عدالت انصاف فراہم کرنے کے بجائے مسلسل حکومتی دباؤ اور سیکیورٹی اداروں کے فیصلوں پر انحصار کر رہی ہے۔ ہمشیرہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

63

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی ہمشیرہ نے کہا ہے کہ 5 مارچ کی صبح 5 بجے، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بیبو بلوچ کو ایک پُرامن احتجاجی دھرنے سے غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔ انہیں نوآبادیاتی دور کے کالے قانون “3 ایم پی او” کے تحت دیگر ساتھیوں سمیت ہدہ جیل میں قید رکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم، یعنی لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی، نے ابتدا ہی سے اس غیر قانونی گرفتاری کے خلاف قانونی راستہ اختیار کیا اور معزز عدالت سے رجوع کیا۔ تاہم، افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ عدالت انصاف فراہم کرنے کے بجائے مسلسل حکومتی دباؤ اور سیکیورٹی اداروں کے فیصلوں پر انحصار کر رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 10 اپریل کو کیس کی سماعت مکمل ہوئی، اور یہ توقع تھی کہ عدالت جلد از جلد رہائی کا حکم دے گی کیونکہ حکومتی وکلاء ڈاکٹر ماہ رنگ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کوئی قانونی جواز یا ثبوت پیش نہ کر سکے۔ اس کے باوجود عدالت نے فیصلہ مؤخر کرتے ہوئے کیس کو ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سپرد کر دیا — جو خود اس غیر قانونی گرفتاری میں فریق ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بعد ازاں ہوم ڈیپارٹمنٹ نے گرفتاری کی مدت میں ایک ماہ کی مزید توسیع کر دی، جس کے خلاف دوبارہ عدالت سے رجوع کیا گیا۔ ابتدائی سماعت میں عدالت نے واضح طور پر حکم دیا کہ اگر اگلی پیشی میں حکومتی وکلاء ثبوت فراہم نہ کر سکے تو تمام گرفتار افراد کو رہا کر دیا جائے گا۔ تاہم، اگلی سماعت میں بھی حکومت کوئی ثبوت یا دلیل پیش نہ کر سکی۔ ہمیں توقع تھی کہ عدالت اپنے ہی اصولوں کی روشنی میں رہائی کا حکم دے گی، مگر کیس کو ایک بار پھر پانچ دن کے لیے مؤخر کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بی وائی سی کے دیگر کارکنان کے کیس کو مسلسل مؤخر کرنے سے عدالتی وقار کو ٹھیس پہنچ رہی ہے اور عوام کا اعتماد عدالتی نظام سے اٹھتا جا رہا ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ کل، بروز پیر، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر ساتھیوں کی ایک بار پھر عدالت میں پیشی ہے۔ ہم تمام وکلاء برادری سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ کل کی سماعت میں ہماری حمایت کریں، عدالت میں موجود رہیں اور اس قانونی جدوجہد کو مضبوط بنائیں۔