ریاستی چالیں اور بلوچ نوجوان
تحریر: نادیہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ریاست بلوچ کی نوجوان نسل کو طرح طرح کی لالچ دے کر خریدنا چاہتی ہے، تاکہ وہ اپنی ہی قوم کے خلاف غداری کرے۔ وہ بلوچ کو حقیقی تعلیم سے دور رکھ کر اسے حقیقت سے ناآشنا رکھنا چاہتی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اگر بلوچ سچے علم کی طرف گامزن ہوا تو وہ اس کے قابو سے نکل سکتا ہے۔
ریاست بلوچ کے شعور سے ڈرتی ہے، بلوچ کی آواز سے خوف کھاتی ہے، اس کی مزاحمت، اس کے ادب سے لرزتی ہے۔ آج بلوچ اپنی قوم پر ہونے والے مظالم کو ادب کے ذریعے دنیا تک پہنچا رہی ہے، اور ریاست اپنی ہر ناکام کوشش سے اسے دبانا چاہتی ہے۔
تعلیم وہ راستہ ہے جس کے ذریعے مظلوم قوموں نے بولنا سیکھا، اپنے حقوق پہچانے۔ میکسم گورکی کی کتاب ماں اسی شعور کی عکاسی کرتی ہے، جس میں مرکزی کردار ابتدا میں بے شعور ہوتا ہے، لیکن کتابیں پڑھنے کے بعد اس کے اندر ایک نیا انسان جنم لیتا ہے۔ وہ حقیقت سے آشنا ہوتا ہے، اور حقیقت سے واقف انسان کے لیے زندگی سخت ہو جاتی ہے۔ وہ چیزوں کو مختلف زاویے سے دیکھتا ہے، اور جو چیز اسے قبول نہیں، اسے بدلنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ آگے چل کر وہ اپنے لیے مصیبتوں کا دروازہ کھولتا ہے۔ ناول کی مرکزی کردار کو جیل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، مگر ایک رواقی انسان کے لیے جیل محض قید نہیں، بلکہ غور و فکر کی ایک جگہ ہوتی ہے، جہاں وہ چیزوں کو بہتر انداز میں پرکھتا ہے۔
ایک باشعور انسان ہر وقت رواقیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ہماری قوم کی نوجوان نسل نوآبادیاتی نظام کو سمجھ چکی ہے، اور شعوری فیصلے کی بنیاد پر پہاڑوں کا رخ کر رہی ہے۔ وہ اپنی ذاتی خواہشات اور خاندان کو پیچھے چھوڑ کر قوم کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہی جنگ واحد راستہ ہے جو ہمیں پُرامن آزادی دلا سکتی ہے۔
اگر ہم ان جنگجوؤں کے شانہ بشانہ کھڑے نہیں ہو سکتے، اگر ان کی تعریف میں چند لفظ بھی نہیں کہہ سکتے، تو کم از کم ہمیں خاموش رہنا چاہیے۔ ان کی قربانیوں کو ضائع کرنا اپنے ضمیر سے غداری کے مترادف ہے۔
آج ریاستی تعلیمی ادارے ہماری نوجوان نسل کی ذہن سازی کر رہے ہیں۔ انہیں ریاستی پروگراموں میں شامل کر کے ان کے ذہنوں کو الجھا رہے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ محض تنخواہ کے پجاری ہیں۔ کیڈٹ کالج جیسے ادارے، جہاں اصل تعلیم سے محروم اساتذہ نوجوانوں کے ذہنوں میں انتشار بھر رہے ہیں، دراصل ذہنی غلامی کے اڈے بن چکے ہیں۔
تربت کا کیڈٹ کالج باقی کالجوں سے بالکل مختلف کیوں ہے؟ اس کا ہر پہلو خود گواہی دیتا ہے کہ ریاست کو بلوچستان کی ترقی یا بہترین فنِ تعمیر (آرکیٹکچر) سے کوئی دلچسپی نہیں، بلکہ وہ صرف ذہنوں پر قبضہ چاہتی ہے۔ ایک طرف ریاست باقی اسکول ایسے بناتی ہے جہاں بنیادی سہولیات تک موجود نہیں، اور دوسری طرف کیڈٹ کالج کو شاندار ڈیزائن، عمدہ آرکیٹکچر دے کر الگ تعلیم کا ایک خوشنما فریب دکھایا جاتا ہے۔
لہٰذا ہمیں استعمار کی ہر چال کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ اپنے بچوں کو ان اداروں میں بھیج کر ہم انہیں حقیقت، صحیح اور غلط کی پہچان سے دور کر رہے ہیں۔ یہی نوجوان نسل آگے چل کر اپنی ہی قوم کے لیے رکاوٹ بن سکتی ہے۔ ہمیں انہیں حقیقی تعلیم دے کر ان کے قومی فرائض سکھانے ہوں گے۔ انہیں اس جنگی نظام کا شعور دینا ہوگا تاکہ وہ خود کو اور اپنے لوگوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔
اگر ہم اپنی قوم کی آزادی کی جنگ میں شامل نہیں ہو سکتے، تو خدارا، اپنے ضمیر کا سودا نہ کریں، اور ہمارے جنگجوؤں کے گوارخ جیسے لہو کو رائیگاں نہ جانے دیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔