بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی کال پر آج تربت شہر میں ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس میں بڑی تعداد میں شہریوں، طلبہ، خواتین اور سیاسی کارکنوں نے شرکت کی۔
ریلی میں بی وائی سی کے رہنماؤں کی گرفتاری، نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف آواز بلند کیا گیا۔
ریلی کا آغاز ایڈووکیٹ روڈ سے ہوا جو سینما چوک تک مارچ کرتے ہوئے شہید فدا چوک پر پہنچ کر ایک احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہوگئی۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر بلوچ رہنماؤں کی رہائی اور انسانی حقوق کی بحالی کے مطالبات درج تھے۔ شرکا نے راستے بھر میں نعرہ بازی کی اور ریاستی پالیسیوں کے خلاف سخت ردِ عمل کا اظہار کیا۔
مظاہرین نے بی وائی سی کے آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور مرکزی قائدین بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی اور بیبگر بلوچ کی گرفتاریوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عدلیہ پر شدید تنقید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں آزاد نہیں رہیں بلکہ پیرول پر کام کر رہی ہیں اور ریاستی اداروں کے حکم پر عمل کرتی ہیں۔
مقررین نے کہا کہ زیر حراست رہنماؤں کو بغیر مقدمہ کے طویل عرصے تک حراست میں رکھا جا رہا ہے اور ان کے خلاف 3 ایم پی او جیسے کالے قوانین کو ہر ماہ توسیع دے کر ان کی رہائی روکی جا رہی ہے۔ انہوں نے اس عمل کو آئین میں دی گئی شخصی آزادی کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
احتجاجی مظاہرین نے اقوامِ متحدہ، عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی سے اپیل کی کہ وہ بلوچ قیادت کی غیر قانونی گرفتاری اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لیں۔
مقررین نے بلوچستان میں نوجوانوں کی جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل اور لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کیے جانے کے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ پالیسیز جاری رہیں تو خطے میں حالات مزید خراب ہوں گے۔