عاشقِ سرزمین شہید آغا عابد شاہ بلوچ – عزت بلوچ

70

عاشقِ سرزمین شہید آغا عابد شاہ بلوچ

(چودویں برسی)

تحریر: عزت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ان کے چاہنے والے ہزاروں میں تھے ،لیکن ان کے قریب بس چند ہی دوست تھے ۔سب محبت اور احترام سے ان کو ڈاکٹر بلاتے تھے۔جب میں پہلی بار ان سے ملا تو سوچا اتنی کم عمری میں انھوں نے ڈاکٹر کی ڈگری کیسے حاصل کیا ہے ،ابھی تو ان کالج میں فرسٹ ایئر کا طالب علم ہونا چاہیے تھا ،میرے استفسار کے بعد معلوم ہوا دراصل وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہیں ان کے پاس ایک ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے جس کو سماجی طور پر ان کے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں سماج نے عطا کیا تھا اس لیے وہ ڈاکٹر کے نام سے مشہور تھا۔میں نے اتنے پرخلوص اتنے ایماندار سچا انسان اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔اپ ے درد سے زیادہ دوسروں کے درد کا علاج اس صورت میں جب خود کا درد دوسرے سے زیادہ ہو،مگر کسی بھی وقت یہ ہونا ناممکن تھا کہ وہ خود کو دوسروں پر ترجیح دیں ۔اس دنیا میں فرشتوں کی آمد کے متعلق کافروں کے ایک سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر میں فرشتوں کو زمین پر اتار دوں ،تو وہ انسان کے شکل میں ظاہر ہونگے اور تم پھر یہی کہوگے کہ یہ تو ہماری تمہاری طرح کے انسان ہیں۔اس کا مطلب تو یہی ہے کہ زمین پر انسانوں کے روپ فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے اترتے ہیں وہ ہمارے سامنے ہوتے ہیں مگر ہم ان کو انسان سمجھ کر نظر انداز کر گزرتے ہیں ۔یا پھر ان کو مار کر اس کی لاش کسی ویران مقام پر دفنا دیتے ہیں ۔مگر کاش کہ انسان مر جاتا ۔زندگی ایک ایسی نعمت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک ابدی حیات بخش دی ہے۔اس لئے زندگی موت سے مبرّا ہے۔ہاں کل نفس موت کا ذائقہ ضرور چکھیں گے ۔نفس جسم ہے اور جسم زندگی نہیں ۔شاید ان کو بھی جسم یا نفس سمجھ کر مار دیا گیا تھا۔لیکن وہ مارنے کے بعد زیادہ وسیع رقبے پر پھیل گیا پہلے وہ ایک جسم ایک نفس کی قید میں بند تھا ۔قران مجید میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ شہید زندہ ہیں ان کو مردہ مت کہو وہ ہمارے پاس سے رزق کھاتے ہیں،لیکن تمہارے پاس اس بات کو سمجھنے کی شعور نہیں۔

بلوچ قوم کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ایک ایسے دشمن کے خلاف نبرد آزما ہے کہ اس کے پاس طاقت تو بے پناہ موجود ہے مگر شعور کے اعتبار سے مکمل بے شعور ہے،اس لئے تم کسی بھوکے درندے کو منطق اور دلیل سے یہ نہیں سمجھا سکتے کہ میرا وجود کس قدر زخمی ہے ۔بقول نمیران قاضی مبارک ۔کچک نہ زانت کہ ہڈ ءَ را چنت زیم بر انت۔

شہید گلزمین آغا عابد شاہ بلوچ کے متعلق بھی ان چند ٹکوں پر بکنے والے دلالوں اور ان کے مالکوں کے پاس یہ شعور نہیں تھا کہ ایک عاشق اور ایک تنخواہ دار سپاہی کے درمیان فرق یہ ہے کہ جب ایک تنخواہ دار سپاہی مرتا ہے تو اس کا دور ختم ہوتا ہے۔مگر گلزمین کے عاشق جب پروانوں کی طرح پھول سمجھ کر آگ کو گلے لگاتے ہیں توان کی حکمرانی کا دور شروع ہوتا ہے ۔دنیا کا پہلا انقلاب ابراہیمی انقلاب تھا جب حضرت ابرہیم علیہ وسلم نے نمرود کی فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف پہلی عوامی انقلاب کی بنیاد رکھ دیا اور اس کے لئے ان کو آتش نمرود سے ہوکر گذرنا پڑا۔اور آج تک اور رہتی دنیا تک ابراہیم اور آل اِبراھیم پر درود و سلام کا سلسلہ جاری ہے ۔

اور نمرود کا نام لیوا اس دنیا میں موجود نہیں ۔اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ وسلم کے موسوی انقلاب ہے جس میں 31 فراعین مصر کے تین ہزار سلسلہ جاری فوجی ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہوا۔آخری فرعون رعمسیس جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں مصر کا فوجی حکمران تھا اس نے اپنے67 سالہ دورِ حکومت میں 90 ہزار بنی اسرائیلی بچوں کی نسل کشی کی،مگر اس کے باوجود رہتی دنیا دور حکمرانی موسیٰ علیہ السلام کا جاری ہے اور تمام تر سفاکیت اور تمام تر ریاستی دہشت گری کے باوجود تین ہزار سال تک مصر پر حکمران رہنے والے فراعین مصر کا نام و نشان تک باقی نہیں ۔

آج ہم ایک ایسے ہی ایک انقلابی درویش صفت سیاسی کارکن کی زندگی کے بس ایک معمولی سی جھلک پر بات کررہے ہیں جس نے اپنی پوری زندگی انتہائی ایمانداری کے ساتھ اپنے سیاسی اور نظریاتی اصولوں پر قربان کردی ۔شہید آغا عابد شاہ بلوچ نہ صرف ایک سیاسی اور کٹر نظریاتی جہد کار تھے بلکہ وہ سماجیات میں ڈاکٹر تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ تمام معاشرتی اور سماجی محکومی و محرومیوں کی بنیادی وجہ قومی غلامی ہے،جو جسمانی سے زیادہ ذہنی غلامی کی خطرناک سطح پر موجود تھا جس سے بلوچ قومی شعور کی تنقیدی بیداری کے راہ میں ہماری طاقت سے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔لیکن ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کا عزم ہر اس انقلابی صحابی کے ایمان کا حصہ ہے کہ طاقت اور حق کی اس ازلی جنگ میں جیت ہمیشہ حق کی ہوگی اس لئے یہ ایک انقلابی کارکن کی ثابت قدمی ہے جس کے آگے کوئی طاقت تاریخی طور پر موجود تمام حقائق کے مطابق اپنا مصنوعی وجود قائم نہیں رکھ سکا۔اس لئے جنرل مشرف کے سیاہ ترین فوجی دور میں جب بلوچ سیاسی اور سماجی تعلیم یافتہ کارکنوں کو لاپتہ کرنے اور ان کے مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا نا ختم ہونے والا غیر انسانی سلسلہ شروع ہوا تو بجائے خاموش ہونے،ڈرنے اور خوف زدہ ہونے کے شہید آغا عابد شاہ نے اس غیر انسانی ریاستی درندگی کے خلاف گلیوں سڑکوں اور بازاروں میں عوامی طاقت کو منظم کرکے ریاستی طاقت کے بے رحم اور غیر قانونی استعمال کے خلاف آواز بلند کرکے ان فوجی جرنیلوں کو یہ پیغام دیا کہ طاقت اور فوجی آپریشن سے بلوچ قومی آواز کو خاموش نہیں کیا جاسکتا ۔

اس لئے اپنے مقامی مخبروں اور دو ٹکے کے دلالوں کی ملی بھگت سے شہید آغا عابد شاہ کو سول اسپتال پنجگور سے ان کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ سیاسی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اپنے سماجی رضا کار جذبہ کے ساتھ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک مریض کے لیے خون کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے موجود تھا۔ایک بہت بڑے فوجی گاڑیوں کے قافلے نے پورے سول اسپتال کو چاروں طرف گھیر کر ان کو گرفتار کرکے دن دھاڑے پنجگور ایف سی کیمپ منتقل کردیا گیا ۔تقریبا ایک سال تک وہ سفیر بلوچ اور ستار بلوچ کے نامعلوم مقام پر رکھ کر ان کو انسانیت سوز ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی گئیں ۔مگر ایک سال تک ان اذیت گاہوں میں ہر قسم کے ناقابل بیان اذیتیں سہنے کے باوجود بلوچ مادر وطن کے یہ کٹر نظریاتی قوم پرست اور موجودہ جدید مزاحمتی تحریک کے بانی رکن نے ایک انچ اپنے نظریات اصولوں سے پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا۔

اس لئے ریاست کے فوجی قیادت نے کو ساتھیوں سمیت انہی فوجی عقوبت خانوں میں ڈرل کرنے اور انتہائی قریب سے گولیاں مار کر ان کی شناخت کو مسخ کرنے کے لیے تیزاب پھینک کر سوراپ نامی ایک جنگل میں کسی نامعلوم جگہ پر رات کے اندھیرے میں دفن کردیا ،مگر حق کی راہ میں شہید ہونے والے ان زمین زادوں کو ایک ماں کی طرح پھر اپنی کھوکھ سے پیدا کیا۔

گولیاں مارنے چہروں کو تیزاب سے مسخ کرنے اور زمین میںدفن ہونے کے باوجود بلوچ گلزمین نے 11/مئی 2011 کو اپنے ان سچے عاشقوں کو دوبارہ جنم دیا ،ان کی مسخ شدہ لاشوں کو شناخت عطا کی پنجگور کے عوام نے اپنے انقلابی رہنما شہید آغا عابد شاہ اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے سیاسی کارکنوں سفیر بلوچ اور ستار بلوچ کو قومی اعزاز اور احترام کے ساتھ سپرد زمین کردیا ۔

شہید آغا عابد شاہ بلوچ قوم کے وہ واحد سیاسی رہنما تھے جن کی گرفتاری کے وقت پندرہ دن تک پنجگور میں رضاکارانہ طور پر شٹر ڈاون پہیہ جام ہڑتال جاری رہا۔اور ان کی شہادت کے بعد پنجگور میں بلوچ نوجوانوں کے دل میں پر امن سیاسی جد وجہد سے یقین ختم ہوگیا اور پنجگور میں مسلح جدو جہد اور مزاحمت کی ایک ایسی آگ بھڑک اٹھی جس نے ریاست کی رٹ کو فوجی کیمپ اور چھاؤنیوں تک محدود کردیا ۔

اپنے شہادت سے قبل سیاسی کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہید آغا عابد شاہ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ریاست اپنے فوجی طاقت کے زریعے پُرامن جمہوری انداز میں جدو جہد کرنے والے سیاسی کارکنوں کو آسان ہدف کے طور پر نشانہ بناکر راستے سے ہٹانے کی پالیسی پر گامزن ہے ،اور اس گھناونے عمل ان کی معاونت وہ مقامی سیاسی دلال بھی کررہے ہیں جن کو اپنی ذاتی مفادات اور پارلیمانی خواہشات کی تکمیل خطرہ میں نظر آرہے ہیں ،لیکن ان بے شعور دشمنوں کو اس بات کی شعور نہیں کہ بلوچستان میں دراصل وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا قبر کھود رہے ہیں۔

میری یہ باتیں لکھ کر اپنے پاس رکھ لیں کہ ان بلوچ دشمن قابض قوتوں اور ان کے مقامی مخبروں ایجینٹ اور گماشتوں کو بلوچستان سے بھاگنے کے لیے راستہ نہیں ملے گا ۔اور آج ہم دیکھ رہے ہیں بلوچستان ہر اس بلوچ دشمن قوت کےلئے قبرستان بن گیا ہے ۔اور شہداء بلوچستان کا دور حکمرانی ہر گزرتے وقت کے ساتھ بلوچ قومی مزاحمتی فکر و نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتا رہے گا ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں