دُکی: کان حادثے میں کانکن جانبحق

97

دُکی میں ایک مقامی کوئلہ کان میں مٹی کا تودہ گرنے کے باعث ایک کان کن جانبحق ہو گیا، پولیس کے مطابق واقعے کے بعد کان کن کی لاش اپنی مدد آپ کے تحت کوئلہ کان سے نکالی گئی ہے۔

جاں بحق کان کن کی شناخت حبیب اللہ کے نام سے ہوئی ہے، جو قلعہ سیف اللہ کا رہائشی تھا، پولیس نے ضروری کارروائی مکمل کرنے کے بعد لاش ورثا کے حوالے کردی ہے۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں حفاظتی اقدامات کے فقدان کے باعث اکثر جان لیوا حادثات پیش آتے رہتے ہیں، جن میں اب تک سینکڑوں مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا زخمی ہو چکے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع، بشمول کوئٹہ، بولان، ہرنائی، لورالائی اور دُکی، میں 256 ملین ٹن سے زائد کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔

پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مطابق کوئلہ کان کنی کے شعبے سے بلوچستان میں ایک لاکھ سے زائد مزدور وابستہ ہیں، تاہم مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث ہر سال متعدد کان کن مختلف حادثات میں اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔

یہ واقعہ بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں حفاظتی اقدامات کے فقدان کی ایک اور مثال ہے سال 2024 میں، بلوچستان میں 48 کوئلہ کان حادثات میں 82 کانکن جانبحق ہوئے، جن میں زیادہ تر واقعات دکی، ہرنائی، مچھ اور کوئٹہ کے علاقوں میں پیش آئے۔، ان حادثات کی بنیادی وجوہات میں مٹی کے تودے گرنا، زہریلی گیسوں کا اخراج اور حفاظتی اقدامات کی کمی شامل ہیں۔

مزدوری یونینز کے مطابق دکی میں جہاں یہ حادثہ پیش آیا، 2024 میں 12 بڑے حادثات رپورٹ ہوئے، جن میں 18 کانکن جانبحق ہوئے، یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو روزانہ کی بنیاد پر خطرناک حالات کا سامنا ہے۔

حکومتی اداروں کی جانب سے حفاظتی اقدامات کی عدم موجودگی اور نگرانی کے فقدان کے باعث، کانکنوں کی زندگیاں مسلسل خطرے میں ہیں، متعدد حادثات کے باوجود، کان مالکان اور متعلقہ حکام کے خلاف قانونی کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان یونینز کا مطالبہ ہے کہ یہ صورتحال مزدوروں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور فوری اصلاحات کی متقاضی ہے تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔