطانی مسخ شدہ چہرے ان کے ہوتے ہیں جن کا پیشہ عالمی گداگری اور ملک کے وسائل لوٹ کر جزائر کے مالک بنتے ہیں، اور ملک کو قرضوں پر چلاتے ہیں، وہ جو ملک میں قانون، عدلیہ، پارلیمنٹ سب کچھ دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں، جو تعلیم سے منطق نکال دیتے ہیں، جو محض جھوٹ کے بیانیے پر ملک کو چلانے کا عزم کر لیتے ہیں، وہ پر امن تحریکوں کو تب تک دباتے ہیں جب تک وہ ختم ہو کر ان کے باقیات پر تشدد بن جائیں، وہ عوام کو افلاس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی مزدوری سے بھی بھتہ لیتے ہیں، وہ جو منشیات فروشوں کو اپنا دست راست بناتے ہیں، اور قاتلوں و زانیوں کو تخت پر بٹھاتے ہیں، وہ جو اپنے ہی ملک میں دہشتگردوں کو پناہ دیتے ہیں اور پیسے کے لیے اپنے ہی ملک میں دہشتگردی کرواتے ہیں، وہ جو سندھی، بلوچ، پشتون اور پنجابی کو بھی آپس میں لڑاتے ہیں تاکہ جنگی مفادات سمیٹ سکیں۔ وفاق سے لے کر صوبوں تک ہر مسئلے پر نظر دوڑائیں، سماجی ہو یا سیاسی، کون ملوث ملے گا؟ فوج۔ تو مسخ شدہ شیطانی چہرہ کس کا ہوا؟
اہلِ پاکستان کے لیے غائر سوال یہ ہونا چاہیے کہ جبری الحاق کے بعد بلوچستان کیوں پاکستان کا نہ ہو سکا؟ تحقیق کریں کہ واقعی ہر معاملے میں بھارت شامل ہے یا یہ سب آپ کی اپنی فوج کے کارنامے ہیں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ کسی ملک میں آزادی کی تحریک کو سیاسی سنجیدگی سے حل کی طرف لے جایا جا سکے؟ ممکن ہے، سیاسیات کے اصولوں کے مطابق یہ ممکن ہے، مگر سیاسیات کو یہاں سنتا کون ہے؟ ستتر سالوں سے معاملات فوج کے ہاتھ میں ہیں، آپریشن پہ آپریشن، جبر پہ جبر، حتیٰ کہ اس تحریک پر بھی جبر جو صرف انسانی حقوق کے لیے اٹھی ہے، آزادی کے لیے نہیں۔ کیا ریاست کی نظر میں یہ ممکن ہے کہ بی وائی سی کو ختم کرکے بلوچستان میں جاری مسلح تحریکوں کو بھی ختم کر دیا جائے؟ ہر گز نہیں بلکہ بی وائی سی پر تشدد ان مسلح تحریکوں کو اور مضبوط کرے گا، ان کے بیانیے کو قوت دے گا کہ پاکستان جیسی ریاست میں پر امن طرزِ سیاست ممکن نہیں، جہاں انسانی حقوق کے دفاع کے لیے بنی تنظیم کو اس طرح تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، وہاں سیاسی خودمختاری یا حقِ خودارادیت کی بات کرنا ہی ناممکن ہے، اور واحد راستہ مسلح جدوجہد ہے۔
ملاحظہ کریں اقوام متحدہ اپنے حالیہ بیان میں کیا کہہ رہی ہے: “پاکستان کو بلوچستان میں ان شکایات کے حل کے لیے اپنی کوششیں بڑھانی ہوں گی جو ممکنہ طور پر تشدد کو ہوا دے سکتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی عالمی انسداد دہشتگردی حکمت عملی کے تحت، تمام ریاستیں اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ حکومتوں کو دہشتگردی سے مؤثر طور پر نمٹنے کے لیے تشدد کی بنیادی وجوہات کا حل نکالنا ضروری ہے، جیسے کہ حل طلب تنازعات، کمزور قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، امتیازی سلوک، سیاسی محرومی، معاشی و سماجی پسماندگی، اور ناقص طرزِ حکمرانی”۔
تو جناب، ملک سے دہشتگردی ختم کرنے سے پہلے حل طلب تنازعات ختم کریں، امتیازی سلوک ختم کریں، سیاسی محرومی ختم کریں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کریں، معاشی و سماجی پسماندگی ختم کریں، اور ناقص طرز حکمرانی ختم کریں، پھر بیٹھ کر بلوچ سے بات کریں۔ یہ منہ تھتھانا ، غصیلا لہجہ، بد زبانی، دہشت، جبر، فسطائیت ہمارے لیے تو ستم ہے ہی، مگر پاکستان کی بقا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ آپ سندھی قوم پرستوں کو پانی مانگنے پر لاشیں دیتے ہیں، گلگت بلتستان کے ستر سالہ رہنما کو قید کر لیتے ہیں، پشتون رہنما اور ایم این اے علی وزیر کو سالوں سے جیل میں رکھتے ہیں، پشتون بچے ڈرون حملوں میں شہید ہوتے ہیں اور ان کی لاشیں انصاف کی تلاش میں احتجاج کرتی ہیں، بلوچ تو ویسے ہی روح فرسا اور غلامانہ طرزِ زندگی جی رہا ہے۔ جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشیں، جلے ہوئے گھر، جب فوج کا دل چاہے نیٹ ورک بند کر دیا جائے، سڑکیں جام کر دی جائیں، گرفتاریاں کی جائیں، اور اگر کوئی فرد نہ ملے تو بھائی یا والد کو اٹھا لیا جائے اور بلیک میل کیا جائے۔
تو بتائیں، شیطانی مسخ شدہ چہرہ کس کا ہے؟ وہ جو ہٹلر، ہلاکو، خان اور چنگیز خان کا طرزِ عمل اپنائے ہوئے ہیں یا وہ جو باوقار انسانی زندگی کے خواہاں ہیں، امن کے خواہاں ہیں؟ بتائیں، کس کا چہرہ بے نقاب ہونا چاہیے؟ وہ جو جبر و لا قانونیت کی بنیاد پر پورا ملک کھا رہے ہیں یا وہ جو پر امن طریقے سے سب کے لیے زندگی کی جدوجہد کر رہے ہیں، جن کے ساتھ نہتے عوام کھڑے ہیں، معصوم بچوں سے لے کر بوڑھی مائیں، جن کے ساتھ دعائیں، محبت اور امیدوں کا سرمایہ ہے۔
تو بتائیں جناب، شیطانی مسخ شدہ چہرہ کس کا ہے؟ ہر زی شعور جانتا ہے، گو کہ بولنے کی ہمت نہیں رکھتا، یا اس کی زبان بک چکی ہے۔ ہر زی شعور جانتا ہے کہ قانون کون توڑ رہا ہے، آئین شکن کون ہے، بلکہ آئین کو اپنی منشا کے مطابق بدلنے کا اختیار بھی کس کو حاصل ہے، عدلیہ، میڈیا، پارلیمنٹ سب کچھ کون کرپٹ کر چکا ہے، انسانیت کا قاتل کون ہے؟
اور جناب فرماتے ہیں کہ بی وائی سی کے ساتھ صرف دس سے پندرہ افراد ہیں، تو ان ہی دس پندرہ افراد نے آپ کو خوفزدہ کر دیا؟ دو ماہ سے مسلسل کریک ڈاؤن جاری ہے، فائرنگ، شیلنگ، انٹرنیٹ بند، گرفتاریاں، ہراسانی، بلیک میلنگ، سب کچھ کر چکے ہو، اور آج بھی بلوچستان میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اندازہ کریں، ساٹھ دنوں میں ریاست کا ہر ادارہ کھل کر سامنے آ چکا ہے: میڈیا، عدلیہ، پولیس، سی ٹی ڈی، ایف سی، آئی ایس آئی، ایم آئی، ڈیتھ اسکواڈ، سب نے مل کر غیر قانونی کوششیں جاری رکھی ہیں کہ بی وائی سی کے کارکنوں کو یا تو گرفتار کر لیں، یا ڈرا دیں، یا کسی طرح خاموش کرا دیں۔ مگر کیا ہوا؟ کیا تم کامیاب ہوئے؟ ہر گز نہیں۔
اب بھی اگر ہم کسی شہر میں راجی مُچی کا انعقاد کریں تو تمہیں پیر رکھنے کی جگہ نہیں ملے گی، ہماری نعروں کی گونج تمہارے بموں کی آوازوں کو دبا دے گی، اور اگر ہم تاخیر کر رہے ہیں تو اس لیے کہ ہمیں انسانی زندگیوں کی پرواہ ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری ایک آواز پر پوری بلوچ قوم یکجا ہو سکتی ہے، مگر ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ تم اپنے مسخ شدہ شیطانی چہرے کے ساتھ پھر سے تشدد کا راستہ اپناؤ گے، پھر سے نہتے لوگوں پر گولیاں برساؤ گے، جیسا کہ تم نے راجی مُچی اور کوئٹہ کے احتجاج کے وقت کیا۔
اس لیے ہم نہتے انسانوں کو گولیوں کے سامنے نہیں لانا چاہتے، لیکن اگر تم اسی طرح نسل کشی کرتے رہے، اور یہ سمجھتے ہو کہ ہم خاموش رہیں گے، تو یہ ممکن نہیں۔ ہم اصولِ انصاف تک، تمہارے گھٹنے ٹیکنے تک، ظالم کے غرور کے پاش پاش ہونے تک، اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے اور ہماری نسلیں اس جدوجہد کی وارث ہوں گی۔ جو اہل شعور اس ملک کو اور اس کی تاریخ کو مزید سیاہ ہوتے نہیں دیکھ سکتے، وہ آگے آئیں اور اس جبر کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ ہمارے لیے تو یہ درد اور تکلیف ہے، مگر اس ملک کی تاریخ کے لیے یہ ایک سیاہی ہے جو رہتی نسلوں تک یاد رکھی جائے گی۔ ہر جرنیل، ہر فوجی، ہر قانون شکن، اور اس پر خاموش ہر شہری کے لیے یہ سچ گواہی دے گا کہ وہ اس ظلم کے حامی تھے، اور ان کی نسلوں کو اس تاریخ کو پڑھتے ہوئے ایک دن ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں