فدائی ظفر عرف منان کی چند یادیں – واھگ بزدار

211

فدائی ظفر عرف منان کی چند یادیں

تحریر: واھگ بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی تحریک کو اپنی خون سے آبیاری دے  کر بلوچ فرزندوں نے  کئی ایسے معرکے کیئے جنہوں نے بلوچ قومی تحریک کو ایک فیصلہ کن موڑ پر لا کھڑا کیا جو بلوچ وطن پر بلوچ راج کی راجی طاقت کے ذریعے پنجابی سامراج کے گند گسڑ کو سر سے ختم کر کے بلوچ گلزمین میں بلوچی و انسانی اقدار کے تحفظ کو یقینی بنا کر ایک آزاد وطن کے تصور کو اپنی خون  و پسینے کے قطروں سے عملی جامہ پہنانے کی جہد کر رہے ہیں یہی  گواڑخین بلوچ راج اور عالم دنیا میں زور روشن کی طرح عیاں ہے پنجابی یا خود کو انسانی اقدار کے تحفظ کے چمپئن کہلوانے والے منافقین و انسانیت کو ٹھیکے پر لینے والی قبضے گیر و ان کے درباری دانشور جو بھی بکواس کریں کیونکہ درباری و چند ٹکوں میں خریدی ہوئی قلم کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے

شہداء و فدائین بلوچ سرزمین کے وارث ہیں اور یہ کنگریں ورنا بچ و جنک بلوچ قوم کے ہیرو ہے آج بلوچ مائیں ،بہنیں بچے انہی کو اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہے انہی کی میتوں پر پھول نچھاور کر کے پوری قوم اس بات کا اظہار کر رہی ہے کہ ہم انہی کے مائیں اور بچے ہیں جو دشمن  کے سر کو قلم کر کے اپنے وطن سے بھگانے ہر مجبور کر رہی ہیں ہر روز و ہر مقام پر دشمن کو دھک دے کر خودی کو کربان کر کے دھرتی پر امر ہو جاتے ہیں دھرتی پر کربان ہونے والوں کی فہرست انہتا درج طویل ہے میں معافی چاہوں گا ان عظیم کرداروں سے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں ان پیغمبرانہ صفات لوگوں کے عمل و مخلصی کو چند جملوں یا کچھ  اصلاحات استعمال کر کے ان کے ساتھ انصاف کر سکوں گا یہ ناممکن ہے

شہید ظفر عرف منان سے پہلی ملاقات بولان کے پہاڑوں میں ہوئی ہم نئے چند دوستوں کے ساتھ ٹریننگ سینٹر کی طرف گامزن تھے تو ہمیں سنبھالنے اور آگے اوتاک تک لے جانے کے لیے دو ولی و درویش دوست ہمارے پاس آئے ہمیں سر و ہاتھوں پر بھوسہ دیا بلوچی حال احوال ہوا ۔چند ہی منٹوں میں چائے آ گئی اور اسی دوران تعارفی نشت ہوئی۔ یہاں یہ میری خوش قسمتی تھی کے مجھے منان جان کے ساتھ  دو مہینے ایک ساتھ اوتاک و گشت کرنے کا موقع ملا، منان  ایک درویش صفت انسان تھا وہ تمام دوستوں سے انتہائی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے منان عمر کے لحاظ سے مجھے سمیت چند دوستوں سے قدرے بڑے تھے لیکن  جسمانی طور پر حد سے زیادہ توانا و چست تھے انہوں نے کبھی بھی کسی کام کو خود پر بوجھ نہیں سمجھا ہمیشہ وہ تمام دوستوں میں سے ہر کام میں پہل کرتے تھے وہ اوتاک کے تمام کاموں پر نظرِ رکھتے تھے وہ کافی زیادہ ڈسپلن کے پابند تھے وہ ہمہ وقت دوستوں کے صحبت میں بیٹھے رہتے تھے ان سے  قومی تحریک میں ہونے والی تبدیلیوں پر سوالات کرتے تھے وہ بولان کے تمام دوستوں میں اوتاک کے لیے لکڑیاں لانے میں سب سے زیادہ مشہور تھے ہم جب اوتاک کے کام تقسیم کرتے تو منان سے پوچھتے کہ منان صاحب تو چے کار کنے، مدام کندیت ء او گوشیت کہ من دارئے کاراں پہ اوتاک ء۔ (منان تم کیا کرے؟، ہنستے ہوئے کہتے میں لکڑیاں لاؤنگا۔)

ایک دفعہ ہم گشت پر نکلے تو  اوتاک کی ذمے داری منان پر تھی ہم چار پانچ گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد جب اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچے تو بارش ہونے والی تھی تو منان نے سب سے پہلے خود تمام اوتاک کے سامان کو سنبھالا جب میں مدد کرنےے لگا تو مجھے  ہنستے ہوئے کہنے لگا کامریڈ “اے ڈکھ و ویل مئے تاریخ ء توکا لکگ بنت۔” (اے دکھ درد ہماری تاریخ میں لکھے جائیں گے۔” من کنداناں گشت او الم لکگ بنت۔ (میں نے ہنستے ہوئے کہا لازم لکھیں جائے گیں۔) چند ہی منٹوں میں منان نے تمام سامان کو ڈکھ کر مکمل طور پر کیموفلاج کر دیا  وہ مجھے ہمیشہ کامریڈ کہا کر پکارتے تھے اور  اس دن شہید  نے ہنستے ہوئے مجھے سے کہا کہ جب میں شہید ہوں گا تو تم مجھے پر آرٹیکل لکھو گے میں نے منان سے کہا یار آپ جیسے دوستوں کے عمل کو کون ایک آرٹیکل میں لکھ کر آپ کے عمل و مخلصی کے ساتھ انصاف کر سکیں گا “پدا من گوں کہ منان من زاناں کجاء بلائیں ٹرے نبشتہ کارایں” تو ہنستے ہوئے کہنے لگا کامریڈ من  زاناں کجاء زھمےء جتگ بلہیں حقیقت ء منان جان آپ نے آپ کے ساتھیوں نے دشمن کو ایسے دک دی ہیں جو پنجاپی اپنی سات نسلوں تک یاد کرے گی۔

فدائی ہر وقت اپنے نئے آنے والی ساتھیوں کو کوہ، جنگ اور انہی حالات میں اپنے آپ کو مضبوط کرنے اور دشمن کو ضربِ لگانے کے بارے بتاتے رہتے تھے مطلب ہیلی، ڈوزنز اور دشمن کو کیسے چکما دے کر خود صحیح سمت کی جانب نکل کر محفوظ ہونے کا بتاتے ہمہ وقت منان اوتاک میں تمام دوستوں پر نظرِ رکھتے کہ کون کس کام میں کمزور ہے تو اس کی اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کرتے مجھ سے ہر وقت کہتے کامریڈ تم آٹا پیسنے اور روٹی پکانا جانتے ہو کیا؟ میں تو جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تم بوڑ  یعنی سالن بناتے ہو، میں نے کہا منان صاحب آٹا گوندھنے اور روٹی پکانے میں کونسی راکٹ سائنس کی فلسفی ہے وہ بھی کر لوں گا لیکن آج سے پہلے میں نے آٹا کبھی نہیں گوندھا ہے  تو ہنستے ہوئے کہنے لگے آج میری کور کمانڈی ہیں تو تم کو آٹا گوندھنا ہوگا۔ میں نے کہا کوئی پرواہ نہیں، میں کرلونگا۔ میں حقیقت میں آٹا گوندھنا بالکل نہیں جانتا تھا جب وہ تھوڑے دور بیٹھے ہوئے مجھے دیکھ رہے تھے تو زور زور سے ہنستے ہوئے کہنے لگے؛ کامریڈ دو ہاتھوں سے کون آٹا گوندھتا ہے! میں نے کہا میں دو ہاتھوں سے گوندھتا ہوں، پھر ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ کامریڈ تمہارا آتا بہت نرم ہوچکا ہے اس کو خود ہی روٹی بنانا۔ پھر مجھ سے ہر وقت یہی کہتا آٹا گوندھنا کامریڈ کی ذمہ داری ہے۔ منان کی اس شفقت و پیار نے مجھے چند دنوں میں آٹا گوندھنا سکھا دیا تھا وہ ایک شفیق کی حیثیت سے ہمیں ہر وقت ہر اس چیز کے باریں میں بتا رہے ہوتے تھے جو سرمچاروں کی ضرورت تھی۔

ہم درہ بولان کے حوالے سے فوجی ٹریننگ کر رہے تھے اس وقت منان بھی ہمارے ساتھ موجود تھے وہ خود کو کافی زیادہ تکلیف دہ مراحل سے گزارتے کئی کلو وزنی سامان کے ساتھ کئی کلومیٹر تک دوڑتے تھے منان نے ذہنی و جسمانی حوالے سے مکمل طور پر خود پر قابو پایا اور فرنٹ لائین میں موجود رہے تھے ۔

وہ ہر وقت اپنے آپ کو اور دوستوں کو مضبوط بننے کا کہتے اور تمام نئے آنے والے جہد کاروں کو حوصلہ دیتے تھے اس دوران ہمیں رات کے وقت کسی تنظیمی کام کے لئے جانا تھا رات بھی کافی تاریک تھی تو ہم نے اپنے مسافت کا آغاز کیا بولان کی  وادی میں مسلسل 5,6 گھنٹے کی تکلیف دہ مسافت کی، میں نے منان سے کہا یار یہ رات کا سفر بھی بہت تکلیف دہ ہیں اور کیسے خطرناک راستہ ہے ہم بھی گر رہے ہیں ہمارے لاغ یعنی گدھے بھی گر رہے ہیں کہیں آرام کر لیتے ہیں تو مجھے موٹیویٹ کرنے لگا؛ کامریڈ شروع شروع مَیں بھی ایسا تھا بس اپنے آپ کو مضبوط بناؤ یہ ایک گوریلا و جنگول کی زندگی ایسی ہے تکلیف کچھ وقت کے لئے ہوتا ہے جب دو منٹ کے لئیے ہم آرام کریں تو آپ کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم میں سے کوئی تھکا ہوا ہو منان ہمیں موٹیویٹ اور ہنسی مذاق کرتے ہوئے  اپنی منزل تک لے گیا۔

آپریشن درہ بولان مچھ  سے ایک شام پہلے مجھے سے کہا آؤ کامریڈ اس پہاڑ پر چلتے ہیں، میں اور منان دونوں ایک اونچی پہاڑی کے چوٹی پر گئے، مغرب ہونے کو تھی منان نے مجھے بتایا کہ یہ مچھ ہے اور ہم اسی شہر میں دشمن پر حملہ کریں گے اور دشمن کو بتائیں گے کہ ہم تم کو تمہارے کیمپ کے اندر آ کر ماریں گے تم بلوچ سرزمین پر کہیں بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھو گے۔ پھر کہنے لگا کامریڈ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس جنگ میں فدائی ساتھی بھی ہمارے ساتھ موجود ہونگے ہم سب دشمن پر قہر بن کے برسے گے۔ 29 جنوری کی شام کو ہم مچھ میں داخل ہوئے رات کو جنگ کا سماں تھا ہر طرف راکٹ، دھماکے، فائرنگ جس نے پنجابی سامراج  کے ساخت کو لرزاں دیا تھا مچھ شہر سمیت 70 کلومیٹر کا احاطہ بلوچ  سرمچاروں کے کنٹرول میں تھا  اس دوران ہماری ٹیم بھی اپنی ہدف پر گئی کئی ہماری اس ٹیم کو کمانڈ فدائی ذیشان آفتاب اور فدائی منان کر رہے تھے۔

صبح تک جنگی سلسلہ جاری رہا سرکاری و نیم سرکاری عمارتوں میں گھس کر پنجابی دلالوں کو مارا گیا اس دوران شہید منان زخمی ہوئے لیکن لڑتے رہے، بل آخر کماندار کی جانب سے ہمیں وہاں سے نکلنے کا کہا گیا تو منان کو زخمی حالت میں نکالا گیا پھر میں نے منان کو  پٹی وغیرہ کیا تو اسی دوران اپنی جیب سے خشک روٹی مجھے دی کہا کامریڈ کھاؤ مُجھے معلوم ہے تم بھوکے ہو۔ زخمی ہونے کی صورت میں منان کا کافی خون بہا لیکن وہ بہادری و دلیری کے ساتھ میدان جنگ میں موجود رہے اور  دشمن پر قہر بن کے برسے بل آخر 31 مارچ کو پاکستان  فوج کو شکست سے دو چار کرنے کے بعد تمام دوست مچھ شہر سے نکل کر اپنے محفوظ پناہ گاہوں کے طرف روانہ ہوئے منان نے  بھی 10,12 گھنٹے کا سفر  پاؤں زخمی ہونے کے باوجود نہایت دلیری سے طے کیا منان لفظی ہیر پھیر سے آزاد تھے وہ دلیلیں پیش نہیں کیا کرتا تھا بس کام کو خوبصورتی کے ساتھ انجام دے دیتا تھا ۔

منان وہ درویش تھے جس سے جو بھی ملتا تو وہ منان کا شیدائی بن جاتا تھا وہ ہر وقت اپنے جیب کو چوکلیٹ وغیرہ سے بھرے رکھتے تھے راستے میں بچوں اور مال چرانے والوں کو دیتے تھے اور ہر ایک عام بلوچ سے ایسے گھل مل جاتے جیسے کے ان سے ان کا کئی دہائیوں کا تعلق اور خونی رشتے ہوں۔

ہم  جب مختلف جگہوں پر  گشت کے دوران جاتے اور لوگوں سے ملتے تو وہ منان کا ضرور پوچھتے تھے کہ منان کیوں نہیں آیا وہ ٹھیک تو ہے اس کو سلام دینا میں نے محسوس کیا کہ ہم میں سے ان کا سب سے زیادہ لگاؤ منان کے ساتھ تھا کیونکہ منان ایک عاجزانہ شخص تھے جو سب سے ایک شفیق انسان کے طور پر پیش آتے تھے، منان بولان کے محاذ پر ایک گوریلا ٹرینر کے طور بھی کافی مشہورِ تھے ان کا بلوچ تحریک سے وابستگی کافی عرصے سے تھی ان کی سیاسی بھیٹک بی ایس او و بی این ایم جسے دوستوں سے ہوتی رہی بل آخر وہ مسلح جدوجہد میں شامل ہوگئے۔ فدائی ظفر عرف منان کا تعلق کراچی کے علاقے ماڑی پور سے تھا اور وہ پیشے کے لحاظ سے ایک ڈرائیور تھے لیکن دھرتی ماں کی محبت نے منان کو ایک سرمچار فدائی بنا دیا۔ فدائی ظفر نے 2022 میں بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی جلد ہی اپنی غیر معمولی جنگی مہارت اور غیر متزلزل عزم کے باعث مجید بریگیڈ میں شامل ہوئے۔

19 مارچ 2025 کو بی ایل اے کی جانب سے آپریشن درہ بولان کے مکمل اور دشمن کو تاریخی شکشت 354 قابض فوجی ہلاک کر دیا گیا اور مادر وطن کی حرمت پر بارہ بلوچ سرمچار شہید ہوئے جس میں فدائی منان بلوچ بھی شامل تھے یہ کارواں اپنی منزل کی جانب بہت ہی خوبصورتی سے رواں ہے جس کو روکنا کسی تنخواہ دار کی بس کی بات نہیں، بلوچ سرمچاروں کے عزم بہادری اور جنگی پالیسیوں نے پنجابی سامراج کے وجود پر ایسے معرکے کیں جن کی گونج نے پنجابی استعمار کے کانوں کو بہرا کر دیا اس کارواں میں شامل سرمچاروں نے دشمن کو یہ پیغام واضح طور پر دیا کہ بلوچ سرزمین پر آپ کا قبضہ کرنے کی کوششیں بے کار ہیں اور ہمارے جانب سے ہونے والے ہر حملہ آپ کے لئے تباہی و بربادی کا اعلان ہے۔

اس نظریاتی و فکری شعور کے فلسفہ کو اپنی حقیقی وجود میں لانے کے لئے بلوچ قوم کے  ہر فرزندان کو جنگ میں کھودنا پڑے گا کیونکہ یہ جنگ ہماری زندگی کی ضامن ہے قومی بقاء  کی ضامن ہے پنجابی سامراج کی جانب سے سکولوں اور کالجوں و یونیورسٹی و مذہبی اداروں یا ریاستی اداروں کی جانب سے جو بیج بلوچ معاشرے میں بوئے گئے ہیں ان کی نشوونما کو روکنا اور ان کو جڑ سے اکھاڑنے کا کام ہر زی شعور بلوچ کا حق ہے کہ وہ اپنی قومی بقا کے عمل میں حصہ ڈال کر اپنی قومی، سیاسی، انسانی و اخلاقی ذمہ داری کو پورا کرے چاہے وہ جس بھی شعبے سے وابستہ ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں