فدائی ظفر بلوچ مستقل مزاج انقلابی کا استعارہ
ایک عہد، ایک خوشبو، ایک الہام
تحریر: ایاز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کراچی کے شوریدہ حال مضافاتی علاقوں سے لے کر بولان کی سنگلاخ وادیوں تک کا سفر محض جغرافیائی فاصلے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی فکری و شعوری ہجرت کی داستان ہے، جو نسلوں کو خوابیدہ غلامی سے نکال کر حریت کی روشنی کی طرف لے جانے کی سعی تھی۔ شہید فدائی ظفر بلوچ کا یہ سفر، اپنی نوعیت میں نہ صرف ایک انقلابی مثال ہے بلکہ وہ ایک طویل المیعاد سیاسی و فکری عمل کی علامت بھی ہے، جس کا محرک بلوچ قوم کے زخم خوردہ شعور کی بیداری تھا۔ اُس کی زندگی کوئی مختصر داستان نہیں بلکہ صدیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے والے ایک سفر کا آغاز تھی۔ ایسا آغاز جو آج بھی جاری ہے، پہاڑوں کی خاموشی میں گونجتا ہے اور سمندروں کی لہروں میں بغاوت کی سرگوشی بن کر زندہ ہے۔
کراچی، جو بظاہر ترقی اور چمک دمک کا مرکز ہے، درحقیقت وہاں کے بلوچ اکثریتی علاقے، جیسے لیاری، ماڑی پور، ملیر اور کیماڑی، ریاستی جبر، گینگ وار، منشیات فروشی، بھتہ خوری اور اغوا و قتل جیسی وارداتوں کا مرکز بن چکے تھے۔ یہ علاقے محض نقشے کے نقطے نہیں تھے بلکہ بلوچوں کی اجتماعی شناخت کے زخم خوردہ حصے تھے، جنہیں ریاستی منصوبہ بندی کے تحت زنگ آلود کر دیا گیا۔ ان گینگ وارز کو محض جرائم پیشہ گروہ نہیں سمجھا جا سکتا، کیونکہ ان کے پیچھے ایک مکمل سیاسی منصوبہ بندی موجود تھی، جو ریاستی اداروں کی پشت پناہی سے تقویت پاتی رہی۔ ان کا مقصد واضح تھا: بلوچ نوجوانوں کو تحریک آزادی سے دور رکھنا، انہیں خوف، نشے اور قتل و غارت کی بھٹی میں جھونک کر ان کے شعور کو معطل کر دینا۔
ایسے گندے، مسموم اور خاموشی سے خون پیتے ماحول میں ایک آواز بلند ہوئی — شہید فدائی ظفر بلوچ کی۔ وہ آواز جو ابتداءً بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے ابھری، اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک گرجدار صدائے انقلاب میں تبدیل ہو گئی۔ اُس کی آواز میں لیاری کی گلیوں کی تلخی بھی تھی اور بولان کے پہاڑوں کی گرج بھی۔ سال 2013 میں جب ظفر نے طلبہ سیاست میں قدم رکھا، تو وہ صرف ایک طالبعلم نہیں بلکہ شعور کا چراغ بن کر نکلا۔ وہ دیواروں پر لکھا ہوا کوئی نعرہ نہیں، بلکہ اس نعرے کے پیچھے کھڑی ایک زندہ، جاگتی روح تھی۔ اُس کے قلم میں درد تھا، اُس کے الفاظ میں آگ، اور اُس کی نگاہ میں انقلاب کا خواب۔
ظفر بلوچ کا کردار اُس زمین سے جُڑا ہوا تھا جس نے اُس کے اندر بلوچیت کا احساس رچا بسا دیا تھا۔ اس نے نہ صرف لٹریچر، پمفلٹس اور تنظیمی مواد کو اپنے اردگرد پھیلایا، بلکہ ایک فکری تحریک کی صورت میں اپنے علاقے میں حریت کا چراغ روشن کیا۔ وہ انقلابی خوشبو، جو کبھی بالاچ مری یا شہید فدا کے جسم و جاں سے پھوٹتی تھی، اب ظفر کی سانسوں میں رواں ہو چکی تھی۔ بی ایس او آزاد کے دیوان یونٹ سے لے کر بی این ایم کے پلیٹ فارم تک اُس کی مسلسل کاوش ایک تسلسل کی گواہی تھی۔ وہ سلسلہ جو صرف تنظیمی ترقی نہیں بلکہ فکری بالیدگی، اجتماعی شعور اور قومی مزاحمت کی سمت میں جاری رہا۔
2017 میں جب اُس نے ماس پارٹی سیاست میں قدم رکھا تو وہ صرف جلسوں اور نعروں تک محدود نہ رہا، اس نے تنظیمی ڈھانچے کو بلوچ عوام تک لے جانے کا بیڑا اٹھایا۔ یونٹ سازی، اسٹڈی سرکلز، عوامی رابطے اور انقلابی تربیت اس کا مشن بن گیا۔ وہ کہتا تھا کہ “بلوچ عوام صرف مظلوم نہیں، وہ تاریخ کے وارث ہیں۔ انہیں صرف جگانے کی ضرورت ہے، راستہ وہ خود چن لیں گے۔”
بارہ سال!! یہ صرف وقت کی ایک مقدار نہیں بلکہ وہ عرصہ ہے جس میں ظفر بلوچ نے اپنی قوم کے ساتھ رشتہ نبھایا، اپنی زمین سے عہد وفا کیا، اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جدوجہد کی۔ بی ایس او آزاد کے سرکلز میں وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ بلوچ قوم کی نجات کا واحد راستہ مسلح جدوجہد ہے۔ اس کے نزدیک باتیں، سرکلز، جلسے جلوس تب تک بے معنی تھے جب تک وہ عملی قربانی میں ڈھل نہ جائیں۔
ظفر وہ شخص تھا جو نظریے کا پابند تھا، موقع پرستی اور منافقت سے نفرت کرتا تھا۔ وہ مزدوری کرتا، محنت سے اپنے اخراجات اٹھاتا، لیکن کبھی بھی اپنی انقلابی ذمہ داریوں سے پیچھے نہ ہٹتا۔ وقت کی پابندی، عملی یکجائی، اور اصول پسندی اُس کے خمیر میں شامل تھی۔ اُس کا ایمان تھا کہ ہماری یکجائی کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک ناگزیر قومی تقاضا ہے۔ اُس کی گفتگو میں لیاری کا لہجہ ہوتا، مگر اس کا دل بولان کی وسعتوں میں دھڑکتا۔ اُس کے خواب کوہ سلیمان کی چوٹیاں چھوتے تھے اور اس کی امیدیں بلوچستان کی ہواؤں میں گھل چکی تھیں۔
2022 کا جولائی ایک نئی تاریخ کا آغاز تھا جب ظفر بلوچ نے مسلح جہد کا باقاعدہ حصہ بن کر بلوچ لبریشن آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ اس نے بندوق اٹھائی، گولی کو نظریہ بنایا اور دشمن کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ تین سال تک وہ شورپارد، بولان، اور کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں وہ گم نام سایہ بن کر چھایا رہا جس سے دشمن لرزتا رہا۔ اس کی فدائیت، عشق، اور قربانی نے پہاڑوں کو گواہ بنالیا کہ بلوچ قوم کی مٹی میں ابھی وفادار بیٹے زندہ ہیں۔
مارچ 2025 میں، وہ لمحہ آیا جب مجید برگیڈ کے فدائین نے جعفر ایکسپریس کو ہدف بنایا، ایک ایسی کاروائی جس میں دشمن کے تین سو سے زائد فوجی مارے گئے، اور بارہ عظیم فدائین نے شہادت کا جام پیا۔ ان میں شہید ظفر بلوچ بھی شامل تھے۔ اُس کا لہو کسی ایک جسم کا خاتمہ نہیں، بلکہ اس سرزمین کے لیے ایک نئے عہد کا آغاز تھا۔ اس کی شہادت صرف فدائیت کی معراج نہیں بلکہ بلوچ قوم کے انقلابی سفر میں ایک خوشبودار سنگ میل تھی۔
شہید ظفر بلوچ اپنی فطرت میں دوٹوک، سادہ مزاج، اور نظریاتی شفافیت کا نمونہ تھا۔ وہ تنظیمی حدود کی پابندی اور اخلاقی اصولوں کا پیروکار تھا۔ اس کے نزدیک جھوٹ، منافقت اور دوغلاپن بدترین جرائم تھے۔ وہ انقلاب کو محض نعرہ نہیں، بلکہ ایک مقدس ذمہ داری سمجھتا تھا۔ اس کی زندگی میں کوئی دکھاوا نہ تھا، نہ کوئی ذاتی لالچ۔ وہ صرف اور صرف اپنی قوم کی نجات کے خواب میں جیتا تھا۔ اس کے لیے وہ پہاڑوں میں گمنامی کو ترجیح دیتا رہا، لیکن اس کی خاموشی میں بھی بغاوت کا شور تھا، اس کے قدموں کی چاپ میں انقلاب کی صدائیں تھیں۔
آج جب ہم شہید ظفر بلوچ کو یاد کرتے ہیں، تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک عہد کا نام تھا۔ اُس کی موجودگی سے جو روشنی پھوٹی، وہ آج بھی ہمارے قافلوں کا رہبر ہے۔ اُس کی قربانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ آزادی محض خواب نہیں بلکہ اس کے لیے لہو کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔
اے شہید، تیرا سفر مکمل ہوا، مگر تیری فکر ابھی سفر میں ہے۔ ہم وہ قافلہ ہیں جسے تُو نے فکری اسلحہ دیا، جسے تُو نے قربانی کا مفہوم سمجھایا۔ تُو گیا، لیکن تیرے نقش پا ہمیں رہ دکھاتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تیرے بغیر یہ جدوجہد تنہا ہے، لیکن ہم فخر سے کہتے ہیں کہ تُو ہمارا سنگت تھا، تُو ہمارا معلم تھا، تُو اس دھرتی کا محافظ تھا۔
تُو اب بولان کی کسی چوٹی پر یا کسی گھاٹی میں ابدی نیند سو رہا ہوگا۔ مگر ہمیں معلوم ہے کہ ہر صبح کی ہوا میں تیری خوشبو شامل ہے، ہر گولی کی آواز میں تیرا نظریہ زندہ ہے، اور ہر فدائی کی آنکھ میں تیرا خواب پلتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں