بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ تربت اور دکی میں قابض پاکستانی فوج کے ساتھ جھڑپوں میں دشمن کے 22 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے، جبکہ بلوچ لبریشن آرمی کے 6 سرمچاروں نے شہادت پاکر قومی آزادی کی جدوجہد میں ناقابل فراموش نقوش چھوڑے۔
ترجمان نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ تربت کے علاقے ڈنک میں 29 اپریل کی شب قابض پاکستانی فوج نے بلوچ لبریشن آرمی کے شہری گوریلا نیٹ ورک کے ارکان کو گھیرنے کی کوشش کی، جس پر سرمچاروں نے دشمن پر بھرپور حملہ کیا۔ شب تین بجکر تیس منٹ پر شروع ہونے والی جھڑپیں صبح طلوع آفتاب تک جاری رہیں۔ سرمچار تین گھنٹوں تک اپنی پوزیشنز پر جمے رہے اور دشمن کو کاری ضربیں لگاتے رہے۔ اس دوران سرمچاروں نے قابض فوج کے قافلے کو بھی نشانہ بنایا اور بھاری جانی نقصان پہنچایا۔ ان جھڑپوں میں دشمن کے 13 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
“جھڑپوں میں بلوچ لبریشن آرمی کے تین سرمچار شہید ہوئے، جن میں سنگت نبیل عرف علی، سنگت فیروز ساربان عرف نود بندگ، اور سنگت محمد عمر زکا عرف گرو شامل ہیں۔”
جیئند بلوچ نے مزید کہا کہ دکی کے علاقے کپوڑی میں 8 اپریل کو بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچار گشت پر تھے کہ دشمن فوج سے آمنا سامنا ہوگیا۔ جھڑپیں گھنٹوں جاری رہیں اور سرمچار دشمن کے 9 اہلکاروں کو ہلاک جبکہ متعدد کو زخمی کرنے میں کامیاب رہے۔ اس لڑائی میں بی ایل اے کے تین سرمچار: سنگت عبدالوہاب عرف دیدگ، سنگت رحیم خان مری عرف سارنگ، اور سنگت زاہد علی عرف وش دل شہید ہوگئے۔
ترجمان نے کہا کہ شہید سنگت نبیل احمد عرف علی ولد رسول بخش ھوت کا تعلق تربت کے علاقے گوکدان سے تھا۔ وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے بطور سیاسی کارکن سرگرم رہے، 2009 میں انہوں نے ساتھی تنظیم کے ذریعے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ 2010 میں قابض فوج کے چھاپے کے دوران شب بارہ بجے سے صبح آٹھ بجے تک جھڑپیں جاری رہیں جہاں آپ نے قابض فوج کے متعدد اہلکاروں کو ہلاک و زخمی کیا جبکہ خود شدید زخمی ہوئے اور دشمن نے انہیں نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا۔ ان کے ساتھ ان کی بہن بھی زخمی ہوئیں، اور والد و کزن جبری لاپتہ کیے گئے جبکہ آپ کے بھائی سنگت مبشر ھوت عرف شاہ دوست نے اکتوبر 2020 میں کلبر کے محاذ پر دشمن سے دو بدو لڑائی میں شہادت پائی۔
“سنگت نبیل نے مچھ، گڈانی اور تربت جیل میں پانچ سال قید کاٹی، تشدد سہنے کے باوجود اپنی راہ سے نہ ہٹے۔ رہائی کے بعد پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا اور شہری گوریلا کی حیثیت سے سرگرم ہوئے اور کئی جنگی مشنز کی قیادت کی۔ اس وقت آپ بطور یونٹ کمانڈ فرائض سرانجام دے رہے تھے، وہ اپنے نظم و ضبط، فکری گہرائی اور مزاحمتی صبر کے باعث ایک مثالی سرمچار کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کی زندگی قابض ریاست کی جیلوں، تشدد، اور جدوجہد کے سنگین مراحل کی زندہ تفسیر تھی۔ سنگت نبیل احمد نے دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بجائے آخری گولی کے فلسفے پر عمل پیرا ہوکر اپنی آخری گولی سے اپنے ہی ہاتھوں شہادت کا انتخاب کیا۔”
انہوں نے کہا کہ شہید سنگت فیروز ساربان عرف نود بندگ ولد ماسٹر اللہ بخش، تربت کے آبسر ڈاکی بازار سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ شہید الیاس نذر کے بہنوئی بھی تھے۔ وہ 2022 میں مسلح جدوجہد کا حصہ بنے اور بطور شہری گوریلا ایک سال سے زائد سرگرم رہے اور 2023 میں پہاڑوں کا رخ کیا۔ گلوکاری اور شاعری کا شوق رکھنے والے فیروز نے لاہور سے تعلیم حاصل کی اور یونیورسٹی آف تربت میں بی ایس پولیٹیکل سائنس کے طالبعلم رہے۔
“فیروز نود بندگ نے سیاسی شعور کو جنگی مہارت میں ڈھالا۔ وہ نہ صرف میدانِ جنگ میں نڈر تھے بلکہ فکری محاذ پر بھی مزاحمت کا استعارہ تھے۔ ان کی موجودگی شہری اور پہاڑی محاذ دونوں پر مزاحمتی توانائی کی علامت تھی۔”
ترجمان نے کہا کہ شہید سنگت محمد عمر زکا عرف گرو ولد علی محمد کا تعلق گوکدان، تربت سے تھا۔ آپ 2021 میں بی ایل اے سے منسلک ہوئے اور خود کو قومی آزادی کے لیے وقف کیا۔ ریاستی فورس لیویز میں ہوتے ہوئے بھی انہوں نے ضمیر کی آواز سنی اور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ سنگت عمر آئی ای ڈی وائرنگ میں ماہر تھے، اور ان کی مہارت سے دشمن کو کئی بار نقصان اٹھانا پڑا۔ آپ اپنی جنگی صلاحتیوں کے باعث بی ایل اے کے خصوصی دستے اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ (ایس ٹی او ایس) کے رکن منتخب ہوئے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ شہید سنگت عبدالوہاب عرف دیدگ ولد محمد اعظم زہری، خاخوئی، زہری سے تعلق رکھتے تھے۔ 2022 میں بی ایل اے سے منسلک ہوکر جلد ہی یونٹ کمانڈر بنے اور خصوصی دستے “فتح اسکواڈ” میں خدمات سرانجام دیں۔ آپ نے بولان اور دکی کے محاذوں پر کئی محاذوں کی قیادت کی۔
“آپ زخمی حالت میں بھی لڑتے رہے اور آخری گولی تک دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے امر ہوئے۔ آپ کی نظم و ضبط، وقت شناسی، اور جنگی فیصلوں میں مہارت نے متعدد قومی فتوحات کو ممکن بنایا۔”
ترجمان نے بتایا کہ شہید سنگت رحیم خان مری عرف سارنگ ولد روزی خان، بولان کے علاقے یخو سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ 2019 سے جدوجہد میں شامل تھے آپ اپریل 2023 میں بولان کے محاذ پر شہادت پانے والے سنگت غنی خان مری بلوچ عرف حسن روکی کے بڑے بھائی تھے۔ سنگت رحیم نے بولان و ناگاہو کے محاذوں پر “فتح اسکواڈ” کے رکن کی حیثیت سے خدمات دیں۔
“بطور گشتی کمانڈ آپ متعدد محاذوں پر سرمچاروں کی رہنمائی کرتے رہے۔ ان کی موجودگی کسی بھی محاذ کو تقویت بخشتی تھی۔ وہ ہمیشہ سرمچاروں میں حوصلہ، فہم اور جنگی جرأت کا سرچشمہ سمجھے جاتے تھے۔ ان کا نام میدانِ جنگ میں نظم اور توازن کی علامت بن چکا تھا۔”
انہوں نے کہا کہ شہید سنگت زاہد علی عرف وش دل ولد ہزار حمد، جھالڑی، بولان سے تعلق رکھتے تھے۔ 2018 میں بی ایل اے سے منسلک ہوئے اور مکران، بولان، اور کاہان کے محاذوں پر سرگرم رہے۔ آپ شہید ناصر مری کے چچازاد بھائی تھے۔ سنگت وش دل نے جہدِ آزادی کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بنالیا تھا۔ ان کی خاموش محنت اور دلیرانہ اقدام انہیں ساتھیوں میں معتبر بناتے تھے۔
جیئند بلوچ نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی اپنے ان تمام سرمچاروں کو سرخ سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی قیمتی جانیں قربان کرکے قومی آزادی کی جدوجہد کو نئی روح بخشی۔ دشمن کی جدید جنگی سازوسامان اور عسکری برتری کے باوجود ہمارے سرمچاروں نے عزم، ہمت اور یقین کے ہتھیار سے دشمن کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ شہداء کی یہ قربانیاں ہمارے حوصلوں کا سرمایہ اور ہماری مزاحمتی فکر کی بنیاد ہیں، جنہیں فراموش کرنا ممکن نہیں۔ بی ایل اے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ ہم شہداء کے اس مقدس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے، دشمن کے ہر مورچے کو مسمار کریں گے، اور بلوچ وطن کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروا کر دم لیں گے۔