شہید میر ک- آپ کی یاد بہت آتی ہے – سنگت کوہی

107

شہید میر ک- آپ کی یاد بہت آتی ہے

تحریر: سنگت کوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ویسے تو بلوچستان کی جنگ میں ہزاروں نوجوانوں نے اپنی جان وطن پر قربان کی ہے۔ ان میں سے ہر ایک شہید کا مقام ہمارے دلوں میں بہت بلند ہے، مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صرف ایک سپاہی نہیں ہوتے، وہ دل کے بہت قریب ہوتے ہیں۔ ان سے ہمارا رشتہ صرف جدوجہد یا مورچوں تک محدود نہیں ہوتا — بلکہ وہ ہماری یادوں، باتوں، اور دعاؤں کا ہمیشہ کے لیے حصہ بن جاتے ہیں
شہید میر ک ایسے ہی ایک دوست تھے۔ وہ صرف ایک ساتھی نہیں، بلکہ ایک بھائی، ایک رازدار اور ایک ایسا انسان تھے جن کے ساتھ بیٹھ کر وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ ان کی ہنسی، ان کی باتیں، ان کی بہادری اور نظریاتی وابستگی آج بھی ہمارے ذہن و دل میں تازہ ہیں۔

یاد ہے جب وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے: “زندگی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انسان اپنے مقصد پر ثابت قدم رہے۔” اور واقعی، میر ک نے اپنے قول کو عمل میں بدل دیا۔ انہوں نے اپنی جان دے دی، مگر کبھی اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹے۔

ہم آج بھی ان کی گلی سے گزرتے ہیں تو وہ خالی جگہ دل کو چبھتی ہے۔ محفل میں وہ مسکراہٹ نہیں ملتی، مورچے میں وہ حوصلہ افزائی سنائی نہیں دیتی۔ لیکن ہم جانتے ہیں، وہ ہم میں زندہ ہیں ہماری سوچ میں، ہماری جدوجہد میں، اور ہر اس دن میں جب ہم آزادی کا خواب دیکھتے ہیں۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب میں پہلی مرتبہ 2023 میں شہید میرک سے ملا۔ اُس لمحے کا نقش آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔ اُس نے میری طرف دیکھا، ایک ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر آئی، جیسے کہ وہ پہلے سے مجھے جانتا ہو۔ اُس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا سکون تھا، اور چہرے پر وہ وقار جو شاید صرف وہی لوگ رکھتے ہیں جو سچائی اور قربانی کا راستہ چنتے ہیں۔

پھر تھوڑی دیر بعد، جب سارے دوست جا چکے تھے اور محفل کا شور تھم چکا تھا، میرک آہستہ سے میرے پاس آیا۔ اُس نے نرمی سے کہا، “میں تمہیں جانتا ہوں۔” یہ جملہ سن کر میں کچھ لمحے کے لیے خاموش ہو گیا۔ اُس کی آواز میں ایک عجیب مانوسیت تھی، جیسے ہم ماضی کے کسی لمحے میں پہلے ہی مل چکے ہوں۔ اُس کے انداز میں نہ کوئی غرور تھا، نہ کوئی بناوٹ—بس خلوص اور سچائی
پھر شہید میرک نے مسکراتے ہوئے کہا، “آپ بہت اچھا لکھتے ہیں، میں آپ کی تحریریں پڑھتا ہوں۔” یہ سن کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ اُس نے مزید بتایا کہ ہم پہلے بھی رابطے میں آ چکے ہیں۔ جیسے ہی اُس نے یہ بات کہی، تو میرے ذہن میں وہ پرانے لمحات تازہ ہو گئے اور میں نے فوراً میرک کو پہچان لیا۔ اُس لمحے کے بعد ہماری دوستی میں ایک نئی گہرائی آ گئی۔ باتوں باتوں میں یوں لگا جیسے ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں۔

ہم تقریباً دو سال تک ایک ہی کیمپ میں ساتھ رہے۔ ان دنوں میں، میرا اور میرک کا رشتہ محض دوستی سے بڑھ کر بھائی چارے میں بدل گیا تھا۔ ہم ایک دوسرے کے بہت قریب ہو گئے تھے دکھ، خوشی، تھکن، محنت—سب کچھ ایک ساتھ جھیلا۔ شہید میرک نہ صرف ایک بہادر انسان تھا، بلکہ ایک ایسا دوست بھی تھا جو دل سے ساتھ نبھاتا تھا۔ اُس کی باتیں، اُس کی ہنسی، اُس کی سوچ آج بھی میرے دل میں زندہ ہیں۔

ہماری دوستی صرف دو افراد کے رشتے تک محدود نہیں تھی، مگر شہید میرک کی محبت اپنی زمین، اپنی بلوچ قوم کے لیے کہیں زیادہ گہری اور عظیم تھی۔ وہ دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا، اپنے خاندان کا آخری سہارا۔ پھر بھی، اُس نے اپنے ذاتی دکھ، اپنی ماں کی ممتا، اپنی بہنوں کی محبت کو پسِ پشت ڈال کر اپنی مٹی، اپنی قوم کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔

میں آج بھی جب اُس کی شہادت کو یاد کرتا ہوں، تو ایک درد تو ضرور محسوس ہوتا ہے، مگر اُس سے بڑھ کر فخر محسوس ہوتا ہے فخر اس بات پر کہ میرک جیسے بہادر، باشعور اور سچے نوجوان ہماری صفوں میں موجود تھے۔ انہی کی قربانیوں کی بدولت آج ہم شعور، حوصلے اور جدوجہد کے اس مقام پر پہنچے ہیں۔

میرک، آج تم ہمارے درمیان جسمانی طور پر موجود نہیں ہو، مگر تمہاری قربانی، تمہارا جذبہ، اور تمہاری یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی۔

میں جانتا ہوں کہ میرک کی قربانی اتنی عظیم ہے کہ اُس کے سامنے میرے الفاظ بے حد چھوٹے اور کمزور لگتے ہیں۔ لیکن کیا کروں جب بھی تمہاری یاد آتی ہے، دل بے چین ہو جاتا ہے، اور میں قلم اٹھا لیتا ہوں۔ مگر پھر محسوس ہوتا ہے کہ میرے قلم میں وہ طاقت ہی نہیں کہ تمہاری قربانی کا حق ادا کر سکے۔

میرک، تم صرف ایک دوست یا ساتھی نہیں تھے، تم ایک جذبہ تھے، ایک روشنی تھے، جو آج بھی ہمارے دلوں میں روشن ہے۔ تمہاری بے مثال قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ زمین، قوم، اور حق کے لیے جینا اور مرنا ہی اصل وقار ہے۔

تم ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہو گے، تمہارا نام، تمہارا کردار، اور تمہارا مشن ہماری نسلوں تک پہنچتا رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں