بیانیے کی قید، کرد انتباہ ،بلوچ سوال – جی ایم بلوچ

67

بیانیے کی قید، کرد انتباہ ،بلوچ سوال

تحریر: جی ایم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ کی گہرائیوں میں قوموں کی جدوجہد صرف زمینی سرحدوں یا سیاسی فتوحات تک محدود نہیں رہتی بلکہ وہ ایک فلسفیانہ اور ثقافتی تناظر کا بھی آئینہ ہوتی ہے۔ کردوں کی مسلح مزاحمت، جسے ہم نے ایک وقت میں آزادی کی متحرک روشنی سمجھا، آج اس مقام پر ہے جہاں وہ اپنے بیانیے کی جبر زدہ حدود میں گر چکی ہے۔ جیسا کہ برز کوہی نے بڑی تلخ دلی سے کہا:
“پی کے کے کوزے میں بند ایک روایت ہے، جس نے خود کو عالمی قبولیت کی اس قید میں قید کیا، جہاں نظریاتی شدت نے اپنی اصل روح کھو دی۔”

یہ کوزہ، ایک ایسی بند دنیا ہے جہاں مزاحمت کے تیز دھاروں کو گونجنے کی جگہ نہیں دی جاتی، جہاں انقلاب کی آواز کو مصلحت پسندی کی چادر میں لپیٹ کر ایک محدود اور ماڈریٹ فریم ورک میں دفن کیا جاتا ہے۔ یہ تجربہ بلوچ قوم کے لیے ایک وارننگ ہے کہ اگر ہم نے اپنی فکری اور نظریاتی بنیادوں کو مضبوط نہ کیا، تو ہمارا بیانیہ بھی اسی کوزے کی قید میں پھنس جائے گا۔

کرد تحریک کی اس پیچیدگی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دیگر قومی تحریکوں کے تجربات پر بھی نظر ڈالیں۔ چیچنیا کی مزاحمتی تحریک، جو روسی جبر کے خلاف لمبے عرصے تک جاری رہی، اپنی عسکری طاقت کے باوجود اندرونی تقسیم اور عالمی جغرافیائی پیچیدگیوں کا شکار رہی۔ چیچن جدوجہد ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ عسکری قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی، قومی اتحاد، اور عالمی سیاسی معاملات کی گہری سمجھ بوجھ ناگزیر ہے۔

اسی طرح، تامل ٹائیگرز کی تحریک، جو سری لنکا میں اپنی شناخت اور خود مختاری کے لیے لڑی گئی، عالمی انسانی حقوق کی زبان میں بدلتے ہوئے اپنے انقلابی فلسفے کو کھو بیٹھی۔ تامل تحریک کی شکست ہمیں بتاتی ہے کہ عالمی سیاسی زبان میں اپنے مطالبات کی ترجمانی ایک نازک فن ہے، جسے سمجھنا اور اس میں اپنے نظریات کو زندہ رکھنا قومی بقاء کے لیے ضروری ہے۔

آئرش قومی تحریک اور سکاٹ لینڈ کی خودمختاری کی جدوجہد، اگرچہ الگ سیاسی سیاق و سباق میں ہیں، مگر یہ بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ قومی شناخت اور خودارادیت کے مطالبات کو عالمی سطح پر مؤثر طریقے سے پیش کرنے کے لیے سیاسی تدبیر اور فکری پختگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سکاٹ لینڈ کی تحریک نے اپنی کامیابی کا راز اس بات میں پایا کہ انہوں نے اپنے مطالبات کو ایک جمہوری، پرامن اور عملی طریقے سے دنیا کے سامنے رکھا، جبکہ آئرش تحریک نے داخلی سیاسی اختلافات کی وجہ سے اپنی تاثیر کھو دی۔
کردوں کی موجودہ صورتِ حال ان تمام تحریکوں کی کہانی میں ایک مشترکہ پہلو کا انکشاف کرتی ہے مسلح مزاحمت جب عالمی قبولیت اور اندرونی سیاسی مصلحتوں کی قید میں آتی ہے تو وہ اپنے اصلی فکری اور نظریاتی جوہر کو کھو دیتی ہے۔

یہی وہ پیغام ہے جو بلوچ قوم کو غور سے سننا ہوگا۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے بیانیے کو ایک زندہ، متحرک، اور پختہ نظریاتی فریم ورک میں بدلیں جو عالمی طاقتوں کی مصلحت سے ماورا ہو۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ آزادی کا سفر صرف ہتھیار اٹھانے کی لڑائی نہیں، بلکہ فکری اتحاد، نظریاتی استحکام، اور قومی شعور کی گہری جڑوں کا تقاضا کرتا ہے۔

پی کے کے کی پسپائی کا فلسفہ یہ ہے کہ جب مزاحمت کی روح عالمی طاقتوں کے مفادات کے ساتھ ایڈجسٹ ہو جائے، تو وہ اپنا انقلابی جوش کھو بیٹھتی ہے۔ اسی لیے بلوچ قوم کو چاہیے کہ وہ اپنے بیانیے کو صرف الفاظ کی حد تک محدود نہ رکھے بلکہ اپنے عمل اور فیصلوں میں بھی اسے زندہ اور موثر بنائے۔ ہمیں عالمی “جمہوری اصلاحات” یا “ثقافتی خودمختاری” جیسے مصلحت آمیز مفاہمتوں کی بجائے اپنے حاکمیت کے حق کو ترجیح دینی ہوگی، کیونکہ بغیر حقیقی حاکمیت کے برابری کے دعوے محض سیاسی فریب ہیں۔

مزاحمت کی تاریخ ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ قیادت کی گرفتاری یا جبر صرف عسکری نقصان نہیں، بلکہ ایک فکری آزمائش ہے۔
قیادت کے بغیر تحریک کا زندہ رہنا، اور اس کا فکری مرکز اپنی جگہ قائم رکھنا ہی کسی مزاحمتی تحریک کی بقاء کا اصل پیمانہ ہے۔ بلوچ قوم کو چاہیے کہ وہ اپنے تنظیمی ڈھانچے کو اس طرح منظم کرے کہ قیادت کی گرفتاری یا کمی کے باوجود تحریک کا نظریاتی وجود مستحکم رہے اور بیانیہ ایک مستقل روحانی توانائی کا حامل ہو۔

ردوں کی جدوجہد کا جو پہلو سب سے زیادہ قابلِ غور ہے، وہ ان کے بیانیے کی حد بندی اور اس کی ڈی موبلائزیشن ہے، جو برزکوہی نے اس طرح بیان کیا:
“پی کے کے نے عسکری، سماجی، تعلیمی اور نظریاتی سطح پر کردوں کو متحد کیا، مگر جب یہ تحریک عالمی سیاست میں ماڈریٹ اتحادی بن گئی، تو اس کا بیانیہ ایک نئی صورت اختیار کر گیا جو انقلاب سے جمہوری اصلاحات تک سمٹ گیا۔”

یہ جملہ ہمارے لیے انتباہ ہے کہ کوئی بھی قومی تحریک جب بیانیے کی طاقت کھو بیٹھے، تو وہ ایک فکری قید میں آ جاتی ہے، جہاں حقیقی مزاحمت کے بجائے مصلحت پسندی سرِ فہرست آ جاتی ہے۔

آخر میں، بلوچ قوم کو یاد رکھنا ہوگا کہ مزاحمت کا حقیقی حسن اس کی فکری اور نظریاتی پختگی میں ہے، جو نہ صرف وقت کے آزمائشی لمحات میں قائم رہے بلکہ عالمی طاقتوں کے جال میں بھی اپنی خود مختاری کو برقرار رکھے۔ ہمیں اپنے بیانیے کو ایسے عملی نظریے میں بدلنا ہوگا جو قربانی کو صرف امن کی کرنسی نہ بنائے بلکہ ایک قومی شعور کی طاقت بنائے۔ یہ شعور ہی ہماری تحریک کو ناقابل تسخیر بنائے گا۔

کردوں کی قربانیوں کا احترام لازمی ہے، لیکن ان کے پسپائی کو ہم اپنی شکست کی علامت نہیں بنائیں گے۔ ہمارا بیانیہ، ہمارا عمل، اور ہمارا سفر ہمیشہ آزادی کے لیے ایک مستقل، بے لوث، اور فکری عزم کی عکاسی کرے گا۔ یہی وہ فلسفیانہ سبق ہے جو بلوچ قوم کو کردوں کی تاریخ سے حاصل کرنا ہے۔

آزادی کا سفر وہی کامیاب ہوتا ہے جو فکری قوت، نظریاتی استحکام، اور قومی اتحاد کا حامل ہو، اور جو عالمی مصلحتوں کے جال سے آزاد ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں