متحدہ عرب امارات سے کئی سال بعد واپس آنے والے ٹرک ڈرائیور فرید بلوچ 16 فروری 2025 کو کوئٹہ ایئرپورٹ پر اترنے کے فوراً بعد خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ ہو گئے۔ وہ اپنی بہن کے انتقال پر تعزیت اور والدہ کا دکھ بانٹنے کے لیے دبئی سے کوئٹہ پہنچے تھے۔
فرید بلوچ کے اہل خانہ نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فرید بلوچ 16 فروری سے ہی ریاستی اداروں کی تحویل میں ہیں، لہٰذا نوشکی حملے میں ان کے ملوث ہونے کا الزام سراسر جھوٹ اور من گھڑت ہے۔
اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ریاستی ادارے پہلے افراد کو جبری طور پر لاپتہ کرتے ہیں، پھر مہینوں بعد ان پر جھوٹے الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اور بعض اوقات انہیں جعلی مقابلوں میں قتل کر دیا جاتا ہے۔
خاندان نے شدید خدشہ ظاہر کیا ہے کہ فرید بلوچ کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ فرید کو فوری طور پر منظر عام پر لا کر عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ انہیں آزاد اور منصفانہ ٹرائل کا موقع مل سکے۔ ساتھ ہی، انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لیں۔
فرید کی بہن، جو تین بچوں کی ماں تھیں، کینسر جیسے موذی مرض کے باعث وفات پا چکی ہیں۔ والدہ پہلے ہی بیٹی کے صدمے سے نڈھال تھیں کہ اب بیٹے کی اچانک گمشدگی نے ان کے غم کو مزید بڑھا دیا ہے۔ فرید بلوچ نے ایئرپورٹ سے گھر والوں کو اپنی خیریت کی اطلاع دی تھی، مگر اس کے فوراً بعد ان کا رابطہ منقطع ہو گیا۔
فرید کی گمشدگی سے متعلق تمام دستاویزی شواہد جیسے فلائی دبئی کا ٹکٹ، متحدہ عرب امارات کا ویزہ، ڈرائیونگ لائسنس اور سوشل میڈیا پر شائع شدہ پوسٹس موجود ہیں۔ اس کے باوجود، 29 اپریل کو آئی ایس پی آر کی جانب سے فرید بلوچ پر نوشکی فدائی حملے کا ماسٹر مائنڈ ہونے اور مجید بریگیڈ نامی تنظیم سے وابستگی کے سنگین الزامات عائد کیے گئے، جنہیں خاندان نے مکمل طور پر بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا ہے۔