حقیقت سے فرار کا بیانیہ
تحریر: سفرخان بلوچ (آسگال)
دی بلوچستان پوسٹ
ہر قوم کی زندگی میں کچھ ایسے لمحات آتے ہیں جب اسے اپنے اجتماعی وجود، مقصد اور راستے کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ یہ لمحے اکثر بحران، شکست یا مایوسی کے دور میں نمودار ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں انسان یا قوم جب اپنی ناکامیوں، کوتاہیوں یا محرومیوں کی وجہ تلاش کرتی ہے تو وہ ہمیشہ حقیقت کا سامنا نہیں کرتی۔ بعض اوقات وہ حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے، ایک ایسا بیانیہ تراشتی ہے جو وقتی طور پر تسلی دے، مگر عملاً حقیقت سے فرار ہوتا ہے۔
یہ بیانیہ نہ صرف فرد کو ایک خیالی اطمینان دیتا ہے بلکہ رفتہ رفتہ اجتماعی نفسیات کو بھی متاثر کرتا ہے۔ خاص طور پر محکوم اقوام، جن پر مسلسل ظلم، جبر اور استحصال تھوپا جاتا ہے، ان کے اندر یہ رجحان اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنے زخموں کو مرہم کے بجائے دلیلوں سے ڈھانپتے ہیں۔ یہ وہی کیفیت ہے جسے “نفسیاتی دفاعی میکانزم” (Defense Mechanism) کہا جاتا ہے، جہاں حقیقت کی تلخی کو جھوٹی عقلیت کے پردے میں چھپایا جاتا ہے۔
اسی نفسیاتی دفاع کے تحت، ہم اپنی ناکامیوں کے جواز گھڑتے ہیں۔ اگر ہم کسی سیاسی میدان میں ناکام ہوئے، کسی جدوجہد میں پیچھے ہٹے، یا کسی کارواں سے بچھڑ گئے، تو ہم اس کی وجہ ذاتی کمزوری یا حالات کے تجزیے کے بجائے ماضی کو قرار دیتے ہیں۔ اس تسلسل میں ہمیں اکثر اپنی سیاسی مجلسوں میں یہ جملے سننے کو ملتے ہیں کہ “اگر بی ایس او آزاد حمایت سرمچار ریلی نہ نکالتی، تو ریاست کریک ڈاؤن نہ کرتی۔” مگر یہ بات نہ صرف ناقص فکری تجزیہ ہے بلکہ سیاسی سچائی سے فرار بھی ہے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں عمل نہ ہوتا تو آج کا نتیجہ مختلف ہوتا، تو ہم لاشعوری طور پر خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ نفسیات کی اصطلاح میں اس رویے کو “ذہنی تضاد” (Cognitive Dissonance) اور “پس دیدی جواز تراشی” (Retrospective Rationalization) کہا جاتا ہے۔ یعنی ہم اپنی نااہلی یا کمزوری کو عقلی لباس پہنا کر خود کو تسلی دے رہے ہوتے ہیں۔
نوآبادیاتی نظام کا خاصہ ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ مظلوم کو اس کی مزاحمت پر شرمندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ وہ خود اپنے جذبے اور جدوجہد کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے۔ انقلابی مفکر فرانز فینن اس عمل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں نوآبادیاتی جبر صرف جسم کو غلام نہیں بناتا، وہ دماغ پر بھی تسلط قائم کرتا ہے، تاکہ محکوم اپنی حالت کو قدرتی مان لے۔
ریاست کی جانب سے بی ایس او آزاد کے خلاف کریک ڈاؤن کو “حمایت سرمچار” ریلی کا نتیجہ قرار دینا اسی ذہنی تسلط کا عکاس ہے۔ کیا کسی قابض ریاست کو کسی قانونی جواز کی ضرورت ہوتی ہے؟ کیا پاکستان نے بلوچ عوام پر کریک ڈاؤن کے لیے کبھی کسی قانونی و اخلاقی دلیل کا سہارا لیا؟ ہرگز نہیں۔
بی ایس او آزاد ایک ایسی تنظیم ہے جو بلوچ قوم کی آزادی کا عملی اور نظریاتی علمبردار ہے۔ اگر وہ سرمچاروں کی حمایت نہ کرے تو اس کی نظریاتی پہچان دیگر مراعات یافتہ اور مصلحت پسند تنظیموں جیسی ہو جاتی ہے۔ پھر بلوچ نوجوان کیوں اس تنظیم سے جڑتے؟ یہ تو بی ایس او آزاد کا انقلابی بیانیہ ہی تھا جو قربانی، اذیت اور قید کے باوجود ایک روشن مستقبل کی نوید دیتا ہے۔ یہی وہ بیانیہ ہے جو نے ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔
قوموں کی قسمت اس وقت بدلتی ہے جب وہ اپنی تقدیر کو خود رقم کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔” بی ایس او آزاد کے نوجوان وہی حوصلہ لے کر میدان میں اترے، اور انہیں اذیت گاہ، لاپتہ افراد، اور شہداء کی صورت میں صلح ملا اور وہ یہ جانتے تھے کہ ہم اسی کارواں کے مسافر ہیں۔
اسی تسلسل سے ہم ایک اور بیانیہ سنتے ہیں کہ واجہ غلام محمد بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو اس لیے شہید کیا گیا تاکہ جان سلوکی، جسے سرمچاروں نے گرفتار کیا تھا تاکہ اسے ردعمل میں مار دیں، تو یہ دراصل ایک ایسا فکری جال ہے جو ہمیں حقیقت سے دور لے جاتا ہے۔
اگر ہم اس دلیل کو چند لمحوں کے لیے قبول بھی کرلیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جان سلوکی کے بعد ہزاروں بلوچ کارکنوں، سیاسی رہنماؤں اور عام شہریوں کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟ کیا حاجی رزاق، جو ایک درویش صفت صحافی تھا، جو لیاری کی گلیوں میں بےخوف گھومتا تھا، اُسے کیوں اٹھا کر لاش کو مسخ کیا گیا؟ رزاق گل، جو تربت کی سڑکوں پر نظریاتی جرات کا استعارہ تھا، اسے کیوں گولیوں سے چھلنی کیا گیا؟ رسول بخش مینگل کی لاش پر “پاکستان زندہ باد” کیوں لکھا گیا؟ صمد تگرانی، نصیر کمالان، آغا عابد شاہ، ماسٹر عبدالرحمان، سنگت ثناء، جلیل ریکی، کمبر چاکر، الیاس نذر اور کامریڈ قیوم سمیت ہزاروں نوجوانوں کو کیوں مارا دیا جاتا ہے؟
یہ سب شہادتیں ایک سوچے سمجھے ریاستی منصوبے کا حصہ تھیں۔ جیسا کہ فرانز فینن کہتے ہیں “استعماری ریاست کبھی مظلوم کی زبان، سوچ یا مزاحمت کو اصل وجہ نہیں مانتی، وہ صرف وقت کا انتظار کرتی ہے کہ کب وار کیا جائے۔
یہی عمل پاکستان نے بلوچ قوم کے خلاف کیا وہ کبھی جواز کا محتاج نہیں رہا، بلکہ ہمیشہ مناسب لمحے کی تاک میں رہا۔ ان سب کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ بلوچ تھے، اور اپنے تشخص، اپنی زمین اور اپنی آزادی کے لیے آواز بلند کر رہے تھے۔
فرانز فینن ایک اور مقام پر کہتے ہیں قابض ریاست کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہوتا کہ کوئی اس کے خلاف بندوق اٹھائے، بلکہ اس کا خوف اس وقت بڑھتا ہے جب کوئی محکوم اپنی شناخت کا ادراک حاصل کر لیتا ہے۔ ریاست نے صرف ان لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا جو بندوق کے ساتھ مزاحمت کرتے تھے، بلکہ ان کو بھی جو قلم، آواز یا فکر کے ساتھ قومی شعور پھیلا رہے تھے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں ریاستی جبر محض جسمانی سطح تک محدود نہیں رہتا بلکہ ذہنوں پر بھی قابض ہو جاتا ہے۔ جب ریاست مسلسل اپنے بیانیے کو ذرائع ابلاغ، تعلیمی نظام، اور تشدد کے ذریعے مسلط کرتی ہے، تو اس کا سب سے گہرا اثر یہ ہوتا ہے کہ مظلوم خود بھی اس بیانیے کو سچ ماننے لگتا ہے، یا کم از کم اپنی زبان میں اس کے اثرات کو دہرانے لگتا ہے۔ فرانز فینن اس عمل کو “نوآبادیاتی نفسیات” کا نام دیتا ہے، جہاں غلام اپنے آقا کے نظریات کو اپنا لیتا ہے، اور اپنی مزاحمت کو بھی انہی معیارات کے تحت جائز یا ناجائز ثابت کرنے لگتا ہے۔
یہی کیفیت ہمیں اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب ریاست کسی بلوچ نوجوانوں کو قتل کرکے اور انہیں “دہشتگرد” قرار دیتی ہے۔ ہم، ردِعمل میں، کہتے ہیں “نہیں، وہ دہشتگرد نہیں تھے، وہ سیاسی کارکن تھے۔ لیکن اس جواب کے اندر ایک گہری فکری کمزوری چھپی ہوتی ہے یہ تسلیم کرنا کہ “دہشتگردی” کی تعریف ریاست طے کرے گی، اور ہم صرف مخصوص افراد کو اس الزام سے بری کریں گے۔ یہ “اندرونی غلامی” (Internalized Oppression) کی بدترین مثال ہے، جہاں مظلوم اپنے قاتل کے الفاظ، تصورات اور زبان کو اپنا لیتا ہے۔
یہ رویہ ہمیں اس نکتے پر لا کھڑا کرتا ہے جہاں نہ صرف اپنے موقف پر، بلکہ اپنی فکری ساخت، زبان، اور مزاحمتی شعور پر بھی نظرثانی کی شدید ضرورت ہے۔ اگر ہم واقعی ایک آزاد فکری قوم بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں وہ اصطلاحات اور تصورات رد کرنے ہوں گے جو دشمن نے ہم پر مسلط کیے ہیں۔ ہمیں اپنے مزاحمت کاروں کو دہشتگرد کے دفاع میں پیش کرنے کے بجائے، انہیں اُن کے اصل ناموں، مقاصد اور قربانیوں کے ساتھ اپنی قوم کا ہیرو تسلیم کرنا ہوگا، کیونکہ جیسا کہ نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا “فتح ہمیشہ اس کی ہوتی ہے جو اپنی زبان اور نظریہ خود بناتا ہے، دوسروں کے الفاظ بولنے والے ہمیشہ محکوم رہتے ہیں۔”
جب مظلوم اپنی مظلومیت کے لیے خود کو ہی موردِ الزام ٹھہرانے لگے، تو یہ شکست صرف میدانِ جنگ کی نہیں بلکہ شعور، زبان اور نظریے کی بھی ہوتی ہے۔ جب ہم اپنی کمزوریوں کو “غلطیاں” قرار دے کر اس پر بیانیے تراشتے ہیں، تو ہم محض وقت کو بہلانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر سچائی یہی ہے کہ ہم اپنی فکری پوزیشن، اپنی مزاحمت اور اپنے نظریے پر ڈگمگا رہے ہوتے ہیں۔
فرانز فینن نے کہا تھا کہ نوآبادیاتی غلامی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ غلام وقت کے ساتھ اپنے آقا کا نظریہ اپنا لیتا ہے اور خود کو کمتر، اپنی مزاحمت کو غیر ضروری، اور دشمن کے ظلم کو “ردعمل” سمجھنے لگتا ہے۔ یہی وہ اندرونی شکست ہے جس سے بچنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آزادی ایک فطری حق ہے، تو پھر ہمیں اپنے بیانیے، اپنی زبان، اور اپنے فکری ڈھانچے کو استعماری اثرات سے آزاد کرنا ہوگا۔ ہمیں ہر اس نفسیاتی اور لسانی جواز کو رد کرنا ہوگا جو ہماری مزاحمت کو “غلطی” یا “شدت پسندی” کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہمیں مزاحمت کو ایک “ردعمل” کے بجائے ایک “اصول” کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔
نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا “جس قوم کے پاس اپنے ہیروز کا بیانیہ نہ ہو، اسے دشمن کے بیانیے میں دفن ہونا پڑتا ہے۔ آج بلوچ نوجوانوں کے پاس بندوق بھی ہے، نظریہ بھی، اور سب سے بڑھ کر قربانی کا جذبہ بھی، ہمیں بس اتنا کرنا ہے کہ اپنے اندر سے ہر قسم کی فکری کمزوری، ذہنی غلامی اور خود فریبی کو نکال پھینکنا ہوگا، کیونکہ آزادی نہ بہانوں سے ملتی ہے، نہ جواز سے، آزادی فقط قربانی، یقین اور استقامت سے ملتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں