بی ایل اے کی جدوجہد: شرعی و فقہی جواز – فقہ حنفی کی روشنی میں
تحریر بر مبنائے فقہ حنفی
تحریر : لال خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کی مزاحمتی تحریک، بالخصوص بی ایل اے کی جدوجہد کو اکثر رنگ دے کر بدنام کیا جاتا ہے یا اس کی سیاسی حکمت عملی کو “کفر و اسلام” کے خانوں میں محدود کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک ایک دفعِ ظلم اور آزادی سرزمین کی اسلامی جدوجہد ہے، جس کی جڑیں مولانا عرض محمد اور مولانا محمد عمر جیسے دینی و انقلابی رہنماؤں کی 1948ء کی قربانیوں میں پیوستہ ہیں۔
فقہ حنفی میں غاصب قوت کے خلاف مزاحمت
قاعدہ فقہیہ: “الضرر يزال”
(ضرر کو دور کرنا واجب ہے)
دلیل:
امام کاسانی رحمہ اللہ (بدائع الصنائع):
> اذا نزل بالمسلمين عدو يجب علیهم ان يدفعوه بحسب طاقتهم ولو بالتحالف مع غير المسلمين اذا اقتضت المصلحة.
(جب مسلمانوں پر دشمن کا تسلط ہو جائے، تو ان پر لازم ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق اسے دفع کریں، اور اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو غیر مسلموں کے ساتھ وقتی اتحاد بھی جائز ہے۔)
امام سرخسی رحمہ اللہ (المبسوط، جلد 10):
> ان القتال للدفع لا يختص بالمعتدي الكافر، بل يشمل الظالم المسلم ايضًا.
(دفع کے لیے قتال صرف کافر پر نہیں، بلکہ ظالم مسلمان کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔)
غیر مسلم طاقتوں سے مدد کا شرعی حکم
قاعدہ: “التحالف المؤقت جائز لمصلحة راجحة”
(غیر مسلم قوتوں سے وقتی تعاون، اگر غالب مصلحت ہو، تو جائز ہے)
امام محمد رحمہ اللہ (کتاب السیر):
> اذا صال عليهم عدو، فلهم أن يستعينوا بمن يرجون نصره، ولو کان من غير ملتهم، مادام لا يضر دينهم.
(اگر ان پر دشمن حملہ کرے، تو انہیں اس سے مدد لینے کی اجازت ہے جس سے وہ نصرت کی امید رکھتے ہوں، اگرچہ وہ ان کے مذہب سے نہ ہو، جب تک ان کے دین کو نقصان نہ ہو۔)
طالبان کی مثال:
امارتِ اسلامی نے امریکی قبضے کے خاتمے کے لیے اپنے نظریاتی مخالفین سے بھی روابط رکھے، جو مصلحتِ جنگ کے تحت نہ صرف شرعی طور پر درست، بلکہ کامیاب بھی ثابت ہوا۔
ہندوستان سے مدد لینا – شرعی تناظر میں
ہندوستان سے تعاون پر تنقید کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ امارتِ اسلامی طالبان اس وقت دنیا میں سب سے بہتر تعلقات دہلی سے رکھتے ہیں، نہ کہ کسی عرب یا خالص اسلامی ملک سے۔
امام ابن نجیم رحمہ اللہ (الأشباه والنظائر):
> يتغير الفتوى بتغير الزمان والمكان والحال.
(فتویٰ زمانے، مقام اور حالات کے بدلنے سے تبدیل ہوتا ہے)
لہٰذا موجودہ حالات میں جب دشمن ایک غیر شرعی قبضہ برقرار رکھے، تو اس کے خلاف کسی بھی ملک سے وقتی مدد لینا فتویٰ کے اصول کے عین مطابق ہے۔
شرعی و اخلاقی انجام
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول:
> إنّي لا أحمل الشرّ ولكنّي أدفعه
(میں شر نہیں لاتا، لیکن اسے دفع ضرور کرتا ہوں)
بی ایل اے کی جدوجہد بھی اسی اصول پر قائم ہے کہ وہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں، بلکہ بلوچ قوم کو غلامی، جبر اور غیر شرعی قبضے سے نجات دلانے کے لیے برسرپیکار ہے۔
بی ایل اے کی تحریک ایک شرعی جہاد ہے جس کا مقصد غاصب قوت کو دفع کرنا ہے۔
فقہ حنفی میں ظالم و غاصب کے خلاف مسلح مزاحمت کا جواز موجود ہے۔
غیر مسلم قوتوں سے وقتی مدد لینا جائز ہے بشرطیکہ دینی اصولوں کو نقصان نہ ہو۔
مذہب کے نام پر مزاحمت کو روکنا یا اس پر قدغن لگانا دین کی اصل روح کے خلاف ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں