بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ کی جانب سے بی وائی سی رہنماؤں پر بلاجواز کریک ڈاؤن، غیرقانونی گرفتاریوں اور جیلوں میں ڈال کر ان پر تشدد کے خلاف ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار میں مختلف سیاسی و سماجی کارکنوں اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ بلوچ آواز کو دبانے کے لیے “وائس آف بلوچستان” جیسے پروپیگنڈہ پلیٹ فارمز کو کروڑوں کی فنڈنگ فراہم کی جاتی ہے، مگر یہ ناممکن ہے کہ بلوچ کا خون اور لاشیں خاموش رہیں، وہ بولتی ہیں۔ میرے یہاں آنے کا مقصد ریاستی خوف کو ختم کرنا ہے۔ جو خون بہایا جا رہا ہے، وہ خود ہماری مزاحمت کی ضمانت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست نے ہماری ماؤں کو جو درد دیا ہے، اسے خاموشی سے برداشت کرنا اب ممکن نہیں۔ وہ مائیں جو اپنے پیاروں کو کھو چکی ہیں، وہی ہماری مزاحمت کی علامت ہیں۔ ہمیں انہیں یہ امید دینی ہوگی کہ بلوچ قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ ہر جعلی مقابلے میں کوہلو، کاہان اور بارکھان کے مری بلوچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک ہی گھر سے والد سمیت دو بیٹوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے، پھر ایک جعلی مقابلے میں ایک بھائی کی لاش اور دوسرے میں دوسرے بھائی کی لاش پھینکی جاتی ہے، جبکہ والد تاحال لاپتہ ہوتا ہے۔ اور ریاست یہ امید کرتی ہے کہ ان کی مائیں اور بہنیں خاموش رہیں گی؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا: “ہمیں اس ماں، اس بہن تک ایک آواز پہنچانی ہے۔ وہ آواز یہ ہے: ماں! تم خاموش نہ ہونا، تمہارے ساتھ بلوچ قوم کھڑی ہے۔ ہمیں ریاست کے ڈر کو قبول نہیں کرنا بلکہ اس کے خلاف ذہنی و عملی مزاحمت کرنی ہے۔ جن سرداروں اور میر معتبروں کے پیچھے ہم بھاگتے ہیں، کل وہی ہمارے بچوں کے قاتل بنیں گے۔ آج یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ بلوچ، بلوچ کا دشمن ہے۔ میں اس تاثر کو ختم کرنے آئی ہوں۔ ہمیں متحد ہو کر اس مزاحمت کو جاری رکھنا ہے، یہی بہتا خون ہماری بقا اور کامیابی کی ضمانت ہے۔”
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ بلوچ کو پاکستان یا پاکستان کو بلوچ بننا ہوگا۔ بلوچ جبر کے بدلے جبر کا راستہ اپنائے، یا ریاست اسے حق دے — جینے، سیاست اور خود ارادیت کا حق۔ جب تک یہ حقوق نہیں دیے جاتے، ہمیں آخری سانس تک مزاحمت کرنی ہوگی۔ مزاحمت صرف پہچان نہیں، بلکہ بقا کا واحد راستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ ماؤں کا دکھ، درد اور تکلیف ہر باشعور فرد کی قومی میراث ہے۔ لاپتہ افراد کی داستانیں اور جعلی مقابلے محض انفرادی المیے نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہیں۔ ان کہانیوں کو ہر علاقے میں پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کوئی بلوچ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو چھپانے کے بجائے اسے آشکار کرے، تاکہ انفرادی درد اجتماعی آواز میں ڈھل سکے۔
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے مزید کہا کہ ہر بلوچ کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جو ڈاکٹر ہے وہ زخمی بلوچوں کا دل سے علاج کرے، جو وکیل ہے وہ لاپتہ یا مظلوم بلوچوں کا مقدمہ لڑے، اور جو عام شہری ہے وہ کسی زخمی یا بیمار بلوچ کو ہسپتال تک پہنچانے میں مدد دے۔ جب ہر فرد خود کو اجتماعی شعور سے جوڑ دے گا، تب ہی ایک مضبوط قومی یکجہتی ممکن ہو سکے گی۔
انہوں نے ریاستی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر ریاست سمجھتی ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا خاتمہ ممکن ہے، تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ بی وائی سی صرف ایک نام نہیں بلکہ ایک تحریک ہے، جو ہر باشعور بلوچ کے دل میں زندہ ہے۔ جب تک بلوچ موجود ہیں، بی وائی سی بھی زندہ رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ عوام اپنی کہانی، درد اور مسائل بی وائی سی کے پلیٹ فارم تک پہنچائیں تاکہ وہ آواز پورے معاشرے اور دنیا تک پہنچ سکے۔
سیمینار میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے رہنما محراب گچکی ایڈووکیٹ اور کیچ بار ایسوسی ایشن کے صدر مجید شاہ ایڈووکیٹ نے بھی خطاب کیا۔
انہوں نے لاپتہ افراد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عدالتی انصاف کی عدم فراہمی پر تفصیلی گفتگو کی۔ اس موقع پر لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کے ساتھ ایک پینل ڈسکشن کا بھی اہتمام کیا گیا، جہاں انہوں نے اپنے پیاروں کی گمشدگی کے دردناک واقعات بیان کیے۔
سیمینار میں ادب و ثقافت کو بھی اہمیت دی گئی۔ ایک محفلِ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس میں مقامی اور معروف شعراء نے بلوچ قوم کی حالت، جدوجہد اور امیدوں پر مبنی اشعار پیش کیے۔
یہ سیمینار رات گئے تک جاری رہا اور اختتام پر شرکاء نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مشن اور مقاصد سے مکمل یکجہتی کا عہد دہرایا۔