بلوچ قوم کے خلاف ریاستی جبر ناقابلِ برداشت حدوں کو چھو رہا ہے۔ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

73

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے ایک وڈیو بیان میں کہا ہے کہ ریاست پاکستان کی جانب سے بلوچ قوم کے خلاف جاری جبر، تشدد اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اسے مزید برداشت کرنا خود اپنی شناخت سے دستبرداری کے مترادف ہوگا۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ اس ظالم اور جابر ریاست کی سفاکیت اور درندگی ہم سب کے سامنے عیاں ہے۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح بلاجواز اور بلاتفریق ہمارے سیاسی رہنماؤں کو پابندِ سلاسل کیا گیا ہے۔ یہ نوآبادیاتی قوت اپنے طاقت کے نشے میں اس قدر اندھی ہو چکی ہے کہ نہ اسے عمر کی پروا ہے، نہ جنس یا پیشے کی۔ اگر وہ کسی چیز کا خیال رکھتا ہے تو وہ صرف بلوچ شناخت ہے — اور اسی شناخت کی بنیاد پر بلوچوں کو مارا جا رہا ہے، اغوا کیا جا رہا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ہم سالوں سے ریاستی بربریت کا سامنا کرتے آ رہے ہیں، لیکن حالیہ عرصے میں ہم نے ریاست کی سب سے بھیانک شکل دیکھی ہے ، جب نہتے مظاہرین پر گولیاں برسائی گئیں، آنسو گیس کا استعمال کیا گیا، اور واٹر کینن کے ذریعے ان کی آوازیں دبانے کی کوشش کی گئی۔ جب سے ہمارے رہنما قید میں ہیں، ریاست نے پورے بلوچستان میں اس گھمنڈ کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنا شروع کر دی ہے کہ اب ان کے ظلم کے خلاف بولنے والا کوئی نہیں بچا۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے بلوچ عوام کی خاموشی پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم آہستہ آہستہ ریاست کے ظلم کے آگے خاموشی کو معمول بناتے جا رہے ہیں، جو ہمارے لیے موت سے کم نہیں۔ ماضی قریب میں جب بھی کوئی شخص اٹھایا جاتا یا ماورائے عدالت قتل ہوتا، تو اس کے لواحقین سراپا احتجاج ہوتے، لیکن آج ہم خاموش ہیں۔ ہر روز کسی نہ کسی علاقے سے جبری گمشدگیاں ہو رہی ہیں، مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا رہی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم خاموش کیوں ہیں؟”

انہوں نے یاد دلایا کہ کیا ہم شہید بالاچ مولابخش کو بھول چکے ہیں؟ وہی بالاچ جس کی شہادت نے ایک تحریک کو جنم دیا، اور جس کے لواحقین نے خاموشی کا گلا گھونٹ کر ہمیں ایک آواز بنایا۔ آج بھی بالاچ مر رہے ہیں، لیکن ہم خاموش ہیں۔ کیا ہم اپنی خاموشی سے شہداء کے خون سے غداری کے مرتکب نہیں ہو رہے؟”ل

بیان کے آخر میں انہوں نے واضح کیا کہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ بی وائی سی صرف ایک تنظیم یا قیادت کا نام نہیں، بلکہ یہ پوری بلوچ قوم کی نمائندگی کرتی ہے — وہ قوم جو ریاستی جبر کے سامنے لاشیں اٹھا رہی ہے، جو اپنے گھر اجڑتے دیکھ رہی ہے۔ آج ہر بلوچ، جو اس ظلم کو دیکھ رہا ہے، اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا کوئی رہنما۔ جب زندگی اور موت کے بیچ صرف مزاحمت کا رستہ باقی رہ جائے تو خاموشی خودکشی کے مترادف ہوتی ہے۔ ہمیں اس خاموشی کو توڑنا ہوگا۔ ظالم کبھی غلامی میں تفریق نہیں کرتا، تو ہم کیوں اس خام خیالی میں رہیں کہ خاموشی ہمیں بچا لے گی؟”