خردِ نگر میں کافر عشق
تحریر: کوہ دل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مغرب کا وقت تھا، سورج افق میں ڈوب کر زردی مائل روشنی کے آخری مرحلوں کے ساتھ اندھیروں کو خلاؤں میں جگہ دے رہا تھا۔ چرواہوں کے ریوڑوں سے بھٹکے ہوئے بھیڑ بکریاں باقی ریوڑ کے سمت چراگاہوں سے اتر رہے تھے۔ آس پاس بندوقیں قطار میں غار کے مختلف کونوں میں بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی تھیں جیسے سرمچاروں کے محفل میں محو گوش گزار ہیں۔ کوئی ساتھی آٹا گوندھ رہا تھا، کوئی لکڑیوں کا گٹھا کندھے پر رکھ کر دوسرے کندھے میں بندوق لیے غار کی طرف بڑھ رہا تھا، تو کوئی پانی کے مشکوں کو ٹٹول رہا تھا۔ چندے ساتھی کسی نہ کسی ایک کام میں مصروفِ عمل نظر آ رہے تھے۔ باقی سرمچار ساتھی خاموشی کے عالم میں بیٹھے ہوئے بڑے التفات سے استاد میراحمد کا گایا ہوا جنگی داستان “ہیروف” سن رہے تھے۔ غار میں چھپی خاموشیاں بلوچی سرونز کے دھن میں اب نکل کر قلندر کی طرح محو رقص تھیں۔ ہر چار سو کوہ و جبل بڑے آداب و احترام سے جیسے اس محفل میں شامل سر جھکائے داستان کے ہر کردار کے نام پر سجدہِ روحِ لرزاں میں گرتا ہوا نظر آتے، اپنے بلندیوں سے محروم ہو کر بہت دور فضا میں کہکشاں سے بھی آگے ان کرداروں کو ڈھونڈنے کی تمنا لیے جب سر اٹھا لیتے تو بہت حقیر خود کو پاکر پھر سے سجودِ یاران کے عشق میں گر جاتے تھے۔ اور بالکل قریب غار میں سنوبر کے جلتے ہوئے لکڑیوں سے خوشبو اٹھ کر ہر سو مہک رہی تھی۔ سردی بھی محبوبہ کی پہلی لمس کی طرح بدن کو چھو رہی تھی۔ ساتھیوں کے چہروں کا تاثر ایسا لگ رہا تھا جیسے رومانوی داستان شہ مرید و ہانی کا قصہ سن رہے ہیں۔ بڑے غور سے جستجو و لگن سے ہر سرمچار داستان میں ایسے غرق دکھ رہا تھا جیسے کوئی تشنگی کے عالم میں کربلائی میدان میں سجدہ ریز ہو اور سب اندر ہی اندر “انا المطیع” ان کرداروں کا نعرہ لگا رہے ہوں۔ کچھ ہی دیر میں اندھیرے نے غار کو ایسے باہوں میں لے لیا جیسے سمو و مست ماوند کے دامن میں وصال پا لیے تھے۔
میں نے ایک پروانے کو اُڑتے ہوئے جا کر آگ میں جھلستے دیکھا۔ کچھ ہی لمحوں میں اُس کے حسین و دلکش زیبائش بھسم ہو کر سیاہ رنگ میں تبدیل ہو گیا۔ میں نے یہ منظر دیکھ کر ایک آہ بھری (ایک پل کے لیے ایسا لگا جیسے وہ پروانہ میری آہ سے جل کر زیست سے فنا کے گود میں گر گیا) اور وہ پروانہ دیکھتے ہی دیکھتے ہمیشہ کے لیے زندگی سے ہار کر یہ پیغام دے گیا کہ جب مقصد روشنی ہو اور پھر روشنی سے عشق ہو تو وہاں فنا ہی بقا بن جاتا ہے۔
میں نے ایک پل کے لیے ان سارے کرداروں پر عقل دوڑائی جو عشق کی انتہا میں محوِ سفر، سر بسر منزل کی جانب رواں دواں خاک نوردی بن کر کوہِ گراں کی چوٹیوں کو جھکنے پر مجبور کر دیے اور ٹھیک اسی وقت، اسی کشمکش میں وہاں میرے عقل نے ہٹ دھرمی اور عنانیت کی حاکمیت کو تسلیم کر کے عشق کو کافر قرار دے دیا۔ اور پھر مجھے کسی شعر کا ایک مصرع یاد آیا کہ “جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول”۔ جب عقل عشق کے موضوع پر تکیہ کرتا ہے تو وہاں ہار ماننے کی جراّت بھی کھو دیتا ہے، پھر اُس کے پاس سوائے بے جا دفاعی دلیل کے کچھ باقی نہیں رہتا۔ شاید یہ میرا قیاس ہے کہ عقل سمندر کی سطح ہے اور عشق گہرائی۔ یہاں وہ لوگ ثابت کر کے دکھاتے ہیں جنہیں گہرائی میں اترنے کا فن آتا ہو، جنہیں تلاطموں سے ٹکرانے کا ہنرِ غواصی آتا ہو۔ یہاں وہ ہستیاں منزلیں طے کرتے ہیں جن کو عقل و گمان سے آگے سفر کرنے کا تجسس ہو۔ لیکن عشق، مخلصی، جستجو، مہارت، ہمت اور حوصلوں کے گود میں جنم لینا اور پھر آگ، تپش، جنگ، ظلمت، وحشت، جارحیت اور استعماریت کے ننگے دور میں جل جل کر کندن بن جانا شاید مجھ جیسے بد قسمت جہدکاروں اور عقل پرستوں کو نصیب نہیں ہوتا۔ ایک ایسا بلوچ خاندان جنہوں نے کئی گھروں کو فوجی جارحیت، بم و توپ، گولہ بارود اور فضائی حملوں سے مسمار دیکھا، اپنے بستی کو منہدم ہوتے دیکھا، جلتے ہوئے جھونپڑوں کے دھوئیں آسمان میں جھومتے دیکھے، جیسے منہدم گھروں سے اُٹھتی ہوئی گرد اور بوٹوں کی تھاپ سے جھلستا ہوا سماں اُن کی غلامی کو دوام بخش رہے تھے۔ بولان کے زخمی بدن پر کہیں دور کسی مٹی کے ٹیلے پر ایک معصوم بلوچ بچہ بدمست ریاست کے ہیلی کاپٹروں کو شیلنگ کرتے ہوئے دیکھ کر سمجھ چکا تھا کہ آج گھروں کو مٹی کے ڈھیر میں بدل دیے جائیں گے اور جو مرد ہاتھ آجائیں گے وہ کسی جیل خانے میں عمر بھر کے لیے سلاسل کیے جائیں گے یا پھر انہیں یہیں پر بڑے بے رحمی سے قتل کیا جائے گا، کیونکہ جنگ نے انہیں سکھا چکا تھا کہ جب بھی ریاستی فوج اس طرح جہاں کہیں بھی قدم رکھا ہے وہاں کسی کو بھی بخشا نہیں گیا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ اسی بولان کے کسی بھسم ہوتے چٹانوں کے دامن میں ایک ہی بلوچ خاندان کے نو لوگوں کو یہی فوج نے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے انہیں ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جن میں خواتین اور معصوم بچے بھی شامل تھے۔ یہ جنگ ہی ہے جو ہمیں کیا سے کیا بنا دیتا ہے اور کیا کچھ سکھا دیتا ہے۔ خالد و طالب بولان کے جلتے ہوئے اسی بستی کے بلوچ نوجوان تھے جس کو ریاستی فوج نے 2016 کے خون آشام آپریشن میں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا اور سات افراد کو یہیں پر قطار میں کھڑا کر کے فائر کھول دیا گیا جو اپنے جسموں پہ ریاستی جارحیت کو پیوست کر کے اپنی سرزمین کو لہو سے نہلا دیا جبکہ ریاست کے ماتھے پر ایک سیاہ تاریخ کا آغاز کر دیا۔ اور پھر ریاستی افواج نے بستی کے سارے مردوں کو سبی کے مختلف ٹارچر سیلوں اور جیل خانوں میں پابند سلاسل کر دیا۔
عشق کیا ہے؟
چلو طالب کے ساتھ بولان کے بلند چٹانوں سے عشق کے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ مہر و محبت کے شہر مہرستان سے جب ہم نکل کر بولان کے بلند و بالا چٹانوں کا رخ کر لیے تو شہر کی روشنیاں کم ہوتے گئے۔ جب جب ہم آگے اپنے منزل کی جانب بڑھتے تو روشنیوں کی جگہ تاریکی لے رہی تھی۔ گھپ اندھیری رات میں چند گھنٹوں کے مسافت کے بعد ہم ایک قصبے پہنچے جہاں بجلی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ دور دور اونچائیوں میں ٹارچ لائٹ چندیا دیتے ہوئے نظر آتے جو فوجی چوکیوں کے پہرے دار تھے۔ اسی قصبے سے کچھ ہی دوری پر ہم آگے پہنچے تو دو نوجوانوں سے ہمارا مصافحہ ہوا جن میں سے ایک شہید فدائی طالب تھا۔ دونوں نے میرا بیگ اور ان کے لیے لائے ہوئے کچھ سامان اپنے اپنے چادروں پر باندھ دیے۔ تو دوسرے ساتھی نے کہا، “طالب آپ اپنے چادر میں زیادہ سامان باندھ لیا، کچھ مجھے دے دو، بھاری ہوں گے، آگے چڑھائی ہے۔” میں نے بھی کافی اصرار کیا کہ سنگت، کچھ سامان مجھے بھی دے دو، میں اٹھا لیتا ہوں۔ وہی خاموش انداز، سر سرکاتا ہوا دو لفظ دھیمی انداز میں ادا کرکے سامان اپنے کندھوں پر باندھ کر کہا، “چلو چلتے ہیں، سفر لمبا ہے پھر دیر ہو جائے گی۔” وہ آگے آگے چلتا بنا، میں اور دوسرا ساتھی اس کے پیچھے ہو لیے۔
بھاری وزن، بندوق اور فوجی ساز و سامان، پانی کا مشکیزہ، اس اندھیری رات میں طالب ایک بار آگے نکلتا تو میں اور دوسرا ساتھی کچھ آگے جاتے۔ طالب گداز آواز دیتا، “اس طرف آؤ، راستہ یہاں سے جاتا ہے۔” ہم ایک گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد قصبے سے دور کسی جگہ پہنچے تو طالب پہلے سے وہاں کھانے کے کچھ سامان نکال کر بیٹھے ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے کھانا نہیں کھایا تھا۔ اس ایک گھنٹے کی مسافت میں راستے میں کئی دفعہ میرا سانس پھولتا تو ہم بیٹھ کر تھوڑا دم لیتے، پھر آگے بڑھتے۔ لیکن طالب ہم دونوں سے آگے آگے فاصلے میں رہتا۔ برک رفتار، لاغر بدن، ہمت و حوصلے کا عظیم مالک طالب کمال کا سرمچار تھا۔
“ترے ہر قدم پر نچھاور من و عن
مرا ہر قدم ہے عدم، ہو جہاں تم”
یہی وہ اندھیری رات کی دوسری پہر تھی جس میں پیدل سفر کے آغوش میں پہلی دفعہ ستاروں کی روشنی کی اہمیت کو میں نے سمجھ لیا کہ کیسے ان کی روشنی میں منزلیں وطن زادیں طے کرتے ہیں۔ ستاروں سے آشنائی، عشق کے پیکر طالب کے ہمراہ محو سفر، سارو کے سنوبر کے درختوں کی خوشبو، تنگ و پتھریلی راستہ، تاریک شب میں چمکتی ہوئی آنکھوں کے رہنمائی میں آگے بڑھتے جانا اور ہمراہی کا درس دینے والے طالب کی صحبتیں جہاں خاموشیاں بھی کچھ نہ کچھ بیاں کرتی ہوئی نظر آئیں۔
ہم آگے بڑھنے لگے، ہمارے سامنے ناہموار ٹھوس چٹان کھڑی تھی اور طالب ہم دونوں سے آگے رواں تھا۔ ایک ایسے جگہ پر میں پہنچ کر بلکل تھک گیا، پیروں نے آگے بڑھنے سے صاف انکار کر دیا۔ بھیڑ بکریوں کے ہر روز آنے جانے سے ایک باریک راستہ بن چکا تھا، ہم اسی راستے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ میں اپنے آپ کو قابو نہ کر سکا، گر گیا۔ طالب کچھ فاصلے دور تھا، اس نے وہاں سے آواز دی، “تورس تورس الپیس تہ شیف آ درنگ اسے”۔ سنگت تھوڑا آگے بڑھا، مجھے کھینچ کر اوپر لایا، میرا سانس پھول رہا تھا۔ اتنے میں طالب بھی پہنچ گیا۔
قربان، آپ کے بات کرنے کے انداز پر ایک ساتھ دھیمی لہجے میں بہت باتیں کہہ گزرتا تھا، “ہاں سنگت جوان، اُس؟ ٹھپ تو متوسک؟ خل مل تو لگتونے؟”
نہ سنگت، کچھ نہیں ہوا، بلکل ٹھیک ہوں، پیر پھسلنے سے گر گیا، لیکن سنگت نے جلدی ہاتھ پکڑ کر نیچے گرنے سے روک دیا۔ قربان، طالب کے محنت کش فطرت پر سنگت کو کہا، “سامان مجھے دے دو، آپ سنگت کو لے آؤ۔” سنگت نے کہا، “نہیں، آپ بس چلتے بنو، میں لے کر آتا ہوں۔” آہستہ آہستہ ہم آرہے ہیں۔ طالب نے کافی اصرار کیا تو سنگت نے کچھ سامان دے دیے۔ طالب سامان لیکر جب نکلا تو پھر ہم نے اُسے راستے میں نہیں دیکھا۔
کبھی کبھی خالد و طالب اور اُس کے والد میشدار بلوچ کے اس جہد میں محنت و مشقت پر سوچتا ہوں، وہاں میرا عقل دنگ رہ جاتا ہے ایسے کردار!! جو ہم جیسے کمزور اور ہمتوں سے ہار جانے والے لوگوں کو موٹیویٹ کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ رہے کہ جب بھی میں اس سفر میں تھک ہار جاتا تو مجھے ہمت بانٹنے والے خالد و طالب جیسے کردار اور ایسے ہی چندے اور کردار تھے جو اس راہِ رواں میں ہر وقت ہمارے سنگتی کا حصہ تھے۔
ہم رات بھر سفر کرتے کرتے لگ بھگ تین بجے کے قریب اوتاک پہنچے۔ ابھی تاریکیاں پھیکی پڑ چکی تھیں، امبر صاف و شفاف اور ستاروں کی جھرمٹ میں چندیہا دے رہے تھے۔ کہکشاں بھی ان کے ساتھ ہمیں روشنی مہیا کرکے اوتاک تک پہنچا دیا۔ طالب کے ساتھ اس جہدِ بے مثال میں یہ ایک رات کی چند گھنٹوں کا ذکر ہے۔ سوچو سالوں کی مسافت میں طالب کو میں نے کتنے قریب سے دیکھا ہوگا، خالد کے ساتھ سالوں کی سنگتی میں کیا کیا میں نے محسوس کیا ہوگا، میشدار کے ساتھ کتنی بار دیوانِ مہر کا موقع پایا ہوگا؟
یادِ ماضی بڑا کھٹن ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
انہیں دنوں کی بات ہے جب ہم ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ کے لیے روانہ ہوئے تو دو دنوں کے مسافت کے فاصلے پر خالد اپنے ایک اور ہم عمر ساتھی کے ساتھ ہمارے انتظار میں تھا تاکہ انہیں آگے لے جاکر دوسرے کیمپ پہنچا دوں۔ یہ خالد سے میرا پہلا ملاقات تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے، خالد کو دیکھ کر مجھے حیرانی ہوئی کہ اس کم عمری میں اتنا بڑا ذمہ داری لینا، کئی سرمچاروں کو ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ تک پہنچانا اور سب سے آگے آگے سفر میں رہنا۔ سفر کے لیے سامان، بستر اور باقی ضروریات کو سنبھالنا میرے ذہن میں ہزاروں سوال کھڑے کر دیا۔ تب میں نے عمر اور صلاحیت کے درمیان امتیاز کو سمجھ لیا کہ صلاحیت کا تعلق اگر عمر سے ہوتا تو چھوٹا خالد کئی سرمچاروں کے آگے آگے نہیں رہتا۔
باکمال، باصلاحیت، باہمت، مخلصی، خشنودی، جفاکشی، ہنس مکھ چہرہ، محنت و مشقت میں آگے آگے اور دلیری میں بے مثال کردار، جنگ کے میدان میں بھی فرنٹ لائن پر جانے کی ضد پر ہمیشہ نظر آتا۔ چھوٹے عمر اور دوستی سے سب اُسے بوجلا نام سے پکارتے تھے۔ وتاخ کا زینت ہوا کرتا تھا۔ امیر الملک کے سوا خالد اور طالب دو وہ ہستیاں ہیں جن پر لکھتے وقت میرے آنکھوں نے میرے دل پر اشک اتارے ہیں۔ میں آج بھی شرمندہ ہوں اپنے اُن الفاظوں پر جو طالب کے ساتھ میں نے بہکاوے میں آ کر کہے تھے۔ اس کے ساتھ جاری سفر میں کئی دفعہ اس سے معافی مانگتا، وہ کہتا، “کوئی بات نہیں، یہ سفر ہی ایسا ہے، کبھی کبھی ایسے الفاظ انسان سے چھوٹ جاتے ہیں۔”
قربان ان بھائیوں کی محنت کے انتہا پر جیسے بولان ان کے ساتھ خوبصورت تھا۔ کبھی کبھی ان پر سوچتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے پورا قوم ان چند خاندانوں کا قرضدار ہے جو کبھی بولان کے دامن میں بسا کرتے تھے۔ اب بس اُن کی یادیں اور گھروں کی گرتی ہوئی دیواروں کے سوا جارحیت کے آثار و باقیات وہاں موجود ہیں۔ بنا لالچ اور بےغرض وطن سے عشق امیر کے بعد میں نے ان میں محسوس کیا ہے۔ خالد، طالب اور میشدار بلوچ مزاحمت کے تاریخی پنوں میں سنہری لفظوں میں جگہ پا چکے ہیں۔ ان پر ان کے عظیم کردار پر میں لاکھ کوششوں کے باوجود بھی لکھ نہیں سکتا کیونکہ وہ تھے ہی ایسے جو مجھ جیسے ادنیٰ لکھاریوں کے صفت و ثناء کے محتاج نہیں۔
بولان سے نکل کر بیلہ تک مزاحمت کے سرچشموں نے یہ واضح کر دیا کہ بولان متاعِ فخر ہے اور بیلہ زیر بار ہے۔
عشق خرد کو بھی کہیں قلندر کہیں پر بھٹائی تو کہیں پر مست توکلی بنا دیتا تھا۔ آج اس قدر شدت اختیار کر چکا ہے کہ مہند میرک بنا کر سرمتابی بھی بخش دیتا ہے۔ عشق کافر عقل کے محفلوں میں کیوں نہ ٹہرے، عشق وطن نے تو مرگ کو بھی للکارا، جہاں فنا بھی وجود رکھنے لگا ہے، جہاں بقا کی عمر طویل ہو چکی ہے، جہاں مزاحمت نے جینا سیکھ لیا ہے، جہاں شعور نے بانجھ پن اکھاڑ پھینکا ہے۔ یہ عشق ہی ہے جہاں عقل دنگ رہ جاتے ہیں اور عشاق بےتپاک منزل کی جانب محو سفر رہتے ہیں۔
بولان یخو کے وہ حسین دلربا ایام بھلائے نہیں جا سکتے جہاں مہند میرک رہنمائی میں اپنا جنگی مشقیں بڑے جستجو سے کیا کرتا تھا۔ صبح چار بجے آدھی اندھیرے میں محبوب نیند سے اٹھ کر باقی ساتھیوں کے ساتھ دوڑ لگاتا، سورج کی روشنی پڑنے تک وہ اپنے جنگی پوزیشنز پر پریکٹس کرتا۔ تیز رفتار اور ہتھیار پر گرفت کی وجہ سے لائن میں اُس جگہ موجود رہتا تھا جو قابل، چست اور ہونہار جنگجوؤں کا ہوتا تھا۔ ہر وقت اپنے مشن پر فکر مند رہتا تھا اور کہتا رہتا کہ دشمن کو ایسا سبق سکھانا ہے کہ صدیوں تک اُس کی نسلیں یاد رکھیں کہ ان کے باپ داداؤں نے غلط جگہ پر قبضہ جمائے رکھنے کی کوششیں کی ہیں۔
سردیوں کے ادوار میں مہند ہر وقت رات دیر تک باقی اوتاک کے چندے دیگر ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر سوالات کے انبار لگایا کرتا تھا۔ کلاسوں میں اکثر سوال کرنے میں پہل کیا کرتا تھا، سیکھنے کا کافی شوق رکھتا تھا۔ آرٹیکل لکھنا چاہتا تھا لیکن اپنے کم علمی پر افسوس کیا کرتا تھا۔ سربلند اور پیرک سے کافی متاثر تھا، اکثر اُن کی باتیں کیا کرتا تھا۔ جب وہ اپنے منزل کے لیے روانہ ہوئے تو اُس نے ایک خط مجھے سونپ کر یہ کہہ کر گیا کہ وطن پر جب جان نثار کروں تو یہ خط جو ٹھوٹی پھوٹی لفظوں میں میں نے لکھا ہے، اس کو آپ ایک نظر ڈال کر بہتر بنا کر شائع ضرور کروانا تاکہ میرے چاہنے والوں کو میرا آخری خط مل سکے۔ میں مہند کے خط کو اُس کے اپنے لکھے انداز میں اپنے اس آرٹیکل کا حصہ بنا رہا ہوں۔
سلام علیکم
“میرک بلوچ”
میرا ایک چھوٹا سا آخری خط ہے۔
Date: Sun: 26: Now
Time: 8:19 PM
امید کرتا ہوں کہ آپ سب لوگ صحیح اور سلامت ہوں گے۔ جب یہ میرا خط آپ لوگوں تک پہنچ جائے گا تو تب میں اس دنیا میں نہیں ہوں گا۔ جیسے کہ آپ سب لوگوں کو معلوم ہے، 27 مارچ 1948 کو پاکستان نے ہمارے وطن پر زبردستی قبضہ کیا اور اسی دن سے آج تک بلوچ اپنی وطن کو اس قبضہ گیر پاکستان سے آزاد کرنے کی ہر کوشش کر رہا ہے اور آزادی تک کرتا رہے گا، جس کے لیے جو بھی کرنا پڑے اُس سے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے چاہے ہماری جان تک کیوں نہ چلی جائے۔
میں جس نے آج اِس وطن کی حفاظت کے لیے اپنی پوری کوشش کی اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک دشمن کے سامنے ڈٹا رہا اور اپنی جان دی لیکن وطن نہیں دیا۔ ایسے اور بھی بہت سی مثالیں ہیں ہمارے پاس جنہوں نے سانس کے آخری قطرے تک دشمن سے لڑتے رہے اور اس وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا لیکن پیچھے ہٹنے کا سوچا بھی نہیں۔
اور میں یہ پیغام دیتا ہوں اپنے خاندان کو اور اپنی ماں کو کہ میرے جانے کے بعد ماتم نہ منائیں اور نہ آنسو کا ایک قطرہ بھی اپنی آنکھوں سے گرائیں بلکہ خوش ہوں کہ اُس کے بچے نے اپنے وطن کی خاطر اپنی جان دی اور شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔ اور اس بات پر فخر کریں کہ اُس نے ایک غیرت مند، آزادی پسند بچے کو جنم دیا جس نے اپنی قوم کی غلامی کو برداشت نہ کیا اور قربان رہا اپنی وطن اور اپنی آزادی کے لیے۔
اور میں یہ امید رکھوں گا اپنے قوم سے کہ وہ آئے اور اس جنگ کا حصہ بنے، اس کو اپنا مانے، اس غلامی سے خود کو نجات دے، خود کو آزاد کردے اور پاکستان کو بلوچستان سے نکلنے پر مجبور کرے۔ “بابا مری” پرماتے ہیں کہ ایک ساتھی کے شہید ہونے کے بعد یا زخمی ہونے کے بعد دوسرا ساتھی بندوق اٹھائے کیونکہ یہی بندوق دشمن کو تکلیف دیتی ہے۔ اگر آزادی دیکھنا چاہتے ہو تو قربانی دینے سے ڈرنا نہیں چاہیے، جس طرح “استاد اسلم” نے اس جہد اور آزادی کے لیے اپنے لخت جگر کو قربان کیا، اسی طرح یہ وطن آپ کا بھی خون پسینہ چاہتا ہے۔
آج ہم شرم سے عید بھی نہیں منا سکتے، ہمارے بھائی ٹارچر سیلوں میں اذیت برداشت کر رہے ہیں اور ہماری بہنیں سڑکوں پر در بدر ہیں، تو ہم کیسے چین اور سکون سے بیٹھ سکتے ہیں؟ یہ شرم کی بات ہے ایک غیرت مند بلوچ کے لیے۔
ایک اور جگہ “بابا مری” پرماتے ہیں کہ جتنا دیر ناانصافی کے خلاف ہٹو گے اتنا ہی زیادہ قربانی دینی پڑے گی۔
اور میں معافی چاہتا ہوں اپنی منگیتر سے کہ آپ کی محبت کی جتنی بھی ذکر کر لوں کم ہے لیکن میں کیا کروں جب وطن کا عشق میرے سامنے آیا تو اس نے میری زندگی ہلا کے رکھ دیا۔ اُسی عشق نے مجھے بولان کے پہاڑوں میں گرادیا۔ مجھے بخش دو کہ میں آپ کے لیے دلہا بن نہ سکا کیونکہ میں وطن کے لیے دلہا بن گیا اور میرے جانے کے بعد پریشان مت ہونا کیونکہ شہید کبھی مرتا نہیں ہے اور کبھی بھی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں